باصر سلطان کاظمی
غزل 48
نظم 10
اشعار 15
باصرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تو جب سامنے ہوتا ہے
اور کہیں ہوتا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
چمکی تھی ایک برق سی پھولوں کے آس پاس
پھر کیا ہوا چمن میں مجھے کچھ خبر نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ختم ہوئیں ساری باتیں
اچھا اب چلتا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کیسے یاد رہی تجھ کو
میری اک چھوٹی سی بھول
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 13
تصویری شاعری 2
یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے اس قدر ہجر میں کی نجم_شماری ہم نے جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی پر وہ دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم_از_کم دو بار ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے ایک رخسار پہ دیکھا ہے وہ تل ہم نے بھی ہو سمرقند مقابل کہ بخارا کم ہے اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں ہم نے ہم_راہ ابھی وقت گزارا کم ہے باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے