نثار جیراجپوری کے دوہے
سونے سے کرتا پھرے ہے تو اس کا مول
تو کیا جانے باورے ماٹی ہے انمول
جاتے جاتے یہ سمے یادیں کچھ دے جائے
پنجرے سے مینا اڑی پرچھائیں رہ جائے
تنہا بچا سکے گا کیسے کھاتا پھرے تھپیڑ
روئے بیٹھا موڑ پر برگد کا ایک پیڑ
رین بسیرا آج یاں کل ہوگا کس اور
کچھ تجھ کو معلوم ہے آنے والے بھور