Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Salam Sandelvi's Photo'

سلام سندیلوی

1919 - 2000 | گورکھپور, انڈیا

سلام سندیلوی کے اشعار

995
Favorite

باعتبار

سو بار آئی ہونٹوں پہ جھوٹی ہنسی مگر

اک بار بھی نہ دل سے کبھی مسکرا سکے

شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کر لیا

غم اس کا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے

خوشی کے پھول کھلے تھے تمہارے ساتھ کبھی

پھر اس کے بعد نہ آیا بہار کا موسم

کٹے گی کیسے گل نو کی زندگی یارب

کہ اس غریب کا خانوں میں گھر ابھی سے ہے

بہت امید تھی منزل پہ جا کر چین پائیں گے

مگر منزل پہ جب پہنچے تو نظم کارواں بدلا

رہ حیات چمک اٹھے کہکشاں کی طرح

اگر چراغ محبت کوئی جلا کے چلے

ہمیشہ دور کے جلوے فریب دیتے ہیں

ہے ورنہ چاند بیاباں کسی کو کیا معلوم

بجلی گرے گی صحن چمن میں کہاں کہاں

کس شاخ گلستاں پہ مرا آشیاں نہیں

یہ تو معلوم ہے ان تک نہ سدا پہنچے گی

جانے کیا سوچ کے آواز دیئے جاتا ہوں

ہوئی صبح جام کھنک اٹھے ہوئی شام نغمے بکھر گئے

وہ حسین دن بھی تھے کس قدر جو تمہارے ساتھ گزر گئے

آئے جو چند تنکے قفس میں صبا کے ساتھ

میں نے انہیں کو اپنا نشیمن سمجھ لیا

کیا اسی کو بہار کہتے ہیں

لالہ و گل سے خوں ٹپکتا ہے

دل کی دھڑکن بھی ہے ان کو ناگوار

ان سے کچھ کہنے کی جرأت کیا کریں

مجھ کو تو خون دل ہی پینا ہے

دست ساقی میں گر ہے جام تو کیا

گلوں کے روپ میں بکھرے ہیں ہر طرف کانٹے

چلے جو کوئی تو دامن ذرا بچا کے چلے

گل و غنچہ اصل میں ہیں تری گفتگو کی شکلیں

کبھی کھل کے بات کہہ دی کبھی کر دیا اشارا

یوں باغباں نے مہر لگا دی زبان پر

روداد غم نصیب کے مارے نہ کہہ سکے

متاع غم مرے اشکوں ہی تک نہیں محدود

انہیں میں ٹوٹے ستاروں کو بھی شمار کرو

چند تنکوں کے سوا کیا تھا نشیمن میں مرے

برق ناداں کو سمجھ آئی بہت دیر کے بعد

ہے تشنہ لبی لیکن ہم کیوں اسے زحمت دیں

اپنا ہی لہو پی لیں ساقی کو جگائیں کیا

تیرہ و تار فضاؤں میں جیا ہوں اب تک

نکہت و نور کے ایام کی حسرت ہی رہی

Recitation

بولیے