مرزا علی لطف کے اشعار
ادھر سے جتنی یگانگت کی ادھر سے اتنی ہوئی جدائی
بڑھائی تھوڑی سی جب ادھر سے بہت سی تم نے ادھر گھٹائی
یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ
ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوا آوارہ ہندوستاں سے لطفؔ آگے خدا جانے
دکن کے سانولوں نے مارا یا انگلن کے گوروں نے
ہم اور فرہاد بحر عشق میں باہم ہی کودے تھے
جو اس کے سر سے گزرا آب میری تا کمر آیا
آج کیا جانے وہ کیوں آرام جاں آیا نہیں
حرف رنجش کل تو کوئی درمیاں آیا نہیں
بیٹھ کر مسجد میں رندوں سے نہ اتنا بگڑیے
شیخ جی آتے ہو میخانے کے بھی اکثر طرف
کھل گیا اب یہ کہ وصل اس کا خیال خام ہے
آج امیدوں کا دل ہی دل میں قتل عام ہے
نہ کر اے لطفؔ ناحق رہروان دیر سے حجت
یہی رستہ تو کھا کر پھیر ہے کعبہ کو جا نکلا
نہیں وہ ہم کہ کہنے سے ترے ہر بت کے بندے ہوں
کرے پیدا بھی گر ناصح تو اس غارت گر دیں سا
دیر تک ضبط سخن کل اس میں اور ہم میں رہا
بول اٹھے گھبرا کے جب آخر کے تئیں دم رک گئے
کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے
خود بخود کچھ وہ کھینچے ایدھر ادھر ہم رک گئے
پاکیٔ دامان گل کی کھا نہ اے بلبل قسم
رات بھر سرشار کیفیت میں شبنم سے رہا
کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دو جو سبو ٹوٹ گیا
یہی تو کفر ہے یاران بے خودی کے حضور
جو کفر و دیں کا مرے یار امتیاز رہا
بیگانوں نے کبھی نہ وہ کانوں سنائی بات
افسوس آشنا نے جو آنکھوں دکھائی بات