واحد پریمی کے اشعار
گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تو نہ ہو
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے اے واحدؔ
انہیں کے نام ہیں دنیا میں جن کے کام اچھے ہیں
آزاد تو برسوں سے ہیں ارباب گلستاں
آئی نہ مگر طاقت پرواز ابھی تک
ہے شام اودھ گیسوئے دلدار کا پرتو
اور صبح بنارس ہے رخ یار کا پرتو
ہجوم غم سے ملی ہے حیات نو مجھ کو
ہجوم درد سے پایا ہے حوصلہ میں نے
بعد تکلیف کے راحت ہے یقینی واحدؔ
رات کا آنا ہی پیغام سحر ہوتا ہے
حق بات سر بزم بھی کہنے میں تأمل
حق بات سر دار کہو سوچتے کیا ہو
کبھی نہ حسن و محبت میں بن سکی واحدؔ
وہ اپنے ناز میں ہم اپنے بانکپن میں رہے
وہ اور ہیں کناروں پہ پاتے ہیں جو سکوں
ہم کو قرار ملتا ہے طوفاں کی گود میں
کس شان کس وقار سے کس بانکپن سے ہم
گزرے ہیں آزمائش دار و رسن سے ہم
راہ طلب کی لاکھ مسافت گراں سہی
دنیا کو میں جہاں بھی ملا تازہ دم ملا
نہ پوچھئے کہ شب ہجر ہم پہ کیا گزری
تمام رات جلے شمع انجمن کی طرح
میری دیوانگئ عشق ہے اک درس جہاں
میرے گرنے سے بہت لوگ سنبھل جاتے ہیں
اف گردش حیات تری فتنہ سازیاں
اپنے وطن میں دور ہیں اہل وطن سے ہم
ایک مدت سے اسی الجھن میں ہوں
ان کو یا خود کو کسے سجدہ کروں
اس طرح حسن و محبت کی کرو تم تفسیر
مجھ کو آئینہ کہو اور انہیں تصویر کہو
کوئی ہنگامۂ حیات نہیں
رات خاموش ہے سحر خاموش
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم وہ رہرو ہیں کہ چلنا ہی ہے مسلک جن کا
ہم تو ٹھکرا دیں اگر راہ میں منزل آئے
کوئی گردش ہو کوئی غم ہو کوئی مشکل ہو
جس کو آنا ہو ہمارے وہ مقابل آئے
کعبہ و دیر و کلیسا کا تجسس کیوں ہو
جب مرے قلب ہی میں میرا خدا ہے یارو
اندھیروں میں اجالے ڈھونڈھتا ہوں
یہ حسن ظن ہے یا دیوانہ پن ہے
شخصیت فن کار معمہ نہیں واحدؔ
فن ہی میں ہوا کرتا ہے فن کار کا پرتو
میں اوروں کو کیا پرکھوں آئنۂ عالم میں
محتاج شناسائی جب اپنا ہی چہرا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے
وہ زندگی ہے آگ کا دریا کہیں جسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب فراق کئی بار گوشۂ دل سے
اٹھی تو آہ مگر آہ بے اثر اٹھی
آشیاں جلنے پہ بنیاد نئی پڑتی ہے
عکس تخریب کو آئینۂ تعمیر کہو
کیوں شکوۂ بے مہرئ ساقی ہے لبوں پر
پینا ہے تو خود بڑھ کے پیو بادہ گسارو