Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انگوٹھی اور بانسری کا راز

مختار احمد

انگوٹھی اور بانسری کا راز

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا جب کہ مانی فن سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔

    یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ سفر پر روانہ ہونے والا تھا تو اس کا باپ بیمار پڑ گیا۔ بیماری کی وجہ سے وہ کافی کمزور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے۔

    اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کردیتے تھے۔ دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے۔

    سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا۔ اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ وہ دونوں چونکہ جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کردی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے۔

    سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے۔ عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوئے تھے جو سونے کی اشرفیوں سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں۔ مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں۔ اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے بھی اس کے گھوڑے پر لدے ہوئے تھے۔

    دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی۔ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں۔

    سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ وہ ان کا سردار معلوم دیتا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا ۔ “شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں۔ سارا مال ان سے چھین لو۔ مزاحمت کریں تو قتل کردو”۔

    عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے۔ لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے۔ عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں۔ تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو”۔

    ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں۔

    مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی۔ عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔ ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی۔

    دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا۔ اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی۔ پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا۔ “بے ایمان لڑکو۔ یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟”۔

    مانی نے گڑ گڑا کر کہا۔ “اے ڈاکوؤں کے سردار۔ ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو”۔

    ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا۔ “نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟”۔

    مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا ۔ “انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے۔ ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے۔ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا”۔

    مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔

    دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔

    ڈاکوں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا۔ “خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا”۔

    “فکر کیوں کرتے ہو۔ الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا”۔ مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے اسے تسلی دی۔ پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

    دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی۔ ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوئے اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

    یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے۔ ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔ وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا۔

    بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے شور مچاتے ہوئے اڑ گئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    اچانک قریبی درختوں پر سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے۔ بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوئے تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک تو ڈاکو بے خبر تھے۔

    دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے۔ سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا۔

    اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے۔ انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں۔

    مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟

    اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا۔ مانی نے پھر کہا۔ “ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو۔ میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں”۔

    عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں۔ تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا”۔

    ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

    مانی کے باپ کوتوال نے عدنان اور مانی سے کہا۔ “اگر ہم ان خطرناک ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو یہ تم دونوں کی عقل مندی کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ تو کسی طرح ہاتھ ہی نہیں آتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں۔ برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ اب یہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے”۔

    بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں لمبی لمبی سزائیں ہو گئیں۔ عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا۔ یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے