ذکی کاکوروی کے اشعار
اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں
اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یاد آئے ہیں اف گنہ کیا کیا
ہاتھ اٹھائے ہیں جب دعا کے لئے
تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں
رات اور ایسی کالی رات
عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح
گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں
-
موضوع : آگہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لوگ کہتے رہے قریب ہے وہ
ہم نے ڈھونڈا تو دور دور نہ تھا
وہ تری زلف کا سایہ ہو کہ آغوش ترا
مل گیا ہو کبھی آرام مجھے یاد نہیں
یاد اتنا ہے کہ میں ہوش گنوا بیٹھا تھا
چھٹ گیا ہاتھ سے کب جام مجھے یاد نہیں
تری جوان امنگوں کو ہو گیا ہے کیا
ڈری ڈری سی محبت مجھے پسند نہیں
منزل جسے سمجھتے تھے یاران قافلہ
پہنچے جو اس جگہ تو فقط سنگ میل تھا
یہ رات یونہی بسر ہو گئی تو کیا ہوگا
ترے بغیر سحر ہو گئی تو کیا ہوگا
شکوہ نہیں دنیا کے صنم ہائے گراں کا
افسوس کہ کچھ پھول تمہارے بھی ملے ہیں
مجھ کو سکوں کی چین کی پژمردگی سے کیا
ہر روز ایک تازہ قیامت کی آرزو
رموز عشق کی گہرائیاں سلامت ہیں
ہمارے خواب پریشاں کسی کو کیا معلوم
مرنے کے بعد کوئی پشیماں ہوا تو کیا
ماتم کدہ جو گور غریباں ہوا تو کیا
درد دل نے لی نہ تھی کروٹ ابھی
ان کے ماتھے پہ پسینا آ گیا
وائے ناکامئ قسمت کہ بھنور سے بچ کر
لب ساحل پہ جو آئے تو کگارا ٹوٹا
الجھی تھیں جن نسیم سے کلیاں خبر نہ تھی
پہنچے گی بوئے ناز مرے پیرہن سے دور