Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اچھا کام

مختار احمد

اچھا کام

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    آسمان پر کئی دنوں سے گہرے کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا۔ دن میں ہلکی اور رات کو تیز بارش کا سسلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے پکے گھروں میں رہنے والوں کو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، مگر وہ لوگ جو کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے ان کے لیے بہت مشکلات کھڑی ہو گئی تھیں۔ ان کے گھروں میں پانی بھر گیا تھا کیوں کہ تیز بارش کی وجہ سے نہ صرف ان کی چھتیں ٹپکنے لگی تھیں، بلکہ باہر گلی کا پانی بھی گھروں میں داخل ہو گیا تھا۔ ادھر بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ سردیاں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ شدید سردی کی وجہ سے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

    ایسی ہی ایک کچی آبادی کے نزدیک، نالے کے اس پار ایک پوش علاقہ تھا جس میں بڑے بڑے اور خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔ اسی علاقے میں کلیم بھی اپنے پاپا، امی اور بھائی بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ چودہ سال کا تھا، اس کا بھائی فہیم دس سال کا اور بہن جس کا نام فرحانہ تھا چھ سال کی تھی۔

    سردیوں کی وجہ سے اسکول پندرہ دنوں کے لیے بند ہو گئے تھے۔ آج پہلی چھٹی تھی۔ کلیم کو فہیم اور فرحانہ سے ایک ضروری بات کرنا تھی مگر وہ گھر میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ ان کی تلاش میں باہر آیا تو دونوں اسے گھر کے عقبی حصے میں مل گئے۔ فہیم ایک بڑے سے ٹڈے کو پکڑنے کی فکر میں تھا جو گھاس میں چھپا بیٹھا تھا۔ فرحانہ کے ہاتھ میں دھاگے کی ریل تھی۔ فہیم نے اس سے کہا تھا کہ وہ ٹدے کو پکڑ کر دھاگے سے اس کی ٹانگ باندھ کر اسے دےگا۔ یہ ٹدا کافی بڑا تھا اور بچوں میں آنکھ پھوڑ ٹڈے کے نام سے مشہور تھا۔

    کلیم نے کہا۔ ’‘فہیم اب تم بڑے ہو گئے ہو یہ بچوں والے کھیل چھوڑو۔ ہمارے اسکول پندرہ دنوں کے لیے بند ہوگئے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم ان چھٹیوں میں کیا کریں۔‘‘

    ’’میں تو روزانہ اپنے اسکول کا کام کیا کروں گی۔‘‘ فرحانہ نے خوش ہو کر کہا۔ ’’چھٹیاں ختم ہونے کو ہونگی تو میرا کام بھی پورا ہو چکا ہوگا۔‘‘

    ’’فرحانہ یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی تو ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ کلیم بھائی۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ فہیم نے سوال کیا۔

    کلیم کے جواب دینے سے پہلے ہی فرحانہ بول پڑی۔ ’’اگر پاپا کی بھی چھٹیاں ہوتیں تو مزہ آ جاتا۔ ہم انھیں لے کر کہیں گھومنے پھرنے جاتے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان کی مس انھیں چھٹی ہی نہیں دیتیں۔ اب ہمیں یہ چھٹیاں گھر میں رہ کر ہی گزارنا پڑیں گی۔‘‘

    اس کی بات سن کر دونوں بھائی ہنس پڑے۔ کلیم نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ ’’فرحانہ۔ مس تو بس ہماری تمھاری ہوتی ہیں۔ پاپا تو اب بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ دفتر پڑھنے نہیں، کام کرنے جاتے ہیں۔ وہاں کام کرنے کے انھیں پیسے ملتے ہیں۔ ان پیسوں کو وہ امی کو لا کر دیتے ہیں جن سے وہ گھر کا خرچہ چلاتی ہیں۔‘‘

    یہ بات سن کر فرحانہ کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔ کلیم نے اس کا شانہ تھپتھپاکر کہا۔ ’’میں نے تو سوچ لیا ہے کہ ہمیں ان چھٹیوں میں کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں میرے ذہن میں ایک بہت اچھی بات آئی ہے۔ دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح ہمارے گھر میں بھی سامان ہی سامان بھرا ہوا ہے ‘اس سامان میں بہت سی چیزیں کام کی ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں‘ جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ ان میں سے بیشتر سامان کو ہم نے اسٹور روم میں بھر رکھا ہے۔ ہم ایسے سامان کی لسٹیں تیار کریں گے۔‘‘

    ’’لسٹیں بن جائیں گی تو پھر ہم کیا کریں گے؟‘‘ فہیم نے نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔

    ’’یہ لسٹ بنانا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ ہمیں بڑی احتیاط سے پورے گھر کا جائزہ لینا ہوگا۔ جب ہم یہ لسٹ بنا لیں گے تو اسے امی کو دکھائیں گے۔ اگر انہوں نے اجازت دے دی تو پھر ہم بازار سے چھوٹے بڑے گتے کے باکس اور خوبصورت کاغذ کے ریپر لے کر آئیں گے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ان میں پیک کر دیں گے۔ بڑی بڑی چیزوں کو یوں ہی رہنے دیں گے ‘‘انھیں ڈبوں میں بند کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

    ’’ویری گڈ۔‘‘ فرحانہ تالی بجاکر بولی۔ ’’پھر کسی کی سالگرہ ہوا کرے گی تو ہم ان میں سے ایک ڈبہ نکال کر اس کو تحفے میں دے دیا کریں گے۔‘‘

    اس کی بات سن کر دونوں بھائی پھر ہنس پڑے۔ فرحانہ انھیں حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی کہ اس کی اس بات پر وہ دونوں کیوں ہنسے تھے۔

    کلیم نے اپنی ہنسی روکتے ہوۓ کہا۔ ’’ہم یہ باکس غریب لوگوں کو دینے کے لیے بنائیں گے۔ تمہیں پتہ ہے نا ان طوفانی بارشوں نے سامنے نالے کے پاس رہنےوالے لوگوں کے کچے مکانوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے گھر کی تمام چیزیں بھی خراب ہوگئی ہیں۔ یہاں زیادہ تر مزدور پیشہ لوگ رہتے ہیں اور وہاں کی اکثر خواتین امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ہم اپنے گھر سے جو فالتو سامان نکالیں گے وہ قابل استعمال ہوگا‘‘ بس یہ بات ہے کہ اب وہ سامان ہمارے استعمال میں نہیں آتا۔ جیسے ہمارے وہ جوتے، کپڑے، سویٹر اور اسکول کے کوٹ جو اب چھوٹے ہو گئے ہیں مگر ہیں قابل استعمال۔ اگر انہیں وہ بچے پہن لیں جن کے پاس پھٹے ہوۓ کپڑے اور جوتے ہیں تو کتنا اچھا ہو۔ سردی میں سویٹر اور کوٹ ان کے کتنا کام آئیں گے۔ یہ سب چیزیں بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اسٹور میں رکھا ہوا وہ بہت بڑا صندوق ان ہی کپڑوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم یہ چیزیں جمع کرکے ان لوگوں کو دے دیں گے۔‘‘

    یہ بات فرحانہ کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ وہ بولی۔ ’’میں ان ڈبوں میں اپنے وہ کھلونے بھی رکھوں گی جن سے اب میں نہیں کھیلتی۔ دوسرے بچے ان سے کھیلا کریں گے اور ان سے کھیل کر خوش ہوں گے‘‘۔

    اس میٹنگ کے بعد تینوں بچے اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ انہوں نے گھر کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا تھا اور ان میں سے ہر ایک اپنے حصے میں موجود فالتو چیزوں کی لسٹ بنانے لگا۔ تینوں بچوں کی امی گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھیں مگر انھیں اس بات پر حیرت تھی کہ بچوں کے شور کرنے اور بھاگا دوڑی کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے کچن کی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ فرحانہ ڈرائنگ روم میں تھی اور ادھر ادھر دیکھ کر اپنی کاپی میں کچھ لکھتی جا رہی تھی۔

    کچن کی دوسری کھڑکی سے انہوں نے بچوں کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھا جس میں سے فہیم نظر آ رہا تھا۔۔۔ وہ الماری کا دروازہ کھولے کھڑا تھا اور وہ بھی اپنی کاپی میں کچھ لکھتا جا رہا تھا۔

    امی کی سمجھ میں کچھ آیا تو نہیں تھا بس انھیں یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ لوگ آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ’’کلیم شائد اوپر کی منزل پر ہوگا۔‘‘ انہوں نے سوچا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گئیں۔

    دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے تو کلیم اور فہیم کے دوستوں کو تشویش ہوئی، چھٹیوں کی تعطیلات کے باوجود وہ لوگ گھر میں ہی تھے، باہر نہیں نکلے تھے۔ ہلکی ہلکی بوندیں گرنا شروع ہو گئی تھیں اور موسم بہت ہی سہانا ہو گیا تھا۔ کلیم اور فہیم کے یہ دوست ان کے محلے ہی میں رہتے تھے۔ ان کا دوست شہاب دوسرے دو دوستوں فرحان اور توقیر کے ساتھ گلی کے بیچوں بیچ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کلیم کے دروازے پر آیا اور اس کو آواز دی۔ اس کی آواز سن کر کلیم نے بالکنی میں آکر اسے اشارہ کیا کہ وہ آ رہا ہے۔ پھر وہ نوٹ بک ہاتھ میں پکڑے پکڑے ہی اشہاب کے پاس چلا آیا۔

    ’’آج تو پہلی چھٹی ہے۔ تم آج ہی سے اسکول کا کام کرنے لگے ہو؟‘‘ شہاب نے حیرت سے پوچھا۔

    اتنے میں فرحان اور توقیر بھی وہاں آکر کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں سننے لگے۔ کلیم نے ان سب کو بتایا کہ وہ اپنی بہن اور بھائی کے ساتھ مل کر کیا کام کر رہا ہے۔

    ’’کلیم۔ یہ تو تم لوگ بہت اچھا کر رہے ہو۔ وہ چیزیں جو اب ہمارے استعمال میں نہیں آ رہی ہیں بارش سے متاثرہ غریب لوگوں کے کام آ جائیں گی۔ تم نے بہت اچھا آئیڈیا دیا ہے۔ ہم بھی گھر جاکر یہ کام شروع کرتے ہیں‘‘۔ اس کے دوست فرحان نے کہا۔ وہ سب اس بات پر بھی خوش تھے کہ ایک اچھی مصروفیت ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ وہ سب بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور گھر میں موجود فالتو سامان کی لسٹیں بنانے میں مصروف ہو گئے۔

    اگلے روز شام تک کلیم، فہیم اور فرحانہ نے اپنا کام ختم کر لیا تھا۔ ان کے پاپا آفس سے آ گئے تھے اور اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ امی ان کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ تینوں بچے اپنی اپنی نوٹ بکس لے کر ان کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔

    ’’امی ہم نے اپنے گھر کی ان چیزوں کی لسٹ بنائی ہے جو فالتو ہیں اور اب ہم انھیں استعمال نہیں کرتے ہیں۔‘‘ فرحانہ نے بتایا۔ پاپا اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوۓ بولے۔ ’’چلو۔ اچھا ہے اسی بہانے ان چیزوں کی صفائی بھی ہوگئی ہوگی۔‘‘

    ’’ابھی مزید صفائی بھی ہونا باقی ہے‘‘۔ فہیم نے مسکراکر کہا۔ ’’کلیم بھائی نے کہا ہے کہ جب امی ان لسٹوں پر ایک نظر ڈال کر اوکے کر دیں گی تو ہم یہ چیزیں ان لوگوں کو دے دیں گے جن کا سارا سامان بارشوں کی وجہ سے خراب ہو گیا ہے۔‘‘

    اس کی بات سن کر امی کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ’’میرے بچے تو بڑے اچھے ہیں۔ کس قدر شاندار بات سوچی ہے‘‘۔ انہوں نے تینوں سے نوٹ بکیں لیتے ہوۓ کہا اور ان میں درج چیزیں پڑھنے لگیں۔ ان چیزوں میں بچوں کے جوتے، موزے، کپڑے، کھلونے، درسی اور کہانیوں کی کتابیں، اسٹیشنری کا بہت سارا سامان، اسٹیل کے کھانا پکانے کے برتن، پلاسٹک اور چینی کی پلیٹیں، لکڑی اور دھاتی کفگیریں، آٹا گوندھنے کے تسلے، تانبے کے پانی پینے کے گلاس، مصالحہ اور نمک رکھنے کی پلاسٹک اور شیشے کی بوتلیں، اسکول لے جانے والے تھرماس، ایرانی کولر جن میں پینے کا پانی ٹھنڈا رہتا ہے، پرانے کمبل، چادریں، فوم کے گدے، تولیے، ایک ٹی وی، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، ریل والے دو کیمرے، مچھر دانیاں، دو پیڈسٹل اور ایک چھت کا پنکھا، بہت سارے ہینگر، پرانے وقتوں کا ایک ڈائل والا ٹیلی فون، ایک پرانا کمپیوٹر اور اس کے ساتھ مانیٹر اور پرنٹر، چابی والی ٹائم پیس، چھتریاں، لکڑی کی چھوٹی میز اور کرسیاں، باورچی خانے میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی ریک، تین پہیوں والی دو سائکلیں اور دو پلاسٹک کے اسٹول درج تھے۔

    ’’میں بھی اپنے کمرے کا جائزہ لوں گی اور پرانے کپڑے، شالیں، سینڈلیں، پرفیوم، میک اپ کا سامان اور تمہارے پاپا کے پرانے کپڑے، جوتے اور دوسری چیزیں نکال کر ان چیزوں میں شامل کر دوں گی۔ بارش نے غریب لوگوں کا کافی برا حال کر دیا ہے۔ ان چیزوں کے ساتھ میں بہت سا راشن بھی خرید کر انھیں بھجواؤں گی، تاکہ ان کے کام آ سکے ۔‘‘

    ان کے پاپا نے بھی وہ لسٹیں دیکھیں اور مسکراکر بولے۔ ’’اگر یہ سب چیزیں گھر سے چلی جائیں گی تو ہمارا گھر کتنا کھلا کھلا نظر آئےگا۔‘‘

    ’’ہمارے محلے میں رہنے والے دوست بھی ان چھٹیوں میں اسی کام میں مصروف ہیں اور انہوں نے بھی اپنے گھروں میں سے بہت سا سامان اکٹھا کر لیا ہے۔ اب ہم کل سے ان چیزوں کو ڈبوں میں پیک کرنا شروع کر دیں گے۔‘‘ کلیم نے اپنے پاپا سے کہا۔

    ’’اس قدر محنت کی ضرورت نہیں۔‘‘ ان کے پاپا بولے۔ ’’اتوار کو ہم لوگ اپنے علاقے کے چیریٹی ہوم جائیں گے اور انھیں یہ سب چیزیں دے کر آ جائیں گے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ نالے کے اس پار بارش سے متاثرہ لوگوں کی مسلسل مدد کر رہے ہیں۔ ویسے بھی وہ لوگ غریب لوگوں کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں اور انھیں اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ یہ چیزیں کن لوگوں کو دینا ہیں۔ ہاں اگر تم لوگ کر سکو تو یہ کام کر لینا کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پلاسٹک کے شفاف بیگوں میں رکھ دینا۔ اس طرح ان کو تقسیم کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔‘‘

    کلیم نے ایسا ہی کیا۔ وہ مارکیٹ سے بہت ساری شفاف پلاسٹک کی تھیلیاں لے آیا اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ان میں پیک کرکے ٹیپ سے انھیں بند کر دیا۔ شہاب، توقیر اور فرحان نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

    کلیم کے پاپا نے اس کے ان تمام دوستوں کے والدوں سے مل کر انھیں دعوت دی کہ وہ بھی اتوار کو یہ سارا سامان چیریٹی ہوم میں دینے کے لیے ان کے ساتھ چلیں۔ اتفاق کی بات تھی کہ اتوار کو ان میں سے کوئی بھی فارغ نہیں تھا، انہوں نے ساتھ جانے کی معذرت کرلی اور اپنے بچوں کو اجازت دے دی کہ وہ لوگ ان کے ساتھ چلے جائیں۔ بہرحال وہ سب ہی بچوں کے اس اچھے کام سے بہت متاثر نظر آتے تھے اور اس بات پر بہت خوش تھے کہ انہوں نے کھیل ہی کھیل میں دوسروں کی مدد کرنے کا ایک اچھا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔

    پھر اتوار بھی آ گیا۔ حسب معمول آج بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ان کے دوستوں کے گھروں سے بھی اسی قسم کی بہت سی چیزیں نکلی تھیں اس لیے سامان بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ ان کی امی نے آٹے، چینی اور دالوں کے دو دو کلو کے بہت سارے پیکٹ منگواکر اس سامان میں شامل کر دئیے تھے۔ ان تمام اشیا کو چیریٹی ہوم تک پہنچانے کے لیے کلیم کے پاپا کو ایک ٹرک منگوانا پڑ گیا۔ ٹرک کے ڈرائیور نے بچوں کی مدد سے تمام سامان اس میں لاد دیا۔ محلے کے دوسرے لوگ یہ منظر حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    جب سارا سامان ٹرک میں چڑھا دیا گیا تو کلیم کے پاپا نے تمام بچوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ٹرک کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چیریٹی ہوم آ گیا۔

    وہاں پر موجود آفس کا مینیجر ان سے بڑے تپاک سے ملا اور انھیں ایک کمرے میں بٹھایا۔ کلیم کے پاپا نے مختصراً تمام بچوں کے اس کام کے بارے میں مینیجر کو بتایا اور اس سے درخواست کی کہ اب اس سامان کوبارشوں سے متاثرہ مستحق لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ اس مینیجر نے بچوں کو اس کام پر بہت شاباش دی اور کہا۔ ’’بچو۔ خدا کا شکر ہے کہ اتنی سی عمر میں ہی آپ لوگ دوسروں کی تکلیفوں کا احساس کرتے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے اس کام سے بہت متاثر ہوں۔ غریب لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں، ہمیں ان کا بہت دھیان رکھنا چاہیے۔‘‘

    پھر اس نے ایک کلرک کو بلاکر اس سے سارے سامان کی لسٹ بنانے کو کہا۔ کلرک نے دو گھنٹے لگا کر سارے سامان کی لسٹ بنائی اور افسر کے حوالے کر دی۔

    مینیجر نے اس لسٹ کی ایک کاپی اپنے دستخط کرکے اور اسٹیمپ لگاکر کلیم کےپاپا کے حوالے کی اور بولا۔ ’’میں ایک مرتبہ پھر ان بچوں کا خاص طور سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنا شاندار کام کیا۔ اس کام کے کرنے میں یقیناً بہت محنت اور وقت صرف ہوا ہوگا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی اس محنت سے جانے کتنے لوگوں کی مدد ہو جائےگی۔ کئی روز سے جاری ان بارشوں نے ہمارے علاقے کی کچی آبادی میں بڑی تباہی مچائی ہے اور لوگوں کے گھروں کے سارے سامان کا ستیا ناس ہو گیا ہے ۔ ہم نے بھی ان لوگوں کے لیے آٹا، چاول، چینی، گھی، دالیں، چائے کی پتی اور دودھ کے ڈبوں کا تو انتظام کر لیا ہے مگر گھریلو استعمال کی دوسری اشیا کا انتظام نہیں کر سکے تھے۔ کھانے پینے کا یہ سامان اس وقت گاڑی میں لادا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہم آپ لوگوں کا لایا ہوا سامان بھی ان لوگوں میں تقسیم کر دیں گے۔ اس سامان میں جو الیکٹرانکس اشیا شامل ہیں انھیں ہم بازار میں بیچ دیں گے اور ان سے جو رقم ملے گی وہ بھی ان لوگوں میں تقسیم کر دیں گے۔ بارش کی وجہ سے ان میں سے کئی لوگ اپنے کاموں پر بھی نہیں جا سکے تھے، انھیں بھی کچھ پیسے مل جائیں گے۔‘‘

    سب بچے یہ سن کر خوش ہوگئے کہ ان کی محنت کام آ گئی ہے۔ بارشوں نے جو تباہی مچائی تھی وہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھی تھی۔ اس بستی کے لوگ بےیار و مددگار ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر اتنی شدید سردی میں اپنے گھر کے دروازوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔

    تھوڑی دیر بعد وہ سب لوگ واپسی کے لیے تیار ہو گئے۔ جب سب بچے گاڑی میں بیٹھ گئے تو کلیم کے پاپا نے کہا۔ ’’شاباش بچو۔ مجھے امید ہے کے تم لوگ آئندہ بھی ایسے اچھے اور تعمیری کام کرتے رہوگے جن سے دوسرے انسانوں کی مدد ہوتی رہے۔ کوئی ایسا کام کرنا جس سے کسی دوسرے کو فائدہ پہنچے، بہت بڑی نیکی ہوتی ہے اور اس طرح کی نیکیوں سے الله تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے۔‘‘

    توقیر نے کہا۔ ’’اس کام کی ابتدا کلیم نے کی تھی اور اس سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ سال چھ مہینے میں اس طرح کی تمام چیزیں نکال کر اپنے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں، ڈرائیوروں، مالیوں، گلی محلے کے چوکیداروں، غریبوں اور ہمارے اسکولوں میں بچوں کی دیکھ بھال اور دوسرے کاموں کے لیے جو بوا اور ملازمائیں ہوتی ہیں ان کو دے دینا چاہیے۔ یہ ان کے کام آ جائیں گی۔‘‘

    ’’شاباس توقیر بیٹے۔ تمھاری یہ بات بہت اچھی ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہم سب لوگوں کو اس بات پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘ کلیم کے پاپا نے کہا۔ ان کی بات سن کر سب بچے مسکراکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے