انوکھا چور
انسپکٹر رشید رات نو بجے گھر پہنچا تھا۔ وہ کسی خاص کیس کی تفتیش میں مصروف تھا اس لیے گھر پہنچنے میں اسے دیر ہوگئی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی گاڑی گیراج میں کھڑی کی- ڈیوٹی کے اوقات میں بھی وہ اپنی ذاتی گاڑی ہی استعمال کرتا تھا اور اس میں پٹرول بھی اپنی جیب سے ڈلواتا تھا۔
وہ کوٹھی کی دوسری منزل پر پہنچا جہاں اس کے بھتیجے منصور اور بھتیجی بانو کے کمرے میں موجود تھے۔ اسے منصور سے ایک ضروری کام تھا۔ وہ جب منصور کے کمرے میں پہنچا تو وہاں پر اس کا دوست منیر شامی اور اس کی چھوٹی بہن شہلا بھی موجود تھے۔ انسپکٹر رشید کو دیکھ کر سب بچے کھڑے ہوگئے اور اسے سلام کیا۔ انسپکٹر رشید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے ان کے سلام کا جواب دیتے ہوئے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
“انکل آپ کے لیے چائے لے کر آؤں؟”۔ منصور کی بہن بانو نے اس کے قریب آ کر بڑی محبّت سے پوچھا۔
“نہیں۔ پہلے ہم لوگ کھانا کھائیں گے۔ چائے بعد میں پئیں گے”۔ انسپکٹر رشید نے بانو کا گال تھپتھپا کر کہا۔ پھر بولا۔ ”اچھا ہوا تم سب لوگ ایک جگہ ہی مل گئے ہو۔ منصور اور منیر شامی تم دونوں سے مجھے ایک کام پڑ گیا ہے۔ ”
“انکل۔ حکم کیجئے۔ ہم اس کام کو انجام دینے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے”۔ منصور نے شوخی سے کہا۔
انسپکٹر رشید نےمسکراتے ہوۓ کہا۔ “ تمھاری دو روز کی اسکول کی چھٹیاں آگئی ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کی۔ چاہو تو ان چھٹیوں میں پھول نگر کا چکر لگا آوٴ”۔
“نیکی اور پوچھ پوچھ”۔ منصور نے خوش ہو کر کہا۔ “ہم چاروں تیار ہیں”۔
“ٹھیک ہے”۔ انسپکٹر رشید نے کہا۔ “وہاں تم گھومو پھرو گے تو سہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمہیں ایک کام بھی کرنا پڑے گا”۔
“ہمیں منظور ہے۔ وہ کام کیا ہے؟”۔ منصور پھر بولا۔
“پھول نگر میں میرے ایک دوست رہتے ہیں۔ نیاز احمد۔ وہ ایک کاروباری آدمی ہیں۔ پچھلے ایک دو روز میں ان کے گھر سے چند بہت ہی قیمتی چیزیں چوری ہوگئی ہیں۔ اگر وہ اس کی رپورٹ تھانے میں کرواتے ہیں تو پولیس ان کے گھریلو ملازمین سے پوچھ گچھ کرے گی اور یہ بات انھیں منظور نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجھ سے مدد طلب کی ہے۔ مگر میری مصروفیات کچھ اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ ذرا سی بھی فرصت نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ میں تمہیں اور منیر شامی کو بھیج رہا ہوں۔ یہ جو بھی معاملہ ہے اسے سلجھانے میں مدد کریں گے۔ انہوں نے تم لوگوں کے بارے میں سن بھی رکھا ہے اور اخبارات میں بھی بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ وہ بے چینی سے تمہارا انتظار کرہے ہیں۔ تم لوگ تیاری کرو۔ تمہیں صبح روانہ ہونا ہے”۔
انسپکٹر رشید کی یہ بات ان کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہ تھی۔ بانو اور شہلا کا تو خوشی کے مارے برا حال ہوگیا تھا۔ انھیں اپنے شہر سے نکلے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ وہ خوش تھیں کہ اب انھیں کسی نئی جگہ پر جا کر گھومنے پھرنے کا موقع ملے گا۔ انسپکٹر رشید چلا گیا تو منیر شامی نے کہا۔ “ایک دلچسپ کیس ہاتھ آیا ہے”۔
منصور بولا۔ “ہے تو دلچسپ مگر ہمیں اس پر بہت توجہ دینا ہوگی اور اس کو حل کرنا ہوگا۔ رشید انکل ہم پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنا چاہیے”۔
“صبح کتنے بجے نکلنا ہے؟”۔ منیر شامی نے پوچھا۔ ”انشا اللہ ہم آٹھ بجے تک نکل جائیں گے۔ چلو اپنے بیگ تیار کرلو۔ تمھاری امی تمہیں اور شہلا کو اجازت دے دیں گی نا؟”۔ منصور نے سوال کیا۔
“انھیں جب پتہ چلے گا کہ اس کے لیے انکل رشید نے کہا ہے تو وہ اعتراض نہیں کریں گی”۔ منیر شامی نے کہا اور اٹھ گیا۔
منصور اور منیر شامی ہم عمر تھے۔ ان کی عمریں چودہ پندرہ سال کے لگ بھگ تھیں۔ منصور کے والد حمید احمد خان شہر کے مشور و معروف بزنس مین تھے اور ان کا کروڑوں کا کاروبار تھا۔ انسپکٹر رشید ان کا چھوٹا بھائی تھا ۔ شروع ہی سے اس کا رحجان اپنے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی طرف تھا اس لیے اس نے اپنے لیے اس پیشے کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بڑے بھائی حمید احمد خان تو یہ چاہتے تھے کہ وہ کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹائے مگر اپنی ایڈونچر پسند طبیعت سے مجبور ہو کر اس نے باہر کی ایک یونیورسٹی سے کریمنل جسٹس کی ڈگری لی اور پولیس میں آگیا۔ وہ ایک کامیاب پولیس آفیسر ثابت ہوا تھا۔ اس کے علاقے میں جرائم کی شرح بہت کم تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہونے والے اکثر جرائم کے مجرم اس کی اعلیٰ تفتیش کی وجہ سے قانون کی گرفت میں آجاتے تھے۔ اس نے بہت جلد اپنے افسروں کی نظروں میں ایک خاص مقام بنا لیا تھا۔
منصور اس کا بھتیجا تھا اور اس کو بھی سراغرسانی کا شوق تھا۔ اپنے چچا کی طرح اس کے دل میں بھی یہ عزم تھا کہ ان کا ملک برے لوگوں سے پاک ہوجائے تاکہ سب لوگ ایک پرسکون ماحول میں ہنسی خوشی زندگی گزاریں۔
اس کا دوست منیر شامی ان کے محلے میں ہی رہتا تھا۔ اس کے والد شہر کے ایک مشہور و معروف وکیل تھے۔ وہ سراغرسانی کے کاموں میں منصور کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ دونوں لڑکوں نے جاسوسی کے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے تھے کہ ان کا نام پورے ملک میں مشہور ہوگیا تھا۔
اگلی صبح وہ لوگ سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے سفر کے لیے انسپکٹر رشید نے اپنی گاڑی اور گھر کے ڈرائیور دلاور کا انتظام کردیا تھا۔ دلاور ایک ادھیڑ عمر کا خوش اخلاق انسان تھا۔ وہ برسوں سے ان کے گھر میں کام کررہا تھا۔ موسم بڑا سہانا تھا۔ آسمان پر کالے کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ لگتا تھا کہ کسی لمحہ ہی بارش شروع ہوجائے گی۔
دو گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ پھول نگر پہنچ گئے۔ وہ نیاز کی کوٹھی پر پہنچے تو آسمان سے موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں۔ انہوں نے شکر کیا کہ بارش ان کے منزل پر پہنچنے کے بعد شروع ہوئی ہے۔ راستے میں ہوجاتی تو بڑی دشواری ہو جاتی۔ نیاز ان کا بے چینی سے دروازے پر ہی کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ انھیں دیکھ کر اس نے خوشی کا اظہار کیا۔
اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی کھڑی تھی۔ وہ بائیس تئیس سال کی ایک خوبصورت عورت تھی۔ اس کی گود میں دو ڈھائی سال کا ایک گورا چٹہ گول گوتھنا سا بچہ تھا جو نیچے زمین پر اترنے کے لیے مچل رہا تھا۔ اتنے پیارے بچے کو دیکھ کر بانو اور شہلا تو بہت خوش ہوئیں۔ سب کو سلام کر کے انہوں نے بچے کو اپنے ساتھ لیا اور برآمدے میں کھڑی ہو کر بارش کا نظارہ کرنے لگیں۔
منصور نے نیاز اور اس کی بیوی لائبہ سے سب کا تعارف کروایا۔ لائبہ ایک خوش اخلاق اور ملنسار عورت تھی۔ اس نے دونوں کو دیکھ کر کہا۔ “تم دونوں بچوں کے متعلق اتنا کچھ سنا ہے کہ ملنے کا بہت اشتیاق ہوگیا تھا”۔
منیر شامی نے کہا “پورے دو تین گھنٹے ہو گئے تھے ایسی اچھی بات سنے ہوئے۔ ہاں تو لائبہ بھابی آپ کیا کہہ رہی تھیں”۔
نیاز اور لائبہ ہنسنے لگے۔ پھر وہ انھیں لے کر اندر آئے۔ نیاز نے ان کے ڈرائیور دلاور کے لیے کوٹھی کے اوپر والے پورشن میں ایک کمرے کا انتظام کردیا تھا۔ اس نے اس کو وہاں پہنچا دیا کہ وہ وہاں آرام کرے۔ پھر وہ لوگ ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر منیر شامی نے اصل گفتگو کی طرف آتے ہوئے کہا۔ ”انکل رشید سے آپ نے کسی مسئلے کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ وہ کیا مسلہ ہے؟”۔
نیاز نے کہا۔ “میں تو ایک عجیب مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ دو دن پہلے ہم لوگ ایک شادی میں شرکت کر کے واپس آئے تھے۔ رات زیادہ ہوگئی تھی اور تھک بھی گئے تھے۔ اس لیے لائبہ نے اپنے قیمتی زیور اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیے۔ اس کا خیال تھا کہ صبح ان کو سیف میں رکھ دے گی۔ صبح جب ہم لوگ سو کر اٹھے تو زیور وہاں سے غائب تھے۔ ہم بہت پریشان ہوگئے۔ اپنے طور پر ہم نے انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ وزیرن بوا اور ان کی بیٹی سے بھی پوچھا مگر لا حاصل۔ اس کے اگلے روز میری قیمتی گھڑی چوری ہو گئی۔ مجھے یاد ہے رات کو سوتے ہوئے میں نے اسے ہاتھ سے اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا”۔
منصور نے سوال کیا۔ “ان وارداتوں کے بعد آپ نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ یہ باہر سے آئے ہوئے کسی چور کا کام ہے”۔
نہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے کھڑکی دروازے مکمل طور پر بند تھے”۔ نیاز نے سوچتے ہوئے بتایا۔
لائبہ بولی۔ “کمرے کا دروازہ تو ہم خاص طور سے لاک کر کے سوتے ہیں کیوں کہ سہیل ڈھائی تین بجے اٹھ کر کمرے میں گھوم پھر کر کھیلنے لگتا ہے اور ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ وہ کمرے سے باہر نہ نکل جائے۔ اسی لیے ہمیں اس کے کھلونوں کی باسکٹ بھی کمرے میں رکھنی پڑتی ہے”۔
“آپ کے گھر میں کتنے نوکر ہیں؟”۔ منیر شامی نے پوچھا۔
“ہمارے گھر میں زیادہ نوکر نہیں ہیں۔ ایک مالی ہے وہ بھی باہر ہی باہر سے پودوں کی دیکھ بھال کر کے چلا جاتا ہے۔ ایک ڈرائیور ہے۔ اس کی ڈیوٹی دن رات کی ہے مگر اس کا گھر میں بالکل آنا جانا نہیں ہے۔ وہ ہماری کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے۔ ایک بڑی بی ہیں۔ ان کا نام وزیرن بوا ہے۔ وہ البتہ صبح سے شام تک ہمارے گھر میں ہی رہتی ہیں اور لائبہ کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ان کی ایک نو دس سال کی بیٹی بھی ہے۔ وہ بھی ان کے ساتھ آتی ہے اور سارا دن سہیل کو سنبھالتی ہے۔ سہیل اس سے بہت مانوس ہے اور اس کے بغیر نہیں رہتا۔ ان دونوں کا آزادی سے ہمارے گھر آنا جانا ہے۔ مگر وہ دونوں بہت ایماندار ہیں اور ہمیں ان پر ذرا بھی شک نہیں ہے۔ ان ہی کی وجہ سے میں نے اس واقعہ کی تھانے میں رپورٹ نہیں کروائی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ پولیس انھیں شک میں نہ دھر لے”۔
نیاز کی بات ختم ہوئی تو منصور نے کہا۔ “ٹھیک ہے۔ پہلے آپ ہمیں وہ کمرہ دکھا دیں جہاں سے یہ چیزیں چوری ہوئی تھیں”۔
نیاز انھیں لے کر اپنی خوابگاہ میں آیا۔ یہ ایک نہایت خوبصورت کمرہ تھا۔ پورے کمرے میں قالین بچھا ہوا تھا۔ کمرے کے وسط میں شیشم کی لکڑی کا ایک بڑا بیڈ تھا۔ ایک کونے میں ڈریسنگ ٹیبل تھی جس میں بڑا سا آئینہ لگا ہوا تھا اور اس کے پاس ایک اسٹول پڑا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل سے کچھ دور جوتوں کا ریک تھا جس میں اوپر کے دو خانوں میں لائبہ کی قیمتی اور خوبصورت سینڈلیں اور چپلیں رکھی ہوئی تھیں۔ نیچے والے خانے میں نیاز کے جوتے تھے۔ دو جوڑی تو عام جوتوں کی تھیں۔ ایک فل بوٹ تھے۔ پھول نگر کی بارشیں تو مشہور تھیں۔ پنڈلیوں تک لمبے یہ جوتے بارشوں میں کام آتے تھے۔ کمرے کے دوسرے کونے میں پلاسٹک کی ایک باسکٹ رکھی ہوئی تھی جس میں ننھے سہیل کے کھلونے بھرے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کمرے کی دو دیواروں میں لکڑی کی بڑی بڑی الماریاں بنی ہوئی تھیں، جن میں ملبوسات اور دوسری گھریلو چیزیں رکھی جاتی تھیں۔ کمرے میں دو بڑی بڑی کھڑکیاں بھی تھیں ان میں شیشے لگے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں کے پٹ باہر کی جانب کھلتے تھے اور اندر کی طرف باریک جالیوں کے ساتھ موٹی موٹی لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔
منصور اور منیر شامی نے ان سلاخوں کا جائزہ لیا۔ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک حالت میں تھیں۔ کافی دیر تک کمرے کو غور سے دیکھنے کے بعد منصور نے کہا۔ ”نیاز بھائی۔ ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کام گھر کے ہی کسی فرد کا ہے۔ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ کسی چور کی واردات کہی جا سکے۔ میرا مطلب ہے باہر کے کسی کے چور کی”۔
“کیا آپ ہمیں وزیرن بوا اور ان کی لڑکی سے ملوا سکتے ہیں۔ آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ گھر میں صرف ان ہی دو کا آنا جانا ہے”۔ منیر شامی نے کہا۔
اتنی دیر میں لائبہ بھی وہاں آ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ بولی۔ “یہ بات تو ٹھیک ہے مگر کبھی کبھی ڈرائیور اور مالی وزیرن بوا سے چائے لینے کے لیے گھر میں آ جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ بیٹھتے نہیں ہیں۔ چائے لے جا کر باہر ہی پیتے ہیں”۔
نیاز نے کہا۔ “مجھے بھی وزیرن بوا پر تو نہیں مگر ان کی بیٹی پر شبہ ہوا تھا۔ میں نے اپنے طور پر اس معاملے میں ان کی لڑکی سے بات کی تھی۔ انھیں اس پوچھ گچھ کا پتہ چلا تو وہ بیچاری ڈر گئیں اور دو دن سے کام پر بھی نہیں آ رہی ہیں۔ وہ سمجھ رہی ہیں کہ اس معاملے میں پولیس انھیں تنگ کرے گی”۔
“ان سے ملنا تو بہت ضروری تھا۔ بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ ہم آپ کے ڈرائیور سے ملنا چاہتے ہیں”۔ منصور نے کہا۔
نیاز کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے تھوڑی سی پریشانی کے آثار پیدا ہوئے۔ بولا۔ “آپ لوگ اس سے بھی نہیں مل سکتے۔ وہ ہفتے اور اتوار کی چھٹی لے کر اپنے گاوٴں چلا گیا ہے”۔
منصور اپنا سر کھجا کر منیر شامی کو دیکھنے لگا۔ منیر شامی بولا۔ “یہ تو بڑی مشکل ہوگئی ہے۔ ڈرائیور کا گاوٴں کتنی دور ہے”۔
“اپنی گاڑی میں جائیں تو سوا گھنٹہ لگ جائے گا”۔ نیاز نے بتایا۔
“اگر زحمت نہ ہو تو کیا آپ ہمیں وزیرن بوا اور ان کی لڑکی سے ملوانے ان کے گھر چلیں گے؟”۔ منیر شامی نے کہا۔
“مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ کھانے کے بعد چلے چلیں گے۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ ان لوگوں کا اس چوری میں کوئی ہاتھ ہوگا”۔ نیاز بولا۔
ابھی اس کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ شہلا ننھے سہیل کو گود میں لیے اندر داخل ہوئی۔ وہ ایک چلبلا اور ہنس مکھ بچہ تھا۔ اتنی ذرا سی دیر ہی میں دونوں لڑکیوں سے بہت مانوس ہوگیا تھا۔ لائبہ نے اسے گود میں لینے کے لیے ہاتھ آگے کیے تو “نہیں” کہہ کر وہ شہلا کی گردن سے لپٹ گیا۔
لائبہ ہنس کر بولی “شہلا تم جاوٴ تو اسے اپنے ساتھ ہی لے جانا۔ اتنی جلدی مجھ سے نظریں پھیر لی ہیں اس بدمعاش نے”۔
اچانک منصور کے موبائل کی بیل بجی۔ منصور نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا۔ انسپکٹر رشید کی کال تھی۔ وہ اس سے بات کرنے لگا اور اسے بتایا کہ وہ ساتھ خیریت کے پہنچ گئے ہیں اور اس وقت نیاز بھائی سے باتوں میں مصروف ہیں۔ انسپکٹر رشید نے مطمئین ہو کر فون بند کردیا۔
منصور نے اپنا موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور سہیل کو شہلا کی گود سے لے کر اس کے کھلونوں کی ٹوکری کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس نے سارے کھلونے ٹوکری سے نکال کر قالین پر پھیلا دیے۔ سہیل یہ دیکھ کر خوش ہوگیا اور ایک ایک کھلونا اٹھا کر منصور کو دینے لگا۔ منصور اس سے کھلونا لے کر اسے شاباش دیتا تو وہ خوش ہو کر اسے کوئی دوسرا کھلونا پکڑا دیتا۔
لائبہ دونوں لڑکیوں کے لیے ایک بڑا سا لوڈو لے آئی اور بولی۔ ”جب تک کھانا تیار ہوتا ہے تم دونوں لوڈو کھیلو”۔ اس نے لوڈو بستر پر رکھ دیا۔ شہلا اور بانو لوڈو دیکھ کر خوش ہوگئی تھیں۔ شہلا نے لوڈو کو بستر پر بچھا دیا۔ بانو پلاسٹک کی ڈبیہ میں سے گوٹیں اور دانہ نکالنے لگی۔
لائبہ بولی۔ “تم لوگوں کے جانے کے بعد سہیل تمہیں بہت یاد کرے گا۔ میں نے بہت دنوں بعد اسے اس قدر خوش اور مگن دیکھا ہے”۔
بانو بولی “لائبہ بھابی۔ آپ کہیں تو سہیل کو ہم اپنے ساتھ ہی لے جائیں۔ جب خوب بڑا ہوجائے گا تو واپس بھیج دیں گے”۔
بانو کی اس بات پر لائبہ ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی سے بانو نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سہیل کو ان کے ساتھ نہیں بھیجے گی۔
منیر شامی ایک طرف بیٹھا ہوا کچھ سوچ رہا تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی تو ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ اس نے منصور سے کہا۔ “منصور۔ میرا تو خیال ہے کہ ہم وزیرن بوا کے گھر سے ہو کر آجاتے ہیں۔ مجھے بے چینی ہو رہی ہے۔ ممکن ہوا تو سہ پہر کو ہم نیاز بھائی کے ڈرائیور کے گاوٴں بھی چلیں گے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس کم وقت میں ہی ہمیں اس کیس کو نمٹانا ہے”۔
اتنی دیر میں لائبہ ان کے لیے چائے بنا کر لے آئی۔ منیر شامی نے معذرت کرلی۔ چائے پینے کے لیے اس کا دل نہیں کر رہا تھا۔ بانو اور شہلا کھیل میں مگن تھیں۔ انہوں نے بھی چائے پینے سے انکار کردیا۔
منصور نے چائے کا کپ تھام لیا اور منیر شامی سے بولا۔ “میں آتا ہوں چائے پی کر۔ تم چلو”۔ منیر شامی چلا گیا۔ منصور بانو اور شہلا کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ لائبہ جاتے ہوئے دروازہ بند کر گئی تھی کہ سہیل باہر نہ نکل جائے۔ سہیل نے جب یہ دیکھا کہ منصور اب اس کے ساتھ نہیں کھیل رہا ہے تو وہ بھی اپنے بھالو کو ایک لات مار کر کھلونوں کے پاس سے ہٹ گیا اور کمرے میں ادھر ادھر پھرنے لگا۔
ادھر منیر شامی نے نیاز کو وزیرن بوا کے گھر جانے پر تیار کر لیا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ڈرائیور دلاور سے کہہ کر گاڑی بھی نکلوا لی تھی اور اب اسے منصور کی آمد کا انتظار تھا مگر منصور تھا کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
“او بھائی۔ چائے پی بھی چکو۔ ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں”۔ اس نے کمرے کے پاس آ کر زور سے کہا۔ اسی اثنا میں لائبہ بھی وہاں آگئی۔ اس کے ہاتھ میں سہیل کے دودھ کی فیڈر تھی۔ وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور سہیل کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ اس کے پیچھے منصور بھی نکلا اور منیر شامی کو مسکرا کر دیکھنے لگا۔ منیر شامی اسے گھور کر دیکھ رہا تھا۔ اس نے منصور کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو جل گیا۔ “اگر کاہلی اور سستی کا مقابلہ ہو تو تم پہلے نمبر پر آوٴ گے”۔
“میں اس پر بھی خوشی مناوٴں گا کہ چلو کسی چیز میں تو پہلا نمبر ملا”۔ منصور نے شوخی سے کہا۔
نیاز وزیرن بوا کے گھر جانے سے ہچکچا رہا تھا۔ اس نے مزاحمتی انداز میں کہا۔ “دیکھو لڑکو۔ مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ تم ان پر شک کر رہے ہو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ لوگ ایسے نہیں ہیں”۔
منصور نے کہا۔ “نیاز بھائی۔ مجھے آپ کی بات پر بھروسہ ہے”۔ پھر اس نے دلاور سے کہا۔ “دلاور انکل۔ گاڑی بند کردیں۔ ہم کہیں نہیں جا رہے”۔
منیر شامی اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس کی بات سن کر نیاز خوش ہوگیا تھا۔ منیر شامی نے کہا۔ “منصور بھول گئے۔ انکل رشید نے کہا تھا کہ کسی بھی واقعہ میں کسی پر بھی شبہ کرنے کے اچھے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے اور مجرم پکڑا جاتا ہے”۔
“مگر منیر شامی۔ اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چور پکڑا گیا ہے”۔ منصور نے بڑے مزے سے کہا۔
اس کی بات سن کر نیاز کے ساتھ ساتھ منیر شامی بھی چونک گیا۔ “وہ چور پکڑا گیا ہے”۔ نیاز نے منصور کی بات دوہرائی۔ “کہاں ہے وہ؟۔ کیا وہ ہمارا ڈرائیور ہے؟۔
لائبہ بھی صوفے پر بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ سہیل کے سر کے نیچے ایک کشن رکھ کر اور دودھ کی بوتل اسے پکڑا کر ان کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی اور حیرت سے منصور کو دیکھنے لگی۔ منصور نے اپنا موبائل نکالا اور انسپکٹر رشید کو فون ملایا۔ لائن ملی تو اس نے صرف اتنا کہا “انکل۔ خدا کا شکر ہے ہم نے یہ کیس حل کر لیا ہے۔ تفصیل بہت لمبی ہے۔ بعد میں بتاوٴں گا”۔ اس کے بعد اس نے موبائل بند کر کے جیب میں رکھ لیا۔
“کون ہے چور۔ کیا ہمیں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے؟”۔ نیاز نے تھوک نگل کر کہا۔
“میں تو اسے مناسب نہیں سمجھتا کہ پولیس کو اس معاملے میں ڈالا جائے”۔ منصور نے سنجیدگی سے کہا۔
“تم سیدھی طرح کیوں نہیں بتا رہے کہ چور کون ہے؟”۔ منیر شامی سے اتنا سسپنس برداشت نہ ہوا اور اس نے منصور کا گریبان پکڑ کر تیز آواز میں کہا۔
“بتاتا ہوں ۔ بتاتا ہوں”۔ منصور نے اس کے ہاتھ سے اپنا گریبان چھڑوایا۔ “وہ چور تمھارے سامنے ہی ہے”۔
”میرے سامنے تو تم ہی ہو”۔ منیر شامی نے بھنا کر کہا اور برا سا منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ نیاز اور لائبہ بھی اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھے جا رہے تھے۔
منصور نےمنیر شامی کی بات نظرانداز کرتے ہوئے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔ ”خیر میں اسے چور تو نہیں کہوں گا۔ لیکن ان سب چیزوں کی گمشدگی میں جس کا ہاتھ ہے وہ صوفے پر لیٹا مزے سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے دودھ پی رہا ہے”۔
“تمہارا مطلب ہے……سہیل؟”۔ نیاز نے حیرت سے پوچھا۔
“جی”۔ منصور نے بڑے مزے سے کہا۔
لائبہ اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ نیاز نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ “نہیں۔ میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتا”۔
“آئیے میرے ساتھ”۔ منصور نے کہا۔ سب اس کے پیچھے ان کی خواب گاہ تک پہنچے۔ اندر کمرے میں بانو اور شہلا بدستور کھیل میں مصروف تھیں۔ ان سب کو ساتھ آتے دیکھا تو انہوں نے کھیل روک دیا اور ان کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
منصور نے جوتوں کے ریک سے نیاز کے بارش والے جوتے اٹھائے اور ان کے قریب لا کر جوتوں کو قالین پر الٹ دیا۔ قالین پر لائبہ کے سونے کے ہار، بندے، کڑے ، چوڑیاں، انگوٹھیاں اور نیاز کی گھڑی سب چیزیں ان جوتوں میں سے نکل کر قالین پر پھیل گئیں۔
لائبہ کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ وہ سب چیزوں کو سمیٹ کر انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ نیاز کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ “تم نے تو کمال کردیا”۔ منصور کو دیکھتے ہوئے اس کے منہ سے نکلا۔
“مگر یہ چیزیں جوتوں میں پہنچیں کیسے؟”۔ منیر شامی نے سوال کیا۔
“سہیل صاحب کا کارنامہ۔ لائبہ بھابی تو یہ پہلے ہی بتا چکی تھیں کہ یہ حضرت رات ڈھائی تین بجے اٹھ کر کمرے میں گھومتے پھرتے اور کھیلتے تھے۔ جس کی وجہ سے کمرے کا دروازہ خاص طور سے بند کر کے رکھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے ایک روز جب زیوروں کو ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے دیکھا تو انھیں اٹھا اٹھا کر بارشوں کے ان لمبے جوتوں میں ڈالدیا۔ اگلے روز نیاز بھائی کی گھڑی کے ساتھ بھی یہ ہی سلوک ہوا”۔
“لیکن تمہیں اس بارے میں کیسے پتہ چلا؟”۔ منیر شامی نے حیرت سے پوچھا۔
“ جب انکل رشید کا فون آیا تھا تو ان سے بات کر کے موبائل کو میں نے بے خیالی میں ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ میں چائے پیتے ہوئے بانو اور شہلا کا کھیل دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے موبائل کا خیال آیا۔ میں نے جیبیں دیکھیں تو وہ وہاں نہیں تھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ اس کو تو میں نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل پر نظر ڈالی تو وہ وہاں نہیں تھا۔ میرا شبہ فوراً بانو پر گیا۔ وہ ہی گیم کھیلنے کے لیے اس کو لے لیتی ہے”۔
اتنے بہت سے لوگوں کے سامنے یہ الزام لگا تو بانو ناراض ہوگئی۔ “ہاں میں ہی شکل سے چور لگتی ہوں نا”۔ یہ کہہ کر اس نے منصور کو کُٹّی والی انگلی دکھائی۔
منصور نے مسکرا کر اس کو دیکھا اور پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ “میں ابھی موبائل کو ادھر ادھر تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی کی کال آگئی۔ اس کی بیل بجنے کی آواز آئی تو میں آواز کو سنتے سنتے جوتوں تک پہنچ گیا۔ وہاں پر یہ سب چیزیں ان میں پہلے ہی سے موجود تھیں”۔
اس کی بات ختم ہوئی تو نیاز اور لائبہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد لائبہ نے نیاز سے کہا۔ “شام کو ہم وزیرن بوا کے گھر چلیں گے اور ان کو واپس لے کر آئیں گے۔ انہوں نے جو ذہنی اذیت برداشت کی ہے اس کے بدلے میں نے سوچا ہے کہ ان کی تنخواہ میں دو ہزار روپے ماہانہ اضافہ بھی کردوں گی”۔
“ہمیں ان بچوں کو بھی انعام دینا ہوگا۔ یہ اتنی دور سے ہماری مدد کے لیے آئے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں ہماری قیمتی چیزیں بھی مل گئی ہیں”۔ نیاز نے کہا۔
منصور ایک لمحے کو چپ ہوگیا۔ پھر بولا۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اتنا بڑا نقصان ہوجانے پر بھی آپ نے وزیرن بوا اور ان کی بیٹی پر شک نہیں کیا تھا۔ اب تو یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ ان پر شک نہ کرنا بجا تھا۔ ان کی بیٹی ابھی چھوٹی ہے بانو اور شہلا کی ہی ہم عمر ہوگی۔ نو دس سال کی۔ میں آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ ان کی بیٹی کی پڑھائی لکھائی کی ذمہ داری آپ لوگ لے لیں۔ یہ ہی ہمارا انعام ہوگا”۔
اس کی بات سن کر لائبہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ منصور کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی “منصور بھیا۔ جیسا تم کہہ رہے ہو یہ میرا وعدہ ہے کہ ہم ویسا ہی کریں گے۔ ہم وزیرن بوا کی بیٹی کو تعلیم دلوائیں گے۔ میں اس کو اسکول میں داخل کرواوٴں گی”۔
لائبہ کی بات سے سب لوگ بہت خوش ہوگئے۔ اگلا دن ان لوگوں نے گھوم پھر کر گزارا اور پھر شام ہونے سے پہلے پہلے واپس اپنے گھر جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ منصور اور منیر شامی اس بات پر خوش تھے کہ وہ جس کام کے لیے آئے تھے وہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.