Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈاکٹر یاسین عاطر کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

تمہیں ہمیشہ ضرورت پکڑ کے لاتی ہے

کبھی تو آؤ مرے گھر مرے حوالے سے

ریت بن کر مری مٹھی سے پھسل جاتی ہے

اب محبت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے

اے زندگی تو مرے حوصلے کی داد تو دے

میں اٹھ کے روز نیا دن گلے لگاتا ہوں

میں خود کو بھی نہیں اتنا میسر

وہ سو فیصد توجہ چاہتا ہے

نہ جانے کون سی غربت ہے میری آنکھوں میں

کہ اس بدن میں خزانے تلاش کرتا ہوں

اپنے دشمن کو بھی محبت دے

عشق کے دائرے کو وسعت دے

تم سے اب میرا تعلق صرف اتنا ہے کہ بس

روز موسم دیکھ لیتا ہوں تمہارے شہر کا

آپ سینے میں چھپاتے ہیں محبت اپنی

ہم کو دیوار کے پیچھے بھی نظر آتا ہے

جانچ لیتی ہیں محبت کی نگاہیں پل میں

ناپ لے کر تو سوئیٹر نہیں بنتے جاناں

میں آندھیوں سے لڑا تھا اس اعتماد کے ساتھ

درخت ٹوٹ بھی جائے تو کام آتا ہے

ایک دو گھونٹ میں کر ڈالے گا خالی تم کو

تم جو دریا ہو تو صحرا سے نہ ٹکر لینا

تری گرفت مرا مرتبہ بڑھاتی ہے

مجھے تو اپنی محبت میں مبتلا رکھنا

تمام شہر ہی جوگی سمجھ رہا ہے مجھے

تمہارے دھیان کی مالا گلے میں کیا پہنی

خواب سچا ہو تو مبہم نہیں رہتا عاطرؔ

دل وہ یوسف ہے کہ تعبیر بتا دیتا ہے

مست حسین لوگوں میں ڈھونڈئیے وفاداری

خوش نما درختوں پر پھل نہیں لگا کرتے

ایک ہلکی سی بھی آہٹ ہو تو ڈر جاتا ہے

شیر کی کھال کو دہلیز پہ رکھنے والا

میں اپنی ذات میں خود سے جھگڑتا رہتا ہوں

وہ چاہتا ہے رہوں اس کی حکمرانی میں

اب آ گیا ہوں تو دل میں اتار لینا مجھے

بلا کے پاس مجھے رائیگاں نہ کر دینا

اپنے چہرے کی روشنی لانا

اک دیا ڈھونڈ لوں اندھیرے میں

میں تو گمنام تھا کم قدر تھا اور خاک بسر

اک ترے عشق نے توقیر بڑھا دی میری

پھر یہ غربت نہیں کرتی ہے تعاقب اس کا

جب کوئی شخص محبت کو کمانے نکلے

بدن کی کھال کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھیے

ہمیں تو قیمتی پوشاک کو بچانا ہے

میں چاہتا تھا مرا عشق لا زوال رہے

سو مغفرت کی دعا مانگتا رہا کل رات

دل کے اندر یوں چھپا رکھا ہے اک تیرا خیال

جیسے اک بیج میں پوشیدہ شجر رہتا ہے

سفر میں کیسے محبت سے ساتھ رہتے ہیں

سبق یہ میں نے پرندوں کی ڈار سے سیکھا

اب اس کو لوگ ستارہ شناس کہتے ہیں

دکاں خرید لی طوطے کی فال والے نے

دفتر حسن سجا رکھا ہے اس نے عاطرؔ

وہ غزل کو مری عرضی کی طرح پڑھتا ہے

پھر سے دو چار سمندر کے تھپیڑوں نے مجھے

یہ بتایا کہ مری ماں تھی جزیرہ جیسی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے