ایک غریب آدمی نے سفر پر جاتے وقت کسی ساہوکار کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت رکھ دیا تھا مگر نہ کوئی رسید لی، نہ کسی کو گواہ کیا۔
چھ مہینے بعد غریب سفر سے واپس آیا، اور ساہوکار سے روپے مانگے تو وہ صاف مکر گیا۔ کہ میں نے تمہاری کوئی امانت نہیں رکھی۔
یہ بیچارہ ہر روز ساہوکار کے یہاں جاتا اور دن بھر بیٹھا رہتا، مگر ساہوکار ایک نہ سنتا۔
آخر بادشاہ کے پاس جا کر فریاد کی کہ ’’میں نے غلطی سے بغیر کسی کو گواہ کیے اور رسید لیے ایک ہزار روپے فلاں ساہوکار کے پاس امانت رکھے تھے۔ اب آکر مانگتا ہوں تو وہ انکار کرتا ہے۔ حضور میرے روپے دلا دیں۔‘‘
بادشاہ نے فرمایا۔ قاعدہ قانون تو ساہوکار کو پکڑ نہیں سکتا۔ مگر ایک تدبیر یہ ہے کہ کل تیسرے پہر سیر کرتا ہوا ساہوکار کی دکان کی طرف آؤں گا۔ تم وہاں موجود رہنا۔ میں تمہیں جھک کر سلام کروں گا۔ تم بے پروائی سے جواب دے دینا۔ اور اسی طرح اور باتیں بھی جو میں کروں تم معمولی دوستوں کی طرح جواب دیتے رہنا۔‘‘
بادشاہ کی یہ تجویز سن کر غریب دوسرے دن سہ پہر کو ساہوکار کی دکان پر جا بیٹھا۔ اتنے میں بادشاہ کی سواری آئی اور اس نے غریب کو جھک کر سلام کیا تو اس نے معمولی طور پر جواب دے دیا۔ پھر بادشاہ نے اس کے ہاتھ چوم کر کہا۔ ’’آپ کب تشریف لائے۔ ہم تو بہت دنوں سے یاد کر رہے تھے۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’مجھے آئے ہوئے تو ایک ہفتہ ہو گیا ہے مگر آتے ہی کچھ تکلیف میں پڑ گیا ہوں۔ اس سے نبٹ لوں تو حاضر ہوں گا۔
بادشاہ نے فرمایا۔ ’’جو بات ہو۔ ہم سے کہیے ہم آپ کی مدد کریں گے۔‘‘
غریب نے جواب دیا۔ ’’بہت اچھا۔ ضرورت ہو گی تو عرض کروں گا۔‘‘
اس گفتگو کے بعد بادشاہ تو چلا گیا مگر ساہوکار نے اسی وقت اس خوف سے غریب کے روپے گن دیے کہ یہ بادشاہ سے میری شکایت نہ کر دے اور اس طرح مقدمے کے بغیر غریب کے روپے نکل آئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.