انوکھا کارنامہ
اطہر اپنے امی ابّا کے ساتھ سکھر میں رہتا تھا۔ ووہ بارہ سال کا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ چند دنوں کے بعد اس کی راحیلہ خالہ کی شادی ہونے تھی۔ وہ اس کی امی کی سب سے چھوٹی بہن تھیں اور کراچی میں رہتی تھیں۔ ان کی شادی کی اطلاع ملی تو اطہر کی امی شادی میں جانے کی تیاری کرنے لگیں۔
اطہر کے ابّا کی سکھر میں بہت سی زمینیں تھیں – ان زمینوں پر مختلف فصلیں کاشت کرنےکے لیے بہت سارے مزدور کام کرتے تھے۔ ان دنوں گندم کی فصل تیار ہوگئی تھی – اس موقع پر اطہر کے ابّا کا زمینوں پر رہنا ضروری تھا تاکہ وہ اپنی نگرانی میں اس کی کٹائی کروا کر گوداموں میں رکھوا سکیں کیوں کہ اگر بارش ہوجاتی تو اس کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔
اس کی امی نے سوچا کہ وہ اطہر کے ساتھ چلی جائیں گی۔ انہوں نے اطہر کی پانچ دن کی چھٹی کی درخواست اس کے اسکول میں بھجوا دی تھی جو منظور ہوچکی تھی۔ ان پانچ دنوں کی چھٹی کے لیے اطہر نے اپنی مس سے گھر کا کام بھی لے لیا تھا تاکہ کلاس کے دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے۔
اطہر ایک اچھا اور نہایت ذہین بچہ تھا۔ اسے اسکول سے غیر حاضری ذرا پسند نہیں تھی۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر روز صبح خود ہی بیدار ہو کر اسکول جانے کی تیاری شروع کردیتا تھا۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے اس کی امی کو بڑی آسانی ہوگئی تھی کیوں کہ انھیں اسے بار بار اٹھانا نہیں پڑتا تھا۔ وہ پڑھ لکھ کر ایک قابل انسان بننا چاہتا تھا تاکہ اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔
جب اطہر کی اسکول سے چھٹیاں منظور ہوگئیں تو اس کے ابّا نے اپنی زمینوں کے معاملات کو دیکھنے والے مینیجر سے کہہ کر ٹرین میں کراچی کے لیے ان کی دو سیٹیں بک کروادیں۔ دو روز بعد انھیں سفر پر روانہ ہونا تھا۔
دو روز پلک جھپکتے گزر گئے۔ ان کی روانگی کا دن آگیا تھا۔ اس کے ابّا انھیں ٹرین میں بٹھانے کے لیے ساتھ ہی آئے تھے۔ ٹرین کو رات تین بجے آنا تھا۔ ان کے ساتھ صرف ایک سوٹ کیس تھا جس میں شادی کی تقریبوں میں پہننے والے کپڑے وغیرہ تھے۔ اس کی امی نے اپنے سونے کے سارے زیورات پلاسٹک کے ایک ڈبے میں رکھ کر انھیں اپنے پرس میں چھپا لیا تھا اور اب وہ پرس ان کے شانے سے لٹک رہا تھا۔
ٹرین آئی۔ اس میں چھ سیٹوں کا ایک کوپہ تھا۔ سکھر اسٹیشن پر دو مسافر اتر گئے تھے۔ ان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ہی ان کے ٹکٹ بک کیے گئے تھے۔ اوپر والی برتھوں پر دو مسافر سو رہے تھے۔ انھیں کراچی تک جانا تھا۔ ایک مرد، عورت اور ان کا بچہ سامنے والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ بچہ اپنی ماں کی گود میں گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ لوگ حیدرآباد تک جا رہے تھے۔ اطہر کھڑکی والی سیٹ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کے ابّا نے ریلوے اسٹیشن کی ایک دکان سے اسے بہت سارے بسکٹ، ویفرز اور چپس کے پیکٹ دلا دیے تھے تاکہ اس کا سفر مزے سے گزرے۔
اس کے امی ابّا باتوں میں مصروف تھے۔ اطہر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے ایک بڑی بڑی مونچھوں والے شخص کو دیکھا۔ اس کے گال پر چاقو کے گھاؤ کا نشان بھی تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل خوفناک نظر آتی تھی۔ وہ ان کی کھڑکی کے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کی نظریں اس کی امی کے پرس پر لگی ہوئی تھیں۔
خوف کی ایک سرد لہر اطہر کے جسم میں دوڑ گئی۔ اس کا دل تو چاہا کہ اپنے ابّا کو اس طرف متوجہ کرے مگر عین اسی وقت گارڈ نے وسل بجا دی اور گاڑی ایک جھٹکے سے ہلکے ہلکے چلنے لگی۔ اس کے ابّا جلدی سے اٹھے، اطہر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کی امی کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گئے۔
ان کے جانے کے بعد اطہر اس آدمی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اسے نظر نہ آیا۔ شائد وہ کسی ڈبے میں سوار ہوگیا تھا۔ اس کے ابّا اسٹیشن پر کھڑے ہاتھ ہلا کر اسے خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ وہ بھی باتھ ہلانے لگا۔ ٹرین کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔ اس کی امی نے شال اوڑھ لی اور زیورات کے پرس کو اس میں چھپا لیا۔ وہ اپنی بہن کی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور دعا کررہی تھیں کہ شادی کے بعد وہ ایک خوش و خرم زندگی گزارے۔
انھیں کچھ اونگھ سی آنے لگی تھی اس لیے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ ٹرین انتہائی تیز رفتاری سے چیختی چنگھاڑتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اطہر کو چلتی ٹرین سے باہر دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ درخت، جھاڑیاں، میدان، گھر سب تیزی سے پیچھے کی جانب بھاگتے نظر آتے تھے۔
گاڑی چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر رکتی رکتی آخر صبح نو بجے حیدرآباد پہنچ گئی۔ اس دوران اطہر کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ سونے سے پہلے اس نے ڈبے کے دروازے کو چیک کرلیا تھا کہ اس کی کنڈی لگی ہوئی ہے۔
حیدرآباد پہنچ کر گاڑی رکی تو مسافروں کے شور سے اطہر کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی امی بھی بیدار ہوگئی تھیں اور انہوں نے چائے والے سے دو چائے لانے کا بھی کہہ دیا تھا۔ حیدرآباد پر وہ فیملی اتر گئی تھی اور یہاں سے کوئی نیا مسافر سوار نہیں ہوا تھا۔ سامنے والی سیٹ خالی ہوگئی تھی اس لیے اطہر اس پر بیٹھ گیا۔
اچانک اس کی نظر باہر اسٹیشن پر پڑی۔ وہ ہی بڑی بڑی مونچھوں والا شخص جس کے گال پر چاقو کے گھاؤ کا نشان تھا، ایک مرتبہ پھر ان کی کھڑکی کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا اور اندر جھانک کر دیکھنے لگا۔ اطہر کو پھر خوف محسوس ہونے لگا اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی وہ آدمی زیادہ دیر وہاں نہیں رکا اور لوگوں کی بھیڑ میں جاکر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اطہر اس پراسرار شخص کی جانب سے شبے میں آگیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اپنی امی سے اس بات کا تذکرہ کرتا تو وہ خوفزدہ ہوجاتیں۔
تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد ٹرین پھر چل پڑی۔ کراچی جانے والے مسافر بدستور اوپر کی برتھوں پر سو رہے تھے۔ اطہر نے حیدرآباد پر اترنے والے مسافروں کے جاتے ہی اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ وہ مونچھوں والا آدمی وہاں نہ آجائے۔ اطہر اپنے ساتھ اسکول کا بستہ بھی لایا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مس نے جو اسے چھٹیوں کا کام دیا ہے وہ کراچی میں کچھ وقت نکال کر اسے کرتا رہے گے۔ اسے اپنا اسکول اور وہاں کے دوست یاد آنے لگے تھے ۔ وہ اپنا بستہ کھول کر بیٹھ گیا۔
ابھی تک چائے والا چائے نہیں لایا تھا۔ اس کی امی اٹھیں اور بولیں۔ “اطہر بیٹا۔ انشا الله تعالیٰ تھوڑی دیر میں ہم کراچی پہنچ جائیں گے۔ ہمیں لینے کے لیے کامران، شکیلہ، عارف اور عاکف آئیں گے۔ میں ذرا واش روم میں جا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر حلیہ درست کر لوں۔ سفر کے دوران کیسی شکل ہوگئی ہے۔ تم میرا پرس سنبھالو”۔
یہ کہہ کر انہوں نے پرس اطہر کو دے دیا اور چلی گئیں۔ اطہر نے پرس کو اپنی گود میں رکھ لیا اور کچھ سوچنے لگا۔ اس کی نظروں میں اسی مونچھوں والے آدمی کی شکل گھومنے لگی تھی۔ یکا یک کسی خیال سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
امی کو گئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ چائے والا ایک ٹرے میں دو ڈسپوزیبل گلاسوں میں چائے لے کر آگیا۔ چائے اچھی تو تھی مگر مہنگی تھی کیوں کہ اطہر نے اسے سو روپے کا نوٹ دیا تو چائے والے نے اسے بیس روپے واپس کیے تھے۔
اس کی امی واپس آئیں تو سب سے پہلے انہوں نے اپنا پرس اطہر سے لیا اور اسے شال میں چھپا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئیں۔ پھر دونوں چائے پینے لگے۔ سیٹ پر اطہر کی بکھری کتابیں دیکھ کر انہوں نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ “پڑھنے کی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ تم یہاں بھی اپنی کتابیں لے کر بیٹھ گئے”۔
“اچھا ہے نا امی۔ تھوڑا بہت کام تو کر ہی لوں گا۔ وہاں پر عارف اور عاکف ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ کھیل کود کے دوران مجھے اسکول کا کام کرنے کا موقع ہی نہ ملے”۔ اطہر نے کہا۔ اس کی امی شفقت سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگیں۔
پھر ایک بجے وہ لوگ کراچی کے کینٹ اسٹیشن پہنچ گئے۔ اطہر کے کامران ماموں، شکیلہ ممانی اور ان کے دونوں بچے عارف اور عاکف اسٹیشن پر موجود تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کامران ماموں کی ہائی روف گاڑی اسٹیشن سے باہر کھڑی تھی۔ اطہر نے ایک مرتبہ پھر اپنے ڈبے کا جائزہ لیا کہ کوئی چیز بھول تو نہیں گئے۔ پھر وہ سب باہر کی جانب چل پڑے۔ چونکہ سامان زیادہ نہیں تھا اس لیے انہوں نے قلی نہیں کیا تھا۔ سوٹ کیس کامران ماموں نے اٹھا لیا تھا۔
اسٹیشن سے باہر کچھ دور کامران ماموں کی گاڑی کھڑی تھی۔ آس پاس رکشے، ٹیکسی اور موٹر سائیکلوں کا بے تحاشہ شور تھا۔ کچھ دور پر کھٹارا اور بہت پرانی مسافر بسیں بھی نظر آئیں۔ ان کے انجنوں کی آواز اتنی تیز تھی کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ یہ رونق اطہر کو کراچی میں ہی نظر آتی تھی۔ یہ مناظر دیکھ کر اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی پشت پر کتابوں کا بیگ تھا۔ عاکف کی نظر بیگ پر پڑی تو اس نے پوچھا۔ “اطہر۔ اس بیگ میں کیا ہے؟”۔
“اس میں بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔ “ اطہر نے مسکرا کر کہا۔
اس کی امی نے بھی عاکف کا سوال سن لیا تھا۔ وہ مسکرا کر بولیں۔ “یہ اطہر کے اسکول کا بیگ ہے اور اس میں اس کی کتابیں ہیں۔ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ یہاں کچھ وقت نکال کر چھٹیوں کا کام کرلیا کرے گا”۔
ان کی بات سن کر عارف اور عاکف کو بڑی حیرت ہوئی۔ اطہر حالانکہ اپنی خالہ کی شادی میں شرکت کے لیے آیا تھا اور شادیوں میں تو چوبیس گھنٹے ہّلہ گلّہ رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کا دھیان پڑھائی لکھائی سے غافل نہیں ہوا تھا۔ اطہر کی اس بات سے دونوں بھائی بہت متاثر نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ بھی اپنی پڑھائی لکھائی کو ہر چیز پر فوقیت دیں گے۔
وہ سب گاڑی کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ عاکف کچھ دور جا کر گاڑی کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اپنے موبائل سے ان لوگوں کی ویڈیو بنانے لگا۔
کامران ماموں نے سوٹ کیس رکھنے کے لیے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ عارف اور اطہر وہاں رکھی ہوئی فالتو چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگے تاکہ سوٹ کیس رکھنے کی جگہ بن جائے۔ اطہر کی امی اور ممانی وہیں سڑک پر کھڑی ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں۔
اچانک ایک موٹر سائیکل ان کے قریب آکر رکی۔ پچھلی سیٹ پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کی بڑی بڑی مونچھیں اور گال پر زخم کا نشان تھا۔ یہ وہ ہی شخص تھا جسے اطہر نے سکھر اور حیدرآباد کے اسٹیشنوں پر اپنے ڈبے میں جھانکتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے اطہر کی امی کے بازو سے لٹکے ہوئے بیگ پر جھپٹا مارا۔ اس کی امی کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ پرس چھینتے ہی موٹر سائیکل تیز رفتاری سے چل پڑی اور اگلے موڑ پر جا کر نظروں سے غائب ہوگئی۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ چند لمحوں تک تو کسی کی سمجھ میں کچھ آیا ہی نہیں۔ وہ سب اطہر کی امی کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ وہ بے چاری ابھی تک حواس باختہ تھیں۔ کچھ دیر بعد جب ان کی حالت سنبھلی تو انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں اپنے بھائی سے کہا۔ “کامران۔ اس پرس میں میرے سونے کے زیورات تھے۔ میں انھیں راحیلہ کی شادی میں پہننے کے لیے لائی تھی”۔
کامران ماموں ایک حوصلے والے انسان تھے۔ انہوں نے بہن کو تسلی دی اور بولے۔ “شکر ہے ان زیورات پر ہی بات ٹل گئی۔ ورنہ ایسی وارداتوں میں تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ زیورات تو اور بھی بن جائیں گے۔ میں ہی آپ کو بنوا کر دوں گا۔ آپ انھیں ہی پہن کر راحیلہ کی شادی میں شرکت کریں گی”۔
بھائی کے دلاسے سے بھی اطہر کی امی کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔ اطہر آگے بڑھا اور بولا۔ “امی۔ آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھیں۔ آپ کے قیمتی زیورات کسی نے نہیں چھینے۔ وہ تو میرے اسکول کے بیگ میں ہیں۔ میں نے عاکف سے اسی لیے تو کہا تھا کہ اس بیگ میں قیمتی چیزیں ہیں”۔
اطہر کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ عارف نے آگے بڑھ کر الجھے ہوئے لہجے میں کہا “اگر تمہارے بیگ میں زیورات ہیں تو کیا پھپھو کے پرس میں تمہاری کتابیں تھیں؟ اتنے ذرا سے پرس میں وہ آئی کیسے تھیں؟”۔
“میں سب کچھ بتا دوں گا مگر ہمیں یہاں سے جلد روانہ ہوجانا چاہیے”۔ اطہر نے کہا۔
سب جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اطہر کی امی اس کی بات سن کر خوش تو ہو گئی تھیں مگر انھیں حیرانی بھی بہت تھی۔ ان کے ذہن میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے۔
جب گاڑی چل پڑی تو اطہر نے اونچی آواز میں کہا۔ “ہم لوگ سکھر سے چل رہے تھے تو مجھے بڑی بڑی مونچھوں والا ایک مشکوک شخص اپنے ڈبے کے پاس نظر آیا – وہ کھڑکی میں سے امی کے پرس کو دیکھے جا رہا تھا۔ جب میں نے دوسری مرتبہ بھی اسے اپنے ڈبے کے قریب کھڑکی سے اندر جھانکتے دیکھا تو میرا شبہ یقین میں بدل گیا کہ وہ ضرور ہماری تاک میں ہے۔ گاڑی حیدرآباد سے چلی تو امی اپنا حلیہ درست کرنے واش روم چلی گئیں تاکہ جب آپ لوگ انھیں دیکھیں تو وہ آپ کو اچھی لگیں”۔
اس کی بات سن کر اس کی امی نے ایک ہلکی سی چپت اس کے سر پر ماری اور مسکراتے ہوئے اسے جھوٹ موٹ گھورنے لگیں۔
اطہر کی بات سن کر سب مسکرانے لگے تھے۔ اطہر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ “امی جاتے ہوئے اپنا پرس مجھے تھما گئیں – میرے دل میں اس خوفناک شخص کی طرف سے شہبات تو پیدا ہو ہی چکے تھے اس لیے میں نے چپکے سے پرس کھولا۔ اس میں رکھے ڈبے سے زیورات نکال کر احتیاط سے اپنی کتابوں کے بیگ میں رکھے۔ پھر زیورات کے خالی ڈبے میں اپنے ویفرز اور بسکٹوں کے پیکٹ رکھ کر اسے دوبارہ پرس میں رکھ دیا۔ امی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ میں کیا کارستانی دکھا چکا ہوں”۔
اطہر کی کہانی سن کر اس کی امی تو خوشی سے نہال ہوئی جا رہی تھیں اور بار بار پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
ممانی نے اطہر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ “آپی گھر جاکر اطہر کی نظر اتار دیجیے گا۔ یہ تو بہت عقلمند بچہ ہے۔ دیکھیے تو سہی کتنی عقلمندی سے ان بدمعاشوں کو چکمہ دے دیا جو سکھر سے آپ کے پیچھے لگے ہوئے تھے”۔
“چراغ تلے اندھیرا”۔ عاکف نے منمنا کر کہا۔ سب اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔
“اس بات سے عاکف تمہارا کیا مطلب ہے؟ اطہر کی تعریف سن کر جیلیسی تو فیل نہیں کر رہے؟” عارف نے کہا۔
“حسد سے تو الله بچائے۔ یہ بہت بری چیز ہوتی ہے”۔ عاکف نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ “میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے بھی ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا”۔
“پہلے کارنامہ تو بتاؤ، سننے کے بعد ضرور دھیان دیں گے”۔ اس کے ابّو نے ہنس کر کہا۔ وہ بھی صورت حال کے بدل جانے سے بہت خوش نظر آ رہے تھے۔
“میں نے اس پورے واقعہ کی ویڈیو موبائل میں بنا لی ہے۔ اس ویڈیو میں موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے دونوں ڈاکو صاف نظر آرہے ہیں۔ پرس چھیننے کی واردات اور ان کی موٹر سائیکل کا نمبر، تمام چیزیں اس ویڈیو میں آگئی ہیں۔ اب ہم یہ ویڈیو پولیس کو دے دیں گے اور وہ انہیں بڑی آسانی سے گرفتار کر لے گی۔ ویسے بھی ان بدقماش لوگوں کی چھینا جھپٹی سے کراچی کے عوام ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ ان کے پکڑے جانے سے کچھ تو اس عذاب میں کمی آئے گی۔ ہوسکتا ہے ان کے دوسرے ساتھی بھی ہوں جو پکڑے جائیں”۔
اس کی بات سن کر اطہر کی امی بولیں۔ “ہم الله کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ ہمارے بچے اتنے ہوشیار اور ذہین ہیں اور آس پاس کی ہونے والی تمام باتوں پر دھیان رکھتے ہیں۔ عاکف تم نے بھی بہت بڑا کام کیا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ایک منظم گروہ ہے جسے پولیس تمہاری بنائی ہوئی ویڈیو کی مدد سے پکڑ لے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ تم دونوں نے ایک انوکھا کارنامہ انجام دیا ہے”۔
پھر ہوا بھی ایسا ہی۔ گھر پہنچ کر اطہر کے ماموں نے اپنے دوست انسپکٹر فرحت عثمانی کو فون کیا اور اسے اس واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وہ بھاگا بھاگا ان کے گھر آیا کیوں کہ اس طرح کی وارداتوں نے کراچی والوں کا جینا اجیرن کردیا تھا اور پولیس چاہتی تھی کہ ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے ایسے لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔
ویڈیو دیکھ کر اس نے اطہر اور عاکف کو بہت شاباش دی۔ اس نے ان کے کارنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ “دونوں بچے بہت ذہین اور ہوشیار ہیں۔ اطہر نے حالات کا جائزہ لے کر ایک بہت اچھا قدم اٹھایا اور عاکف نے بغیر کسی گھبراہٹ کے ان بدمعاشوں کی ویڈیو بنائی۔ یہ ویڈیو ان کی گرفتاری میں بہت مدد دے گی۔ بچوں کو ایسا ہی حاضر دماغ ہونا چاہیے”۔
عاکف نے مجرموں کی ویڈیو ایک یو ایس بی میں کاپی کرکے انسپکٹر کے حوالے کردی تھی اور وہ اسے لے کر مزید کارروائی کرنے کے لیے چلا گیا۔
اگلے روز انسپکٹر نے اس موٹر سائیکل کے مالک کا پتہ چلا کر اسے گرفتار کرلیا۔ اس کی مدد سے اس گروہ کے بقیہ لوگ بھی پکڑے گئے۔ وہ بڑی بڑی مونچھوں والا بدمعاش جو سکھر سے اطہر اور اس کی امی کے پیچھے لگا ہوا تھا، وہ بھی گرفتار ہوگیا تھا۔ دوران تفتیش اس نے بتایا کہ وہ کسی کام سے کراچی سے سکھر آیا تھا۔ اس کی رہائش اطہر کے محلے میں ہی تھی۔ یہاں اس کے رشتے دار رہتے تھے۔ ایک روز اسے پتہ چلا کہ اطہر اپنی امی کے ساتھ خالہ کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی جا رہا ہے۔ عورتیں تو بغیر زیورات کے شادیوں میں شرکت کرنا پسند ہی نہیں کرتیں، اس لیے اسے پکّا یقین تھا کہ اس کی امی اپنے زیورات پرس میں رکھ کر لے جائیں گی۔ چونکہ اسے بھی واپس کراچی جانا تھا اس لیے اس نے بھی اسی ٹرین میں ٹکٹ بک کروالیا تھا اور کراچی میں موجود اپنے ساتھیوں سے موبائل پر رابطہ کرکے انھیں لوٹنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر ان لڑکوں کی ہوشیاری کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے۔ اس نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اڈے پر جا کر پرس کی تلاشی لی تو اس میں رکھے ڈبے میں سے بچوں کے کھانے کی چیزیں ملی تھیں۔ اس پر اس کے ساتھیوں نے اس کی بیوقوفی کا خوب مذاق اڑایا تھا کہ اتنی معمولی چیزوں کو ہتھیانے کے لیے اس نے اتنی محنت کی۔
یہ بہت بڑا گروہ تھا۔ اس گروہ میں شامل لوگ شہریوں کے موبائل اور نقدی بھی چھینا کرتے تھے۔ یہ اتنے بے رحم اور خطرناک مجرم تھے کہ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے والے معصوم شہریوں پر گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں کو گرفتار کرنے کی وجہ سے انسپکٹر فرحت عثمانی کے افسروں نے اسے بہت شاباش دی۔ جب انسپکٹر فرحت عثمانی نے افسران کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ان خطرناک مجرموں کی گرفتاری میں اطہر اور عاکف کا بہت بڑا حصہ ہے تو دو روز بعد محکمہ پولیس کی جانب سے انھیں بھی ایک تقریب میں مدعو کیا گیا اور ان کی بہادری اور ذہانت کے اعتراف میں انھیں گرانقدر انعامات اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔
ان کا یہ کارنامہ ان کی تصویروں کے ساتھ کراچی کے صبح اور دوپہر کے تمام اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا جس کی وجہ سے ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.