فساد پر اشعار
فساد پر یہ شاعری فساد
کی بھیانک صورتوں اور ان کے نتیجے میں برپا ہونے والی انسانی تباہی کا تخلیقی بیان ہے ۔ آج کے عہد میں بیشتر انسانی آبادیاں فساد کی کسی نہ کسی شکل کی زد میں ہیں اور جانی ، مالی ، تہذیبی اور ثقافتی تباہیوں کو ایک سلسلہ جاری ہے ۔ ایسے دور میں اگر یہ شاعری ہمارے اندر پیدا ہونے والے برے جذبوں کو شانت کردے تو بڑی بات ہوگی ۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
-
موضوع : اخبار
تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
یہاں ایک بچے کے خون سے جو لکھا ہوا ہے اسے پڑھیں
ترا کیرتن ابھی پاپ ہے ابھی میرا سجدہ حرام ہے
اس قدر میں نے سلگتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
اب تو چبھنے لگے آنکھوں میں اجالے مجھ کو
دیوار و در پہ خون کے چھینٹے ہیں جا بہ جا
بکھرا ہوا ہے رنگ حنا تیرے شہر میں
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے
چاروں طرف ہیں شعلے ہمسائے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں
جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں
کہ جنگلوں سے نکل کر آنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو
جلا ہے شہر تو کیا کچھ نہ کچھ تو ہے محفوظ
کہیں غبار کہیں روشنی سلامت ہے
یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور
یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے
گھروں میں قید ہیں بستی کے شرفا
سڑک پر ہیں فسادی اور غنڈے
ہر ایک کوچہ ہے ساکت ہر اک سڑک ویراں
ہمارے شہر میں تقریر کر گیا یہ کون
آج کھلیں گے مرے خون سے ہولی سب لوگ
کتنا رنگین ہر اک شخص کا داماں ہوگا
ہر ایک شاخ تھی لرزاں فضا میں چیخ و پکار
ہوا کے ہاتھ میں اک آب دار خنجر تھا
ایسی ہوا بہی کہ ہے چاروں طرف فساد
جز سایۂ خدا کہیں دارالاماں نہیں