ڈاکٹر یاسین عاطر کے اشعار
تمہیں ہمیشہ ضرورت پکڑ کے لاتی ہے
کبھی تو آؤ مرے گھر مرے حوالے سے
ریت بن کر مری مٹھی سے پھسل جاتی ہے
اب محبت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے
اے زندگی تو مرے حوصلے کی داد تو دے
میں اٹھ کے روز نیا دن گلے لگاتا ہوں
میں خود کو بھی نہیں اتنا میسر
وہ سو فیصد توجہ چاہتا ہے
نہ جانے کون سی غربت ہے میری آنکھوں میں
کہ اس بدن میں خزانے تلاش کرتا ہوں
تم سے اب میرا تعلق صرف اتنا ہے کہ بس
روز موسم دیکھ لیتا ہوں تمہارے شہر کا
آپ سینے میں چھپاتے ہیں محبت اپنی
ہم کو دیوار کے پیچھے بھی نظر آتا ہے
جانچ لیتی ہیں محبت کی نگاہیں پل میں
ناپ لے کر تو سوئیٹر نہیں بنتے جاناں
میں آندھیوں سے لڑا تھا اس اعتماد کے ساتھ
درخت ٹوٹ بھی جائے تو کام آتا ہے
ایک دو گھونٹ میں کر ڈالے گا خالی تم کو
تم جو دریا ہو تو صحرا سے نہ ٹکر لینا
تری گرفت مرا مرتبہ بڑھاتی ہے
مجھے تو اپنی محبت میں مبتلا رکھنا
تمام شہر ہی جوگی سمجھ رہا ہے مجھے
تمہارے دھیان کی مالا گلے میں کیا پہنی
خواب سچا ہو تو مبہم نہیں رہتا عاطرؔ
دل وہ یوسف ہے کہ تعبیر بتا دیتا ہے
مست حسین لوگوں میں ڈھونڈئیے وفاداری
خوش نما درختوں پر پھل نہیں لگا کرتے
ایک ہلکی سی بھی آہٹ ہو تو ڈر جاتا ہے
شیر کی کھال کو دہلیز پہ رکھنے والا
میں اپنی ذات میں خود سے جھگڑتا رہتا ہوں
وہ چاہتا ہے رہوں اس کی حکمرانی میں
اب آ گیا ہوں تو دل میں اتار لینا مجھے
بلا کے پاس مجھے رائیگاں نہ کر دینا
اپنے چہرے کی روشنی لانا
اک دیا ڈھونڈ لوں اندھیرے میں
میں تو گمنام تھا کم قدر تھا اور خاک بسر
اک ترے عشق نے توقیر بڑھا دی میری
پھر یہ غربت نہیں کرتی ہے تعاقب اس کا
جب کوئی شخص محبت کو کمانے نکلے
بدن کی کھال کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھیے
ہمیں تو قیمتی پوشاک کو بچانا ہے
میں چاہتا تھا مرا عشق لا زوال رہے
سو مغفرت کی دعا مانگتا رہا کل رات
دل کے اندر یوں چھپا رکھا ہے اک تیرا خیال
جیسے اک بیج میں پوشیدہ شجر رہتا ہے
سفر میں کیسے محبت سے ساتھ رہتے ہیں
سبق یہ میں نے پرندوں کی ڈار سے سیکھا
اب اس کو لوگ ستارہ شناس کہتے ہیں
دکاں خرید لی طوطے کی فال والے نے
دفتر حسن سجا رکھا ہے اس نے عاطرؔ
وہ غزل کو مری عرضی کی طرح پڑھتا ہے
پھر سے دو چار سمندر کے تھپیڑوں نے مجھے
یہ بتایا کہ مری ماں تھی جزیرہ جیسی