Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقلمند شہزادی

مختار احمد

عقلمند شہزادی

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    بادشاہ اور ملکہ بہت دنوں بعد دوسرے ملکوں کی سیر کر کے واپس اپنے محل میں آئے تھے اس لیے ان کے آنے سے پورے محل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تینوں شہزادے سلطان، ارسلان، رضوان اور ان کی چھوٹی بہن شہزادی سلطانہ سب بہت خوش تھے۔

    وہ چاروں بھائی بہن بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ نہ جا سکے تھے۔ بادشاہ اور ملکہ کے محل سے چلے جانے سے وہ اداس ہوگئے تھے کیوں کہ وہ انھیں بہت یاد آتے تھے۔ ان سے جدائی کے دن انہوں نے بڑی مشکل سے کاٹے تھے۔

    بادشاہ اور ملکہ چہروں سے کچھ پریشان نظر آ رہے تھے۔ شہزادی سلطانہ تو چھوٹی تھی، اس لیے ان کی پریشانی کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں گیا۔ وہ ان تحفوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگی جو بادشاہ اور ملکہ اس کے لیے دوسرے ملکوں سے لائے تھے۔ مگر تینوں شہزادے چونکہ بڑے تھے اس لیے انہوں نے بادشاہ اور ملکہ کی پریشانی بھانپ لی تھی۔ انھیں اس بات پر بھی حیرانی تھی کہ دونوں نے اپنی ایک ایک آنکھ بند کر رکھی تھی، اور ایک ہی آنکھ سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔

    ان کی پریشانی اور ایک بند آنکھ دیکھ کر بڑے شہزادے سلطان نے پوچھا۔ ’’ابّا حضور۔ نصیب دشمناں طبیعت تو کہیں نا ساز نہیں۔ آپ کچھ پریشان نظر آتے ہیں۔ آپ نے اور امی حضور نے اپنی ایک ایک آنکھ بند کر رکھی ہے۔ کوئی تنکا یا پتنگا وغیرہ تو نہیں پڑ گیا ہے۔ حکم ہو تو ہم نکال دیں؟‘‘۔

    بادشاہ نے دوسری آنکھ بھی کھولتے ہوئے اداسی سے جواب دیا۔ ’’شہزادے ہم کچھ نہیں بہت پریشان ہیں۔ واپسی کے سفر کے دوران جانے کیا بات ہوگئی ہے کہ ہمیں اور آپ کی امی کو ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے تم چاروں کھڑے ہو مگر ہمیں آٹھ نظر آرہے ہو۔ ملکہ بھی ایک نہیں دو دو دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک آنکھ بند کر لیں تو ٹھیک نظر آتا ہے‘‘۔

    ملکہ نے بھی اپنی دوسری آنکھ کھول لی تھی۔ وہ بولی۔ ’’میری بھی یہ ہی حالت ہے۔ میں بھی اپنی دونوں آنکھوں سے اس وقت چھ شہزادوں، دو شہزادیوں اور دو بادشاہ سلامتوں کو دیکھ رہی ہوں۔ ایک آنکھ سے دیکھوں تو ایک ایک ہی نظر آتے ہیں‘‘۔

    چاروں بچے یہ بات سن کر گھبرا گئے اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ بادشاہ نے ان کی گھبراہٹ محسوس کر لی۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھا کہ اس کے بچے اپنے ماں باپ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور اسی لیے ان کی تکلیف کا سن کر پریشان ہوگئے ہیں۔ انھیں تسلی دینے کی خاطر اس نے کہا۔ ’’فکر کی بات نہیں۔ جب ہم ایک آنکھ بند کر کے دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر چیز پھر ایک ہی نظر آتی ہے۔ ہم ایک آنکھ سے ہی دیکھتے دیکھتے زندگی گزار لیں گے‘‘۔

    منجھلے شہزادے ارسلان نے جلدی سے ایک کنیز کو بھیج کر شاہی طبیب کو بلوا لیا۔ شاہی طبیب نے بادشاہ اور ملکہ کا تفصیلی معائینہ کر کے مایوسی سے سر ہلا دیا اور بولا۔ ’’ایک ایک کے دو دو دکھائی دینے والی اس بیماری کا کوئی علاج میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے اس بیماری کے بارے میں اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے۔ بادشاہ سلامت اور ملکہ صاحبہ صرف اسی صورت میں ٹھیک ہوسکتے ہیں کہ جادو کے پہاڑ کی چوٹی پر لگے عجیب و غریب رنگ برنگے درختوں سے سیب توڑ کر لائے جائیں اور انہیں کھلا دیے جائیں۔ اس کے علاوہ کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ مگر اس جادو کے پہاڑ پر پہنچنا آسان کام نہیں۔ ایک بہت بڑا اور خوفناک شیر پہاڑ والے راستے کی پہرے داری کرتا ہے اور بڑے بڑے خطرناک پرندے پہاڑ پر منڈلاتے رہتے ہیں‘‘۔

    بڑا شہزادہ سلطان بولا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ ہم تینوں جادو کے پہاڑ پر سے سیب لائیں گے۔ ہم سے اپنے ابّا حضور اور امی حضور کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی‘‘۔

    اس وقت بادشاہ کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے تینوں شہزادوں کو دیکھتے ہوئے گھبرا کر کہا۔ ’’اگر تم چھ کے چھ چلے گئے تو محل کی تنہائی ہمیں کاٹنے کو دوڑے گی‘‘۔

    چھوٹے شہزادے رضوان نے مسکرا کر کہا۔ ’’ابّا حضور۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم صرف تین ہی جائیں گے۔ بقیہ تین کو محل میں ہی چھوڑ جائیں گے‘‘۔

    اگلے روز وہ تینوں شہزادے اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ وہ چلنے لگے تو شہزادی سلطانہ بھی ضد کرنے لگی کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائے گی۔ اسے بڑی مشکلوں سے منا کر روکا گیا۔ راستہ واقعی بہت پر خطر تھا۔ پھر بارشیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ اس وجہ سے ان کا سفر اور بھی دشوار ہوگیا تھا۔ گھنے جنگلوں سے ہوتے ہوئے، دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے وہ ایک بستی میں پہنچے۔

    بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی تھی اور گھروں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ بستی میں انہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت اپنے ٹوٹے ہوئے مکان کی مرمت کر رہی ہے۔ بستی کا کوئی شخص بھی اس کی مدد نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ بھی اپنے اپنے مکانوں کی مرمت کے کاموں میں لگے ہوئے تھے جو موسلا دھار بارش کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ اس بوڑھی عورت کو مٹی کی اینٹیں اور گارا خود اٹھا اٹھا کر لانا پڑ رہا تھا۔

    شہزادوں کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ وہ اپنے گھوڑوں سے اترے اور اس بوڑھی عورت کو ایک طرف بٹھا کر اس کے گھر کی مرمت میں مصروف ہوگئے۔ وہ بوڑھی عورت ان کی ہمدردی دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور انھیں دعائیں دینے لگی۔

    شام تک بہت سارا کام ہو چکا تھا اور مکان کی تھوڑی سی مرمت باقی تھی۔ شہزادوں نے ارادہ کیا کہ باقی کام کل کریں گے۔ انہوں نے بوڑھی عورت کو اشرفیوں سے بھری تھیلی بھی دی اور اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے کھانے پینے کا انتظام کرے اور انھیں اپنے گھر میں رات گزارنے دے۔

    بوڑھی عورت بہت غریب تھی، اشرفیاں دیکھ کر خوش ہوگئی اور ان کے ٹھہرنے کا بندوبست کر کے ان کے لیے کھانا تیار کرنے لگی۔

    کھانے کے بعد اس نے شہزادوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ شہزادوں نے اسے بتایا کہ وہ اس ملک کے شہزادے ہیں۔ ان کے ماں باپ کو کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے ہیں اس لیے وہ جادو کے پہاڑ پر سے سیب لینے جا رہے ہیں تاکہ انھیں کھا کر ان کے ماں باپ کو ٹھیک طرح نظر آنے لگے۔

    ان کی بات سن کر وہ عورت سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی- ’’شہزادے ہونے کے باوجود تم نے مجھ غریب اور بوڑھی عورت کی مدد کی میں تمہاری بہت شکر گزار ہوں۔ تم تینوں بہت نیک اور رحم دل شہزادے ہو۔ میں اس جادو کے پہاڑ کے متعلق جانتی ہوں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ جو بھی اس پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے قدم پہاڑ پر جم جاتے ہیں۔ وہ کتنا ہی زور لگا لے اپنے قدم آگے نہیں بڑھا سکتا۔ بس ایسا ہی لگتا ہے جیسے اس کے پاؤں کسی نے جکڑ لیے ہیں۔ پھر اس پر چڑھنے والے راستے پر ایک شیر بھی ہوتا ہے۔ جب اس انسان کے پاؤں پہاڑ سے چپک جاتے ہیں تو وہ شیر اس پر حملہ کر کے اسے ہڑپ کر جاتا ہے‘‘۔

    یہ بات سن کر شہزادے پریشان ہوگئے۔ شہزادہ عرفان نے کہا - ’’یہ تو بڑی مشکل ہوگئی ہے۔ جب ہمارے قدم ہی چپک جائیں گے تو ہم اس خونخوار شیر کا کیسے مقابلہ کریں گےاور پہاڑ کی چوٹی پر کیسے پہنچیں گے؟‘‘

    ’’تم لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے میری مدد کی ہے میں تمہاری مدد کروں گی”۔ بوڑھی عورت نے کہا۔ ’’اب تم لوگ کھانا کھا کر آرام کرو۔ کل اپنے سفر پر روانہ ہوجانا‘‘۔

    مشقت کا کام کرنے کی وجہ سے تینوں شہزادے بہت تھک گئے تھے۔ کھانا کھا کر جو وہ لمبی تان کر سوئے ہیں تو انہوں نے دوسرے روز کی ہی خبر لی تھی۔ اگلے دن انھوں نے جلدی جلدی مکان کا بقیہ کام نمٹایا۔

    کام مکمل ہوگیا تو بوڑھی عورت نے اپنا صندوق کھول کر اس میں سے سرخ رنگ کے جوتے، ایک جال اور ایک سنہرا تیر نکال کر انھیں دیا اور کہا۔ ’’بہت پہلے میں ایک پری کے گھر خادمہ کا کام کرتی تھی۔ وہ بہت اچھی پری تھی اور میرا بہت خیال رکھتی تھی۔ جب اس کا دل جادو کی مختلف چیزوں سے بھر جاتا تھا تو وہ انھیں پھینکتی نہیں تھی بلکہ مجھے دے دیا کرتی تھی۔ صندوق میں موجود یہ چیزیں اس ہی نے مجھے دی تھیں۔ جب تم لوگ پہاڑ کے نزدیک پہنچو گے تو تمہیں اس کے پاس ایک شیر ملے گا۔ وہ پہاڑ پر چڑھنے والے راستے کا نگران ہے اور بہت خونخوار ہے۔ جب وہ تم پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹے تو تم اس پر یہ جادو کا جال پھینک دینا، یہ جال اس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ تم وہاں آسمان پر بہت بڑے بڑے اور خوفناک پرندے بھی دیکھو گے۔ یہ پرندے اسی پہاڑ پر منڈلاتے رہتے ہیں اور ان رنگ برنگے درختوں کے سیب ان کی غذا ہیں۔ یہ کسی کو ان کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے ہیں۔ تم اس جادو کے تیر کو ان کی جانب پھینک دینا یہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ان سب کا ایک ایک کر کے خاتمہ کر کے دوبارہ تمہارے پاس آجائے گا۔ جب ان خوفناک پرندوں کا خاتمہ ہو جائے تو پھر تم میں سے کوئی ایک یہ جادو کے جوتے پہن کر پہاڑ پر چڑھ جائے۔ ان کے پہننے سے اس کے قدم پہاڑ سے نہیں چپکیں گے۔ پہاڑ کی چوٹی پر بہت سارے درخت لگے ہونگے۔ ان کے پتے رنگ برنگے ہونگے۔ وہ سیب ان ہی پودوں میں لگتا ہے۔ مجھے امید نہیں کہ کوئی سیب تمہیں وہاں ملے کیونکہ وہ پرندے انھیں چٹ کر جاتے ہیں۔ بہرحال کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔

    بوڑھی عورت کی اس بات نے انھیں تھوڑا سا پریشان کر دیا تھا کہ پرندے ان سیبوں کا صفایا کردیتے ہیں اور ہوسکتا ہے انھیں وہاں کوئی سیب نہ ملے۔ بہرحال انہوں نے تمام چیزیں لے کر اس بوڑھی عورت کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔

    ان کے گھوڑے آرام کرنے کی وجہ سے تازہ دم ہوگئے تھے اس لیے وہ جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ جیسے ہی وہ اس پراسرار پہاڑ کے نزدیک پہنچے، ان کے کانوں میں شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا شیر دوڑتا ہوا ان لوگوں کی جانب آ رہا ہے۔

    شہزادہ ارسلان نے جلدی سے جادو کا جال نکالا اور شیر کی طرف اچھال دیا۔ جال اڑتا ہوا گیا اور شیر پر جا گرا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شیر بے بس ہوگیا اور تیز آواز میں دھاڑتے ہوئے جال سے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگا۔

    عین اسی وقت انھیں اپنے سروں کے اوپر پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں سنائی دیں۔ انہوں نے اوپر دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بہت سارے دیو قامت پرندے خوفناک آوازوں میں چیختے ہوئے ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ان پر جھپٹنے کی فکر میں ہیں۔

    سب سے چھوٹے شہزادے رضوان نے جادو کا سنہرا تیر نکالا اور ان پرندوں کی جانب اچھال دیا۔ ایک بجلی سی کڑکی اور جادو کا تیر برق رفتاری سے آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں کی جانب لپکا اور پل کے پل میں ایک کے بعد ایک ان کا خاتمہ کر کے دوبارہ شہزادہ رضوان کے پاس آگیا۔

    راستہ صاف دیکھ کر بڑے شہزادے سلطان نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے جادو کے جوتے پہنے اور بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں اس نے رنگ برنگے درخت دیکھے جو قطار در قطار نظر آرہے تھے مگر اسے بہت مایوسی ہوئی، ان پر سیب نہیں لگے ہوئے تھے۔

    اسے بوڑھی عورت کی بات سچ لگی۔ ان پرندوں نے سارے سیب کھا لیے تھے۔ شہزادہ سلطان نے سوچا کہ ان کا یہاں آنا تو بے سود ہی رہا۔ نا امیدی کے عالم میں اس نے ہر درخت کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک درخت میں ایک سیب نظر آ ہی گیا۔ وہ گھنے پتوں میں چھپا ہوا تھا اس لیے پرندوں کو نظر نہ آسکا تھا۔ شہزادہ سلطان نے اسی کو غنیمت جانا اور اسے توڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور بھاگ کر پہاڑ پر سے اتر کر اپنے بھائیوں کے پاس آگیا۔

    اس نے اپنے دونوں بھائیوں کو بتا دیا تھا کہ اسے صرف ایک ہی سیب ملا ہے۔ وہ بھی بہت افسوس کرنے لگے۔ جب وہ واپسی کے لیے مڑے تو شیر نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’مجھے آزاد کر دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘‘۔

    شہزادوں کو اس پر رحم آگیا۔ انہوں نے اسے آزاد کردیا اور وہ بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ شہزادہ ارسلان نے جادو کے جال کو بھی اپنے تھیلے میں رکھ لیا اور پھر تینوں شہزادے واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے۔

    وہ سب سے پہلے بوڑھی عورت کے گھر گئے اور جوتے، تیر اور جال کو اس کے حوالے کر کے اس کا شکریہ ادا کیا۔ شہزادوں نے اسے بہت ساری اشرفیاں بھی دیں جنہیں پا کر بوڑھی عورت خوش ہوگئی۔

    ایک رات اور ایک دن کے سفر کے بعد تینوں شہزادے خیریت سے محل پہنچ گئے۔ ملکہ انھیں دیکھ کر خوش ہوگئی۔ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے کہا۔ ’’میں بہت خوش ہوں۔ میرے چھ کے چھ شہزادے گھر لوٹ آئے ہیں‘‘۔

    بادشاہ کی ایک آنکھ بند تھی۔ وہ حیرت سے بولا۔ ’’پیاری ملکہ ایک آنکھ بند کر کے دیکھو۔ شہزادے تو تین ہی ہیں‘‘۔

    ملکہ شہزادوں کے صحیح سلامت لوٹ آنے پر بہت خوش تھی اس لیے بادشاہ کی بات سن کر ہنس پڑی اور اپنی ایک آنکھ کو ہاتھ سے ڈھانپ کر شہزادوں کو دیکھنے لگی۔ شہزادہ سلطان اداسی سے بولا۔ ’’امی حضور۔ وہاں درخت سے ہمیں صرف ایک ہی سیب ملا ہے‘‘۔

    ’’کوئی بات نہیں۔ یہ سیب بادشاہ سلامت کھا لیں گے۔ میں تو محل ہی میں رہتی ہوں۔ مجھے دو نظر آئیں یا چار۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمھارے ابّا حضور کو تو دربار لگانا پڑتا ہے۔ حکومت کے کام چلانے کے لیے سب لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ وہ سیب کھا کر ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ہے‘‘۔

    ’’نہیں ملکہ۔ ہم اتنے خود غرض نہیں ہیں کہ ہماری آنکھیں تو ٹھیک ہوجائیں اور ہماری پیاری ملکہ کو ایک ایک کے دو دو نظر آئیں۔ ہم یہ سیب نہیں کھائیں گے‘‘۔

    اسی وقت شہزادی سلطانہ وہاں آگئی۔ اسے دیکھ کر ملکہ بولی۔ ’’نہ آپ کی نہ میری۔ یہ سیب کون کھائے گا۔ اس کا فیصلہ ہماری بیٹی کرے گی‘‘۔ یہ کہہ کر ملکہ نے شہزادی سلطانہ کو ساری کہانی سنا دی۔

    شہزادی سلطانہ یہ سن کر ذرا بھی پریشان نہیں ہوئی کہ اس کے بھائیوں کو صرف ایک ہی سیب ملا ہے۔ وہ آگے بڑھی، اپنے ایک بھائی کے ہاتھ سے سیب لیا پھر دوسرے بھائی کی کمر میں اڑسا ہوا خنجر نکالا اور سیب کے دو ٹکڑے کر کے ایک بادشاہ کو اور دوسرا ملکہ کو تھما دیا۔ دونوں نے جیسے ہی سیب کھایا دونوں کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوگئیں۔

    ’’پیاری ملکہ۔ ہمیں دونوں آنکھوں سے سب ایک ایک نظر آ رہے ہیں‘‘۔ بادشاہ نے خوشی بھری آواز میں کہا۔

    ’’اور بادشاہ سلامت مجھے بھی‘‘۔ ملکہ چہک کر بولی۔ ’’الله کا شکر ہے یہ سب میری عقل مند شہزادی کی وجہ سے ہوا ہے‘‘۔

    شہزادہ سلطان نے کہا۔ ’’سیب کو آدھا آدھا کر کے کھلانے کی ترکیب تو ہم میں سے بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی تھی۔ ماشا الله۔ ہماری بہن تو بہت عقلمند ہے‘‘۔

    ’’ہم بہت خوش نصیب ہیں۔ الله نے ہمیں بہادر شہزادوں اور عقلمند شہزادی سے نوازا ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا۔

    اپنی تعریف سن کر شہزادی سلطانہ خوش ہوگئی ادر شہزادہ سلطان کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ ’’چلیں اب اسی بات پر مجھے اپنے گھوڑے پر بٹھا کر میدان کا ایک لمبا چکر دلوا کر لائیں‘‘۔

    ’’اس خوشی میں ہم بھی اپنی بہن کے ساتھ باہر گھومنے جائیں گے‘‘۔ شہزادہ رضوان نے شہزادہ ارسلان کو دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔ اور پھر وہ سب باہر نکل گئے۔ بادشاہ اور ملکہ انھیں مسکرا کر جاتا ہوا دیکھنے لگے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے