شمیم کرہانی
غزل 48
نظم 12
اشعار 7
بجھا ہے دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا غم بھی
کہ اب چراغ کے بدلے چراغ کی لو ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یاد ماضی غم امروز امید فردا
کتنے سائے مرے ہم راہ چلا کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
چپ ہوں تمہارا درد محبت لیے ہوئے
سب پوچھتے ہیں تم نے زمانے سے کیا لیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر
عشق جو بانٹتا ہے وہ آب حیات اور ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 13
تصویری شاعری 1
رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے_گی راہوں میں کیوں میری محبت سے برہم ہو زمیں والو اک اور گنہ رکھ لو دنیا کے گناہوں میں کیفیت_مے دل کا درماں نہ ہوئی لیکن رنگیں تو رہی دنیا کچھ دیر نگاہوں میں کانٹوں سے گزر جانا دشوار نہیں لیکن کانٹے ہی نہیں یارو کلیاں بھی ہیں راہوں میں پردہ ہو تو پردہ ہو اس پردہ کو کیا کہئے چھپتے ہیں نگاہوں سے رہتے ہیں نگاہوں میں یاران_رہ_غربت کیا ہو گئے کیا کہئے کچھ سو گئے منزل پر کچھ کھو گئے راہوں میں گزری ہوئی صدیوں کو آغاز_سفر سمجھو ماضی ابھی کمسن ہے فردا کی نگاہوں میں رنگیں ہے شمیمؔ اب تک پیراہن_جاں اپنا ہم رات گزار آئے کس خواب کی بانہوں میں