اچھا سلوک
یوسف صاحب بنک کی ملازمت سے فارغ ہو کر ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ان کے دو بیٹے تھے۔بڑا بیٹا کاظم ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا اور اچھے پیسے کماتا تھا۔چھوٹا بیٹا عاصم کسی موبائل کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر تھا۔وہ دونوں شادی شدہ تھے۔
کاظم کے تین اور عاصم کے دو بچے تھے۔ اتوار کا دن تھا اور چھٹی کی وجہ سے سب لوگ گھر پر ہی تھے۔یوسف صاحب اپنی بیگم کے ساتھ لان میں کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔یوسف صاحب نے دیکھا کہ عاصم گاڑی دھو رہا ہے اور گھر کے سارے بچے اس کے ارد گرد جمع ہو کر اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کوئی شیشے صاف کر رہا ہے، کوئی دروازوں اور بمپروں کی صفائی میں لگا ہوا ہے اور کوئی ٹائروں کو چمکا رہا ہے۔
کام کے دوران کاظم کی بیٹی سونیا نے کہا۔“انکل عاصم۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد ہم پارک جائیں گے”۔ عاصم نے جواب دیا۔
“بالکل لیکن اس سے پہلے ہم کھانا کھائیں گے تاکہ بے فکری سے خوب دیر تک پارک میں رہیں” ۔اس کی بات سن کر تمام بچے خوش ہو گئے۔
اس کے بیٹے نے کہا ۔“پاپا میں وہاں سے رنگ برنگی مچھلیاں بھی خریدوں گا۔ مچھلی والا پارک کے گیٹ کے باہر کھڑا ہوتا ہے”۔
“ہاں ہاں کیوں نہیں”۔ عاصم نے جواب دیا۔
دونوں بھائیوں کی بیویاں کچن میں دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔کاظم اپنے کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اسے کوئی پرواہ نہیں تھی کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں۔
اتنی دیر میں کاظم کی بیوی کچن سے نکل کر وہاں آئی۔ “عاصم بھیا۔ دہی کم پڑ رہی ہے۔گاڑی دھل جائے تو دہی لا دینا ورنہ بریانی مزے کی نہیں بنے گی۔میں سونیا کے پاپا سے اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ غصہ کریں گے کہ پہلے ہی دہی زیادہ کیوں نہیں منگوائی تھی”۔
یوسف صاحب نے کہا۔ عاصم تو کام میں مصروف ہے۔ لاوٴ دہی میں لا دیتا ہوں”۔
“عاصم ہنس کر بولا۔ “ابّو اتنے دنوں بعد تو آپ امی کے ساتھ بیٹھے نظر آرہے ہیں، ورنہ آپ کو تو کتابوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔آپ زحمت نہ کیجئے۔میں دہی لے آتا ہوں”۔
بچوں کو کام میں لگا کر اور پانی کا نل بند کر کے وہ دہی لینے چلا گیا۔
یوسف صاحب کے چہرے پر سوچ کے آثار تھے۔انہوں نے بیوی کی طرف دیکھ کر کہا۔ “ بیگم میں ایک بات سوچ رہا ہوں”۔ ان کی بیگم ان کی طرف دیکھنے لگیں ۔ یوسف صاحب نے کہا۔ “اس کی کیا وجہ ہے کہ بچے کاظم کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ہیں۔ سب کے سب عاصم کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں؟”
ان کی بیگم بولیں ۔“کاظم کی عادت ہی ایسی ہے ۔ بچے شرارتی ہوتے ہیں، شورمچاتے ہیں، فرمائشیں کرتے ہیں مگر اس سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوتیں اور تو اور کسی بچے کے امتحانوں میں مارکس کم آجائیں تو گھر سر پر اٹھا لیتا ہے۔ذرا ذرا سی بات پر ان کو ڈانٹتا رہتا ہے اور سرزنش کرتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ اگر وہ ٹی وی دیکھ رہا ہو تو کسی بچے کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ منہ سے آواز نکال سکے یا آپس میں کوئی بات کرسکے۔ان ہی باتوں کی وجہ سے اس کے اپنے بھی اور عاصم کے بچے بھی اس سے دور دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ یہ بہت بری بات ہے۔ ایک روز میں نے اسے سمجھانا بھی چاہا تو مجھ پر ہی غصہ کرنے لگا اور غصے سے بولا کہ کیا بچوں کو سر پر چڑھا لوں”۔
“بہت بری بات ہے۔اب کاظم اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ اس کو سمجھاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن بات بہرحال قابل افسوس ہے”۔ یوسف صاحب نے افسردگی سے کہا۔
ان کی بیوی کو بھی کاظم کی یہ بات بری لگتی تھی۔وہ بولیں۔ “اسے تو اپنے چھوٹے بھائی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ عاصم کتنا خوش اخلاق اور ملنسار ہے۔بچوں کی معمولی معمولی باتوں پر بھی دھیان دیتا ہے ا ور وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کو غور سے سنتا ہے۔ ان کے رزلٹ کارڈ حتیٰ کہ ماہانہ ٹیسٹوں کے نتیجے بھی دیکھ کر ان کو مختلف قسم کے تحفے دیتا ہے اور اس خوشی میں انھیں اپنے ساتھ پککنک منانے بھی لے جاتا ہے۔اس سے بچوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ خوشی محسوس کرتے ہیں”۔
یوسف صاحب یہ سب باتیں سن کر فکرمند ہوگئے تھے، کہنے لگے۔“اس طرح تو کاظم کے اپنے بچے اس سے کترانے لگیں گے۔ میں جانتا ہوں باپ کا غلط رویہ اولاد کے دل سے مشکل سے ہی نکلتا ہے”۔
“مجھے بھی اس بات کی بہت پریشانی ہے۔ویسے میں ان بچوں کو بتاتی رہتی ہوں کہ کاظم کی طبیعت ہی ایسی ہے۔وہ لوگ اپنا دل چھوٹا نہ کیا کریں”۔ ان کی بیوی نے کہا-
اتنی دیر میں عاصم بھی واپس آگیا تھا۔ وہ بچوں کے لیے جوس کے ڈبے بھی لایا تھا۔سب بچے خوش ہوگئے۔ ان کی خوشی دیکھ کر یوسف صاحب بھی مسکرانے لگے پھر بولے۔ “میں سوچ رہا ہوں کہ گھر کے بڑے لوگوں کا بچوں کے ساتھ اچھا سلوک انھیں کتنا خوش رکھتا ہے۔اگرچہ کاظم عمر میں بڑا ہے مگر بڑا ہونے کے باوجود بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکا۔ عاصم عمر میں چھوٹا ہی صحیح مگر اپنے اچھے رویے، خوش اخلاقی اور ملنساری کی وجہ سے بچے اس کے ساتھ کتنا خوش رہتے ہیں”۔
اسی وقت بچوں کے قہقہوں کی آواز آئی۔یوسف صاحب اور ان کی بیوی نے گھوم کر دیکھا، عاصم نے جھوٹ موٹ کی غلطی سے پانی کے پائپ کا رخ اپنے طرف کر لیا تھا اور اس کے سارے کپڑے بھیگ گئے تھے۔بچوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی ہنس رہا تھا۔ان کو ہنستا دیکھ کر دونوں میاں بیوی بھی مسکرانے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.