شاہد میر کے دوہے
جیون جینا کٹھن ہے وش پینا آسان
انساں بن کر دیکھ لو او شنکرؔ بھگوان
ہر اک شے بے میل تھی کیسے بنتی بات
آنکھوں سے سپنے بڑے نیند سے لمبی رات
ذہن میں تو آنکھوں میں تو دل میں ترا وجود
میرا تو بس نام ہے ہر جا تو موجود
کاغذ پر لکھ دیجئے اپنے سارے بھید
دل میں رہے تو آنچ سے ہو جائیں گے چھید
آنگن ہے جل تھل بہت دیواروں پر گھاس
گھر کے اندر بھی ملا شاہدؔ کو بنواس
تعطیلیں رخصت ہوئیں کھلے سبھی اسکول
سڑکوں پر کھلنے لگے پیارے پیارے پھول
شاہدؔ لکھنا ہے مجھے یہ کس کی تعریف
ڈرا ڈرا سا قافیہ سہمی ہوئی ردیف
شب گزری بجھنے لگا روشنیوں کا شہر
لوٹی ساحل کی طرف تھکی تھکی اک لہر
درد ہے دولت کی طرح غم ٹھہرا جاگیر
اپنی اس جاگیر میں خوش ہیں شاہدؔ میر