Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

مرزا علی لطف

- 1813

مرزا علی لطف کے اشعار

95
Favorite

باعتبار

ادھر سے جتنی یگانگت کی ادھر سے اتنی ہوئی جدائی

بڑھائی تھوڑی سی جب ادھر سے بہت سی تم نے ادھر گھٹائی

یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ

ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی

ہوا آوارہ ہندوستاں سے لطفؔ آگے خدا جانے

دکن کے سانولوں نے مارا یا انگلن کے گوروں نے

ہم اور فرہاد بحر عشق میں باہم ہی کودے تھے

جو اس کے سر سے گزرا آب میری تا کمر آیا

آج کیا جانے وہ کیوں آرام جاں آیا نہیں

حرف رنجش کل تو کوئی درمیاں آیا نہیں

بیٹھ کر مسجد میں رندوں سے نہ اتنا بگڑیے

شیخ جی آتے ہو میخانے کے بھی اکثر طرف

کھل گیا اب یہ کہ وصل اس کا خیال خام ہے

آج امیدوں کا دل ہی دل میں قتل عام ہے

نہ کر اے لطفؔ ناحق رہروان دیر سے حجت

یہی رستہ تو کھا کر پھیر ہے کعبہ کو جا نکلا

نہیں وہ ہم کہ کہنے سے ترے ہر بت کے بندے ہوں

کرے پیدا بھی گر ناصح تو اس غارت گر دیں سا

دیر تک ضبط سخن کل اس میں اور ہم میں رہا

بول اٹھے گھبرا کے جب آخر کے تئیں دم رک گئے

کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے

خود بخود کچھ وہ کھینچے ایدھر ادھر ہم رک گئے

پاکیٔ دامان گل کی کھا نہ اے بلبل قسم

رات بھر سرشار کیفیت میں شبنم سے رہا

کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا

خم مرے منہ سے لگا دو جو سبو ٹوٹ گیا

یہی تو کفر ہے یاران بے خودی کے حضور

جو کفر و دیں کا مرے یار امتیاز رہا

بیگانوں نے کبھی نہ وہ کانوں سنائی بات

افسوس آشنا نے جو آنکھوں دکھائی بات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے