Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فساد پر اشعار

فساد پر یہ شاعری فساد

کی بھیانک صورتوں اور ان کے نتیجے میں برپا ہونے والی انسانی تباہی کا تخلیقی بیان ہے ۔ آج کے عہد میں بیشتر انسانی آبادیاں فساد کی کسی نہ کسی شکل کی زد میں ہیں اور جانی ، مالی ، تہذیبی اور ثقافتی تباہیوں کو ایک سلسلہ جاری ہے ۔ ایسے دور میں اگر یہ شاعری ہمارے اندر پیدا ہونے والے برے جذبوں کو شانت کردے تو بڑی بات ہوگی ۔

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

بشیر بدر

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد

جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر

ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

عبید اللہ علیم

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو

رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر

بشیر بدر

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

غلام محمد قاصر

اس قدر میں نے سلگتے ہوئے گھر دیکھے ہیں

اب تو چبھنے لگے آنکھوں میں اجالے مجھ کو

کاملؔ بہزادی

دیوار و در پہ خون کے چھینٹے ہیں جا بہ جا

بکھرا ہوا ہے رنگ حنا تیرے شہر میں

کیف عظیم آبادی

یہاں ایک بچے کے خون سے جو لکھا ہوا ہے اسے پڑھیں

ترا کیرتن ابھی پاپ ہے ابھی میرا سجدہ حرام ہے

بشیر بدر

میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں

جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے

عرفان ستار

جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا

فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا

اقبال عظیم

چاروں طرف ہیں شعلے ہمسائے جل رہے ہیں

میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

عالم خورشید

جلا ہے شہر تو کیا کچھ نہ کچھ تو ہے محفوظ

کہیں غبار کہیں روشنی سلامت ہے

فضا ابن فیضی

ہر ایک کوچہ ہے ساکت ہر اک سڑک ویراں

ہمارے شہر میں تقریر کر گیا یہ کون

شمیم شہزاد

گھروں میں قید ہیں بستی کے شرفا

سڑک پر ہیں فسادی اور غنڈے

تنویر سامانی

جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں

کہ جنگلوں سے نکل کر آنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو

نامعلوم

یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور

یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

خورشید ربانی

آج کھلیں گے مرے خون سے ہولی سب لوگ

کتنا رنگین ہر اک شخص کا داماں ہوگا

بیتاب سوری

ایسی ہوا بہی کہ ہے چاروں طرف فساد

جز سایۂ خدا کہیں دارالاماں نہیں

شیخ ظہور الدین حاتم

ہر ایک شاخ تھی لرزاں فضا میں چیخ و پکار

ہوا کے ہاتھ میں اک آب دار خنجر تھا

راہی فدائی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے