Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mahatma Gandhi's Photo'

مہاتما گاندھی

1869 - 1948 | دلی, انڈیا

مہاتما گاندھی

اقوال 5

میں ناگری رسم الخط کی مخالفت نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہر ایک رسم الخط میں اصلاح کی ضرورت ہے، اسی طرح ناگری رسم الخط میں لمبی اصلاح کی گنجائش ہے۔ جب ناگری زبان والے اردو رسم الخط کی مخالفت کرتے ہیں تب اس میں مجھے حسد کی، تعصب کی بو آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ہندوستانی کے حق میں ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ناگری اور اردو رسم الخط میں سے آخرکار جیت ناگری رسم الخط کی ہی ہوگی۔ اسی طرح رسم الخط کا خیال چھوڑ کر بھاشا کا خیال کریں تو جیت ہندوستانی کی ہی ہوگی، کیونکہ سنسکرت لباس والی ہندی بناوٹی ہے اور ہندوستانی قدرتی ہے۔ اسی طرح فارسی لباس والی اردو غیر قدرتی اور بناوٹی ہے۔ میری ہندوستانی میں سنسکرت اور فارسی کے لفظ بہت کم آتے ہیں اور وہ سب سمجھ لیتے ہیں۔ نام کا جھگڑا مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ نام کچھ بھی ہو لیکن کام ایسا ہو کہ جس سے سارے ملک کا، دیش کا بھلا ہو۔ اس میں کسی نام سے نفرت نہیں ہونی چاہیے اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اقبال کے اس وچن کو سن کے کس ہندوستانی کا دل نہیں اچھلے گا؟ اگر نہ اچھلے تو میں اسے کم نصیب مانوں گا۔ اقبال کے اس وچن کو میں ہندی کہوں، ہندستانی کہوں یا اردو۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں ہندوستانی بھاشا نہیں بھری پڑی ہے، اس میں میٹھاس نہیں ہے، خیال کی بلندی نہیں ہے۔ بھلے ہی اس خیال کے ساتھ میں آج اکیلا مانا جاؤں مگر یہ صاف ہے کہ سنسکرت کے لباس میں ہندی اور فارسی کے لباس میں اردو کی جیت نہیں ہونے والی ہے۔ جیت تو ہندوستانی کی ہی ہو سکتی ہے جب ہم اندرونی حسد کو بھول جائیں گے تبھی ہم اس بناوٹی جھگڑے کو بھول جائیں گے۔ اس سے شرمندہ ہوں گے۔

ہری جن سیوک، 25 جنوری 1948

  • شیئر کیجیے

میری فکر آپ نہ کریں۔ فکر اپنے لئے کیا جائے۔ کہاں تک آگے بڑھتے ہیں اور ملک کی بھلائی کہاں تک ہو سکتی ہے؟ اس کا خیال رکھا جائے۔ آخر میں سب انسانوں کو مرنا ہے۔ جس کا جنم ہوا ہے، اسے موت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ ایسی موت کا خوف کیا اور غم بھی کیا کرنا؟ میرا خیال ہے کہ ہم سب کے لئے موت ایک لطف اندوز دوست ہے۔ ہمیشہ مبارکباد کی مستحق ہے کیونکہ موت ہی کئی طرح کے دکھوں سے چھٹکارا دلاتی ہے۔

ہری جن سیوک، 25 جنوری 1948

  • شیئر کیجیے

میرے پاس آج کئی دکھی لوگ آئے تھے۔ وہ پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کے نمائندے تھے۔ انہوں نے اپنے دکھ کی کہانی سنائی۔ مجھ سے کہا کہ آپ ہم میں دلچسپی نہیں لیتے، لیکن انہیں کیا پتہ کہ میں آج یہاں کس لئے پڑا ہوں مگر آج میری حالت دین ہے میری آج کون سنتا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب لوگ میں جو کہوں وہی کرتے تھے۔ سب کے سب کرتے تھے، یہ میرا دعویٰ نہیں ہے مگر کافی لوگ میری بات مانتے تھے۔ تب میں عدم تشدد کی فوج کا کمانڈر تھا۔ آج میرا جنگل میں رونا سمجھو مگر دھرم راج نے کہا تھا کہ اکیلے رہ جانے پر بھی جو ٹھیک سمجھو وہ کرو۔ سو میں کر رہا ہوں۔ جو حکومت چلاتے ہیں وہ میرے دوست ہیں مگر جو کچھ میں کہتا ہوں اس کے مطابق سب چلتے ہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ وہ کیوں چلیں؟ میں نہیں چاہتا کہ دوستی کی خاطر میری بات مانی جائے۔ دل کو لگے تبھی مانی جائے اگر سب لوگ میرے کہنے کے مطابق چلیں تو آج ہندوستان میں جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ ہو نہیں سکتا تھا۔

پرارتھنا سبھا 5 جنوری 1948

  • شیئر کیجیے

ایشیا کے لوگوں کا خیال دھرم مذہب کی طرف زیادہ رہتا ہے اور آج کل کے یورپ والوں کا سائنس و گیان کی طرف! دنیا کے سب بڑے بڑے مذہب جن کے نام لیوا موجود ہیں اور لگ بھگ وہ سب جن کے نام لیوا نہیں رہے، ایشیا ہی میں پیدا ہوئے۔ ایشیا والوں کی ساری زندگی پر مذہب کی چھاپ رہتی ہے۔ ہندو، مسلمان، یہودی، پارسی، بودھی، کانفیوشس اور رومن، کیتھولک عیسائیوں کے بھی رہن سہن، کھان پین، آچار وچار سب پر دھرم کی چھاپ رہتی ہے۔ ہر مذہب والا یہی چاہتا ہے کہ میرا مذہب زندگی کے ہر کام میں مجھے راستہ دکھائے۔ ہر مذہب اپنے ملک اور زمانہ کے مطابق اس فرض کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہر مذہب میں کچھ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو انہیں باتوں میں بال کی کھال نکالتے رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیجا زور دیتے ہیں۔ ان کا مذہب کٹر اور بے جان بننے لگتا ہے۔ اس کی لچک جاتی رہتی ہے۔ وہ ضرورت کے مطابق اپنے رسم و رواج کو بھی بدل نہیں سکتا۔ وہ نکمی غیر ضروری چیزوں میں چپک جاتا ہے۔ ضروری اور کام کی چیزوں کو بھول جاتا ہے یہاں تک کہ جو راستہ نیکی اور بھلائی کا راستہ تھا وہی برائی اور بربادی کا راستہ بن جاتا ہے۔ اکثر انہیں غیر ضروری باتوں میں مذہب مذہب میں فرق اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔

ہری جن سیوک، 18 جنوری 1948

  • شیئر کیجیے

گاندھی جی نے دیکھا کہ کچھ لوگ پرارتھنا کے میدان میں بھی تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ پرارتھنا سبھا میں بولتے ہوئے انہوں نے کہا، بہت سے عیسائی سیگریٹ پیتے ہیں مگر آج تک کسی نے چرچ میں جاکر سیگرٹ نہیں پیا۔مسلمان بھی مسجد میں داخل ہوتے وقت سگریٹ پھینک دیتے ہیں۔ مسجد میں کوئی سگریٹ نہیں پی سکتا۔ پرارتھنا کا میدان بھی چرچ، مسجد، مندر، عبادتگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اچھے اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ پرارتھنا کے میدان میں تمباکو نوشی نہ کی جائے اور سب لوگ شروع سے آخر تک خاموشی رکھیں۔

نئی دہلی، 24 جولائی 1947

  • شیئر کیجیے

کتاب 42

متعلقہ بلاگ

 

"دلی" کے مزید مصنفین

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے