عقلمندی کا انعام
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی گاؤں میں عادل نامی شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے۔ عارف اور شاہینہ۔ وہ دونوں ابھی چھوٹے تھے مگر بہت سمجھدار تھے۔ وہ ہر کام میں اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کے ماں باپ ان سے بہت خوش تھے۔ انھیں پڑھنے لکھنے کا بھی بہت شوق تھا اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے گاؤں کے مکتب میں بھی جایا کرتے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ان کی ذہانت میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔
عادل کے پاس کچھ زمین تھی۔ اس نے اس زمین پر ایک بڑا سا سائبان لگا کر اس کے چاروں طرف لکڑیوں کا جال لگادیا تھا اور اس میں بہت سی مرغیاں پال لیں۔ ان مرغیوں کے انڈے بیچ کر اسے اچھے خاصے پیسے مل جاتے تھے اور اس کا گزارہ بڑے مزے سے ہوجاتا تھا۔ اس نے کچھ رقم پس انداز بھی کرلی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آسکے۔
اس کے دونوں بچوں کو ان مرغیوں سے بہت محبّت ہوگئی تھی۔ مکتب سے آنے کے بعد دونوں بچے اپنے باپ کے ساتھ مرغیوں کے باڑے میں پہنچ جاتے اور انڈے اکھٹے کرکے ٹوکریوں میں رکھتے۔ اس کام میں انھیں بہت مزہ آتا تھا۔ مرغیاں بھی ان سے بہت مانوس ہوگئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ باڑے میں کہیں بھی ہوتیں، شور مچاتے ہوئے ان کے قریب آجاتیں۔ باڑے کے آدھے حصے میں تو کچی زمین تھی جہاں پر مرغیوں کے دانے اور پانی کے برتن رکھے ہوئے تھے۔ دوسرے حصے میں بھوسہ بچھا کر مرغیوں کے رہنے کی جگہ بنا دی گئی تھی۔
عارف اور شاہینہ بھوسے پر سے انڈوں کو اٹھا اٹھا کر ٹوکریوں میں رکھنے کے بعد وہاں کی صفائی کرتے۔ صفائی سے فارغ ہو کر وہ مرغیوں کے برتنوں میں دانہ ڈالتے۔ دانے میں گندم، جو، باجرہ، مکئی اور باریک باریک کتری ہوئی سبزیاں ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ ان کو پانی میں بھیگی ہوئی روٹی بھی ڈالا کرتے تھے۔
اس کے بعد وہ مٹی کےصاف ستھرے برتنوں میں ان کے پینے کے لیے پانی بھرتے اور پھر انڈوں کی ٹوکریاں لے کر باپ کے ساتھ گھر چلے آتے۔ ان انڈوں کو عادل بیچ کر آجاتا۔
ایک روز جب عارف اور شاہینہ اپنے باپ کے ساتھ مرغیوں کے باڑے پہنچے تو ان کی نظر ایک بونے پر پڑی۔ وہ باڑے کے دروازے کے نزدیک ایک خوب صورت اور نفیس قالین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔
اس نے ان لوگوں کو آتا دیکھا تو جلدی سے ان کے پاس آیا اور بولا۔ ’’میں کیا کروں۔ میری مرغی اس باڑے میں چلی گئی ہے مگر اس کا دروازہ بند ہے۔ میں صبح سے یہاں بیٹھا ہوا ہوں۔ اب دوپہر ہوگئی ہے۔‘‘
’’مرغی بند دروازے میں سے اندر کیسے چلی گئی؟۔‘‘ عادل نے حیرت سے پوچھا۔ عارف اور شاہینہ دلچسپی سے اس خوب صورت بونے کو دیکھ رہے تھے۔
’’میں اپنے اڑنے والے قالین پر مرغی کو ہاتھوں میں دبوچے بیٹھا پرستان کی جانب جا رہا تھا۔ مرغی جھانک جھانک کر نیچے دیکھ رہی تھی۔ قالین جب اس باڑے کے اوپر سے گزرا تو اپنی جیسی مرغیوں کو دیکھ کر وہ میرے ہاتھوں سے نکل کر نیچے کود گئی۔ میں نے جھک کر دیکھا تو وہ اپنے پروں کو پھڑ پھڑ اتی ہوئی اسی باڑے میں اتر گئی۔ اگر وہ مجھے نہ ملی تو بہت برا ہوگا۔‘‘ بونے نے کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔ اگر وہ نہ بھی ملی تو کوئی بات نہیں۔ ہمارے پاس بہت سی مرغیاں ہیں۔ ایک مرغی ان میں سے لے لینا۔‘‘ عادل نے بونے کو دلاسہ دینے کی خاطر کہا۔
’’وہ مرغی کوئی عام مرغی نہیں ہے۔ وہ روز سونے کا ایک انڈہ دیتی ہے۔ ٹہرو۔ میں نے اپنے بارے میں تو تمہیں کچھ بتایا ہی نہیں۔ میں پرستان میں ایک امیر و کبیر پریزاد سوداگر کے گھر ملازم ہوں۔ چند روز پہلے اس سوداگر نے کچھ تحفے دے کر مجھے اپنی بیٹی کے پاس بھیجا تھا۔ اس کی بیٹی کا گھر بہت دور ہے۔ باپ کے دیے ہوئے تحفے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے میری بہت خاطر مدارات کی۔ میں جب واپسی کے سفر پر روانہ ہونے لگا تو اس نے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی میرے حوالے کی اور کہا کہ میں اسے اس کے باپ کو دے دوں۔ اب وہ مرغی گم ہوگئی ہے۔ اگر وہ مجھے نہ ملی تو میری ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔ سب یہ ہی کہیں گے کہ لالچ میں آکر میں نے اسے چھپا لیا ہے۔‘‘ بونے نے افسردگی سے کہا۔
ان تینوں نے جب یہ سنا کہ بونے کی مرغی سونے کا انڈہ دیتی تھی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ عادل نے کہا۔ ’’میں باڑے کا دروازہ کھول رہا ہوں۔ آپ اندر چل کر دیکھ لیں کہ آپ کی مرغی کون سی ہے۔‘‘
وہ لوگ باڑے کے اندر داخل ہوئے۔ بونے نے جب وہاں اتنی ساری مرغیاں دیکھیں تو کچھ پریشان سا ہوگیا اور جلدی جلدی گھوم پھر کر اپنی مرغی تلاش کرنے لگا۔
اسے پریشان دیکھ کر شاہینہ نے پوچھا۔ ’’آپ کی مرغی کا رنگ کیسا تھا؟‘‘
’’اس کا رنگ بھی ان ہی مرغیوں کی طرح تھا اور وہ بالکل ان مرغیوں کی طرح ہی تھی۔ یہاں تو تمام مرغیاں ایک جیسی ہیں۔میں کیسے اپنی مرغی کو تلاش کروں؟۔‘‘ بونے نے کہا اور مایوسی سے سر پکڑ کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ عادل بھی اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ وہ بونے کی پریشانی سن کر فکرمند ہوگیا تھا۔
عارف اور شاہینہ مرغیوں کو دانہ ڈالنے لگے۔ جب انہوں نے انڈے جمع کرنا شروع کیے تو شاہینہ نے خوشی بھری آواز میں کہا۔ ’’بھائی۔ بھائی۔ یہ دیکھو! ‘‘
عارف جلدی سے اس کے پاس گیا۔ وہاں بھوسے کے ڈھیر پر جگہ جگہ بہت سے انڈے پڑے ہوئے تھے۔ ان ہی انڈوں میں ایک سنہری انڈہ بھی چمک رہا تھا۔ عارف نے جلدی سے وہ انڈہ اٹھایا اور بھاگ کر بونے کے قریب آیا۔ ’’یہ دیکھیے آپ کی مرغی کا سونے کا انڈہ۔‘‘
اس کی بات سن کر بونا جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ عادل بھی حیرت سے سونے کے انڈے کو دیکھ رہا تھا۔ بونے نے سونے کا انڈہ اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر بڑی بے تابی سے باڑے میں موجود مرغیوں کا دوبارہ جائزہ لینے لگا مگر اس مرتبہ بھی وہ اپنی مرغی کو نہ پہچان سکا۔
“سمجھ میں نہیں آتا ان میں کون سی مرغی میری ہے۔ یہ تو ساری کی ساری ایک جیسی شکل و صورت اور رنگ کی ہیں۔ مجھے تو اپنی مرغی کی کوئی نشانی بھی یاد نہیں ہے۔‘‘ بونے نے بے بسی سے کہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ ’’اس کا تو مجھے یہ ہی حل نظر آتا ہے کہ میں ان تمام مرغیوں کا سودا کر لوں اور انہیں پرستان لے جاکر سوداگر کے حوالے کردوں اور کہوں کہ ان میں ہی وہ مرغی ہے جو سونے کا انڈہ دیتی ہے۔ مگر اتنے چھوٹے سے قالین پر میں اتنی ساری مرغیاں رکھوں گا کیسے؟‘‘۔
عارف اور شاہینہ دونوں بہت عقلمند بچے تھے۔ وہ ایک کونے میں جاکر اس مشکل کا کوئی حل نکالنے کے لیے ایک دوسرے سے مشوره کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ان کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔ وہ دونوں خوش خوش اپنے باپ کے پاس گئے۔
عارف نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بونے بھائی سخت پریشانی میں ہیں۔ ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیے۔ مجھے اور شاہینہ کو ایک ترکیب سوجھی ہے جس پر عمل کر کے ہمیں امید ہے کہ ہم اس مرغی کو تلاش کر لیں گے۔ مگر اس کے لیے ہمیں کچھ رقم درکار ہوگی۔‘‘
عادل نے اپنی قمیض کی جیب سے سکوں سے بھری ایک تھیلی نکالی اور اسے عارف کو دیتے ہوئے بولا۔ ’’پیسوں کی تو تم فکر مت کرو۔ یہ لو اور جو کرنا چاہتے ہو کرو مگر مرغی کو ڈھونڈ کر بونے کے حوالے کردو۔ وہ بے چارہ بہت پریشان ہے۔ ویسے بھی وہ پرستان سے آیا ہے۔ ہمیں اس کی ہر حال میں مدد کرنا چاہیے۔ تمہیں پتہ ہے نا پرستان کی پریاں ہم انسانوں کی کتنی مدد کرتی ہیں۔ وہاں کی پریاں، پریزاد اور بونے کتنے اچھے ہوتے ہیں۔ بس دیو اور جادوگر انسانوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ مگر ہمیں ان سے کیا لینا۔‘‘
عارف نے سکوں کی تھیلی سنبھال کر اپنی جیب میں رکھی۔ پھر وہ اور شاہینہ باڑے میں گھوم کر مرغیوں کی گنتی کرنے لگے۔ وہاں پر موجود مرغیوں کی تعداد ایک سو پچاس تھی۔
گنتی ختم کرکے عارف عادل کے پاس آیا۔ ’’آپ باڑے کا دروازہ بند کر کے بونے بھائی کے ساتھ گھر جا کر آرام کریں۔ باقی کام آپ مجھ پر اور شاہینہ پر چھوڑ دیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ شاہینہ کو ساتھ لے کر وہاں سے گاؤں کی جانب چلا گیا۔
عادل بونے کو ساتھ لے کر چلا گیا۔ شام کو جب عارف اور شاہینہ گھر آئے تو عادل نے پوچھا۔’’مرغی کا کچھ پتہ چلا؟‘‘ بونا بھی انھیں امید بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’الله نے چاہا تو کل تک پتہ چل جائے گا‘‘۔ عارف نے مسکرا کر کہا۔ اس کی بات سن کر شاہینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔
اگلے روز وہ سب مرغیوں کے باڑے پہنچے۔ جب وہ باڑے میں داخل ہوئے تو وہاں کا منظر دیکھ کر عادل اور بونا حیرت زدہ رہ گئے۔ پورے باڑے میں کھجور کے پتوں اور مضبوط سرکنڈوں سے بنی چھوٹی چھوٹی جالی دار ٹوکریاں قطار در قطار رکھی ہوئی تھیں۔ ان ٹوکریوں پر ڈھکن بھی تھے۔ وہاں ایک بھی مرغی نظر نہیں آ رہی تھی البتہ مرغے ادھر ادھر دانہ دنکا چگتے پھر رہے تھے۔
عادل نے کہا۔ ’’یہ ٹوکریاں کہاں سے آگئیں اور ہماری مرغیاں کہاں گئیں؟ یہاں تو صرف مرغے ہی مرغے نظر آرہے ہیں۔‘‘
’’یہ ٹوکریاں ہم نے آپ کے دیے ہوئے پیسوں سے گاؤں کی دکان سے خریدی تھیں۔ کل شام ہم نے ٹوکریوں میں بھوسہ بچھا کر ہر ٹوکری میں ایک ایک مرغی بند کردی تھی اور ہر ٹوکری میں مٹی کی پیالیوں میں ان کا دانہ پانی بھی رکھ دیا تھا اور ٹوکریوں کے ڈھکن بند کر کے گھر چلے آئے۔ اب ہم احتیاط سے ہر ٹوکری کا ڈھکن اٹھا کر دیکھیں گے۔ جس ٹوکری سے بھی سونے کا انڈہ نکلے گا۔ ہم سمجھ جائیں گے کہ اس میں بونے بھائی کی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی موجود ہے۔‘‘
عادل کے ساتھ ساتھ بونا بھی ان دونوں کی عقلمندی پر حیران رہ گیا تھا۔ عارف اور شاہینہ بڑی احتیاط سے ہر ٹوکری کا ڈھکن اٹھا کر اس میں جھانکنے لگے۔ اچانک ان کے کانوں میں شاہینہ کی آواز آئی۔ ’’اس ٹوکری میں سونے کا انڈہ ہے۔‘‘ پھر وہ اس ٹوکری کو اٹھا کر اپنے باپ کے پاس آئی۔ ’’یہ انڈہ اس ٹوکری میں بند مرغی نے دیا ہے‘‘۔ اس نے بتایا۔
عادل نے ٹوکری اور سونے کے انڈےکو بونے کے حوالے کردیا۔ بونا بہت خوش تھا۔ اس نے ٹوکری میں سے انڈہ نکال لیا۔ اب اس کے پاس دو سونے کے انڈے ہوگئے تھے۔ اس نے ایک انڈہ عارف اور دوسرا شاہینہ کو دیا اور بولا۔ ’’بچو۔ پریزاد سوداگر کی بیٹی نے کہا تھا کہ جب تک یہ مرغی میرے پاس رہے گی۔ اس کے دیے ہوئے انڈے میرے ہوں گے۔ اس لیے یہ انڈے میں تم دونوں کو دے رہا ہوں۔ یہ تمہاری عقلمندی کا انعام ہے۔ تم نے جو کام کیا ہے وہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تم دونوں بہت ذہین بچے ہو۔ تم نے مجھے ایک بہت بڑی پریشانی سے نجات دلا دی ہے۔ میں زندگی بھر تمھا احسان مند رہوں گا۔‘‘
سونے کے انڈے لے کر دونوں بہن بھائی نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
پھر بونا عادل کی طرف مڑا اور بولا ۔ ’’عادل بھائی۔ میں تمہارا بھی بہت مشکور ہوں کہ تم نے میری مصیبت میں میرا بہت ساتھ دیا ۔‘‘
’’ یہ تو ہمارا فرض تھا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ تم ہمیشہ ہمارے ساتھ رہو۔‘‘ عادل نے کہا۔
’’تم سب لوگ بہت اچھے ہو۔ میں تم سے ملنے آتا رہوں گا۔‘‘ بونے نے کہا۔ پھر اس نے قالین کو زمین پر بچھایا، اس پر مرغی کی ٹوکری رکھی اور ان سب کو خدا حافظ کہہ کر خود بھی قالین پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی قالین فضا میں بلند ہوا اور پرستان کی جانب روانہ ہوگیا۔
عارف اور شاہینہ نے سونے کے انڈے عادل کے حوالے کردیے۔ اس کے بعد انہوں نے بقیہ ٹوکریوں سے انڈے نکال کر جمع کیے۔ اس دوران مرغیاں باہر گھومنے پھرنے لگی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ مرغیاں دوبارہ اپنی اپنی ٹوکریوں میں جا کر بیٹھ گئیں۔ انھیں اپنے نئے گھر پسند آگئے تھے۔
عارف نے کہا۔ ’’اتنی بہت سی ٹوکریاں خریدنے پر ہمارے بہت سے پیسے خرچ ہوگئے ہیں مگر اب ہم اپنی مرغیوں کو ان ہی ٹوکریوں میں رکھا کریں گے۔ اس سے وہ سردی سے بھی محفوظ رہیں گی۔ اپنے ان گھروں میں وہ بہت خوش نظر آرہی ہیں۔‘‘
گھر آکر عادل نے جب اپنی بیوی کو یہ تمام واقعہ سنایا تو وہ اپنے بچوں کی عقلمندی پر بہت خوش ہوئی۔
تھوڑے دنوں بعد عادل نے دونوں سونے کے انڈے بیچ کر بہت سی دولت حاصل کر لی۔ بونا کبھی کبھار ان سے ملنے ان کے گاؤں آجاتا تھا۔ عارف اور شاہینہ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے کیوں کہ وہ انھیں اپنے جادو کے اڑنے والے قالین پر بٹھا کر سیر بھی کرواتا تھا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.