راہی فدائی کے اشعار
ہر ایک شاخ تھی لرزاں فضا میں چیخ و پکار
ہوا کے ہاتھ میں اک آب دار خنجر تھا
لذت کا زہر وقت سحر چھوڑ کر کوئی
شب کے تمام رشتے فراموش کر گیا
کسی کو سایا کسی کو گل و ثمر دے گا
ہرا بھرا ہے درخت رواج رہنے دو
ہوس گرفتہ ہواؤ نگاہیں نیچی رکھو
شجر کھڑے ہیں سڑک کے قرین بے پردہ
حادثوں کے خوف سے احساس کی حد میں نہ تھا
ورنہ نفس مطمئن سفاک ہوتا غالباً
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سبزہ زاروں کی شرافت سے نہ کھیلو قطعاً
تم ہوا ہو تو خلاؤں سے لپٹ کر دیکھو
آپ نے اچھا کیا تطہیر خواہش ہی نہ کی
ورنہ زمزم چشمۂ ناپاک ہوتا غالباً
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
برائے نام ہی سہی بہ احتیاط کیجئے
درون کذب و افترا صداقتیں خلط ملط
شرافتوں کے رنگ میں شرارتیں خلط ملط
سر مذاق ہو گئیں حماقتیں خلط ملط
خود کو ممتاز بنانے کی دلی خواہش میں
دشمن جاں سے ملی میری انا سازش میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ