باجرے کی میٹھی ٹکیہ
اسلم کسٹم میں نوکری کرتا تھا۔اس کی ڈیوٹی ایئر پورٹ پر تھی۔وہ مسافروں کا سامان چیک کرتا تھا تاکہ اس بات کا پتہ کرسکے کہ وہ مقررہ مقدار سے زیادہ سامان تو اپنے ساتھ نہیں لائے اور اگر لائے ہیں تو اس پر کسٹم ڈیوٹی دی ہے یا نہیں۔یہ کام کرتے ہوئے اسے دس بارہ سال تو ہو ہی گئے ہونگے۔اس دوران اس نے لاتعداد مسافروں کا سامان چیک کیا تھا۔اپنی یہ ڈیوٹی وہ بڑے اچھے انداز میں پوری دیانت داری اور لگن سے سر انجام دیتا تھا۔
بعض مسافر دوسرے ملکوں سے آتے ہوئے بہت زیادہ سامان اپنے ساتھ لے آتے تھے۔اس سامان میں زیادہ تر سونے کے زیورات، الیکٹرانکس کا سامان اور قیمتی کپڑے ہوتے تھے۔اسلم اس زیادہ سامان کے حساب سے انھیں کسٹم ڈیوٹی کے تحت چالان بنا کر دے دیتا۔بہت سے مسافر یہ چاہتے تھے کہ کچھ رقم بطور رشوت دے کر اپنا سامان کلیر کروا لیں تاکہ انھیں زیادہ پیسے نہ دینے پڑیں مگر اسلم ایک ایماندار افسر تھا۔اس کا دل تو چاہتا تھا کہ ایسے مسافروں کو جھڑک دے مگر وہ اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تھا۔وہ انھیں نرمی سے سمجھا دیتا تھا کہ رشوت لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی حرام۔اس لیے وہ سیدھی طرح سے کسٹم ڈیوٹی ادا کردیں تاکہ وہ قومی خزانے میں جمع ہو۔
ایک روز وہ سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک مسافر کا سامان چیک کر رہا تھا کہ سامان میں موجود ایک چیز دیکھ کر وہ چونک پڑا۔اس نے اس سامان والے شخص کو دیکھا۔وہ اٹھائیس تیس سال کا تھا اور شکل و صورت سے کوئی مزدور لگتا تھا – اس کے سامان پر لگی چٹوں پر اس کا نام مالک شاہ درج تھا۔وہ سعودی عرب سے پاکستان آیا تھا۔اس کے ساتھ زیادہ سامان نہیں تھا بس یہ ہی دو سوٹ کیس اور ایک چھوٹا سا بیگ۔سوٹ کیسوں میں ان سلے کپڑوں کے جوڑے، بچوں کے کھلونے جن میں طرح طرح کی گڑیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ایسی ہی دوسری چیزیں تھیں۔مگر اسلم جس چیز کو دیکھ کر چونکا تھا وہ اس کے بیگ میں رکھی ہوئی ایک گول چاندی کی خوب صورت ڈبیہ تھی جس میں باجرے کی ایک ٹکیہ رکھی ہوئی تھی۔وہ ٹکیہ بہت پرانی لگ رہی تھی کیوں کہ اس کا رنگ بھی سیاہی مائل ہوگیا تھا۔اس نے اسے چھو کر دیکھا تو وہ پتھر کی طرح سخت تھی۔“یہ کیا ہے؟”۔اس نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
’’باجرے کی میٹھی ٹکیہ‘‘۔ مالک شاہ نے مسکرا کر جواب دیا اور اپنے کھلے ہوئے سوٹ کیسوں کو بند کرنے لگا جن میں رکھا سامان چیک ہوگیا تھا۔
’’یہ تو کافی پرانی لگتی ہے‘‘۔ اسلم نے کہا۔’’تم نے اسے اتنی احتیاط سے کیوں رکھا ہوا؟‘‘۔
’’یہ میرے لیے دنیا کے بڑے سے بڑے خزانے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔میں اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔کوئی اگر مجھ سے کہے کہ اس کے بدلے لاکھوں روپے لے لو تو میں تب بھی اسے نہ دوں‘‘۔ مالک شاہ نے مسکرا کر کہا۔
اس کی بات سن کر اسلم الجھن میں پڑ گیا۔ایک معمولی سی باجرے کی ٹکیہ اور اتنی قیمتی۔اتنی دیر میں مالک شاہ اپنا سامان ٹرالی میں رکھ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔اتفاق کی بات تھی کہ اسلم کی چھٹی کا وقت ہوگیا تھا۔دوسری شفٹ کا اسٹاف آگیا تھا اور اس نے ڈیوٹی سنبھال لی تھی۔اسلم کا تجسس بڑھا ہوا تھا اور وہ باجرے کی ٹکیہ کا راز جانے کے لیے بے چین تھا۔اسے حیرت تھی کی آخر اس باجرے کی ٹکیہ میں کیا خاص بات تھی جس نے اسے اس قدر قیمتی بنا دیا تھا۔اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس بارے میں مالک شاہ سے پوچھے گا۔وہ جلدی سے اس کے پیچھے لپکا۔
اس نے دیکھا مالک شاہ ایئر پورٹ کی عمارت سے باہر کھڑا کسی ٹیکسی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا ہے۔وہ اس کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور اسے مخاطب کر کے بولا۔“بھائی مالک شاہ۔اگر کچھ ٹائم مجھے دے سکو تو میں مشکور ہوں گا۔تمہاری باجرے کی ٹکیہ نے تو مجھے الجھن میں مبتلا کردیا ہے۔کیا تم میرے ساتھ ایک کپ چائے پینا پسند کرو گے؟”۔یہ کہہ کر اس نے ایئر پورٹ کے ایک لوڈر ملازم کو مالک شاہ کے سامان کی ٹرالی کی نگرانی کے لیے کہا اور اسے ساتھ لے کر سڑک پار ایک چائے خانے میں آگیا۔
وہاں بیٹھ کر اس نے دو چائے کا آرڈر دیا اور مالک شاہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔’’یہ زحمت دینے کی میں معافی چاہتا ہوں۔بس میری یہ الجھن دور کر دو کہ باجرے کی ٹکیہ کا کیا راز ہے‘‘۔
مالک شاہ کو بھی چائے کی طلب ہو رہی تھی اس لیے وہ چائے کا سن کر خوش ہوگیا تھا۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’میں آپ کو ضرور اس راز سے آگاہ کروں گا‘‘۔
اتنی دیر میں بیرا چائے لے آیا۔مالک شاہ نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور بولا۔’’تو سنیے۔یہ آج سے دس سال پہلے کی بات ہے۔میں نور پور گاؤں میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہا کرتا تھا۔اب بھی میری رہائش وہیں ہے۔اس وقت میرے گھر کے حالات ایسے نہ تھے جیسا کہ اب ہیں۔خدا بھلا کرے سعودی عرب والوں کا کہ ان کی وجہ سے لاتعداد لوگ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔محنت تو بہت ہے مگر پیسے بھی اچھے مل جاتے ہیں۔سعودی عرب آنے سے پہلے میں کوڑی کوڑی کو محتاج تھا۔میں راج مزدوری کا کام کرتا تھا مگر گاؤں میں مزدوری کا کام بہت کم ملتا تھا اس لیے ہاتھ بھی تنگ تھا۔گھر میں کبھی کبھار فاقوں کی بھی نوبت آجاتی تھی۔اس وقت میں اس قابل بھی نہیں تھا کہ اپنی بیٹی نایاب کو پڑھا لکھا سکوں۔اس وقت وہ چھ سال کی تھی۔وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں رہتی تھی اور شدید سردیوں میں بھی اسے گرم کپڑے میسر نہیں تھے۔ہمارا مکان بھی خستہ حال ہوگیا تھا کیوں کہ مدتوں سے اس کی مرمت نہیں ہوئی تھی۔ان حالات سے میں سخت مایوس اور پریشان تھا۔وہ بنیادی ضروریات جو بیوی بچوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں میں انھیں نہیں دے سکتا تھا۔اس کے باوجود میری بیٹی مجھ سے بہت محبّت کرتی تھی۔اتنی سی عمر میں ہی اسے میری مجبوری کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے وہ مجھ سے کوئی فرمائش بھی نہیں کرتی تھی۔میں ہر وقت اس بات پر کڑھتا رہتا تھا۔
حالات سے مایوس ہو کر میں نے باہر جانے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔میری بیوی ایک نیک صفت عورت ہے۔اس نے ہمیشہ میری ہمت بندھائی اور میری غربت کے باوجود اس نے میرا ساتھ دیا۔وہ میرے لیے بہت دعائیں بھی کرتی تھی۔خوش قسمتی سے باہر بھجوانے والی ایک کمپنی کے ذریعے مجھے سعودی عرب میں ایک تعمیراتی ادارے میں نوکری مل گئی۔اب ہمارے دن بدلنے لگے۔میں ہر ماہ اچھے خاصے پیسے گھر بھجوانے لگا۔میری بیٹی پڑھنے بھی لگی اور گھر میں خوش حالی آگئی۔بیوی نے مکان کی مرمت بھی کروا لی تھی۔میں سعودی عرب میں نہایت محنت سے کام کرتا تھا تاکہ اپنی کمپنی میں ایک مقام بنا لوں۔کمپنی کی طرف سے ہر ملازم کو سال میں ایک ماہ کی چھٹی ملا کرتی تھی مگر میں نے دو سال تک پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ان چھٹیوں کے بدلے جو پیسے ملتے تھے میں وہ لے لیا کرتا تھا اور انھیں بھی گھر بھیج دیتا تھا۔تیسرے سال مجھے بیوی اور بچی کی بہت یاد آئی اور میں ایک مہینے کی چھٹی پر یہاں چلا آیا۔
میں ان کے لیے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لے کر گے تھا۔مجھے دیکھ کر دونوں بہت خوش ہوئیں۔میری بیٹی نایاب تو یہ چاہتی تھی کہ اب میں واپس نہ جاؤں مگر بیوی نے اسے سمجھادیا۔بہرحال نایاب تو میری آمد سے خوشی سے کھلی جا رہی تھی اور میرے پاس سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔میں اس کے لیے بہت سارے کپڑے اور کھلونے بھی لایا تھا۔وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔اس روز رات کے کھانے کے بعد جب میں انھیں اپنی سعودی عرب کی کہانی سنا رہا تھا تو وہ خاموشی سے اٹھی اور صندوق کھول کر اس میں سے کوئی چیز نکالنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد وہ میرے قریب آئی تو اس کے ہاتھ میں اس کی ایک پرانی اوڑھنی تھی۔تین چار سال پہلے یہ اوڑھنی اس کی ماں نے اسے عید کے موقع پر دلائی تھی۔اس نے اوڑھنی کی تہہ کھولی اور اس میں سے یہ باجرے کی ٹکیہ نکال کر مجھے دی اور بولی۔’’ابّا۔جس روز آپ پردیس جا رہے تھے، اس روز بہت تیز بارش ہوئی۔شام کو امی نے میرے لیے باجرے کی یہ ٹکیہ بنائی۔گھر میں زیادہ شکر بھی نہیں تھی اور باجرے کا آٹا بھی کم تھا اس لیے صرف ایک ہی ٹکیہ بنی تھی۔مجھے پتہ تھا کہ آپ کو باجرے کی میٹھی ٹکیہ بہت پسند ہیں۔یہ بات آپ ہی اکثر مجھے بتاتے تھے کہ جب آپ چھوٹے تھے تو دادی اماں باجرے کی ٹکیاں بنا کر آپ کو دیتی تھیں اور آپ انھیں بہت شوق سے کھاتے تھے۔اس لیے اس روز میں نے اسے نہیں کھایا بلکہ آپ کے لیے سنبھال کر صندوق میں چھپا کر رکھ دیا۔میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ آپ جب بھی گھر آئیں گے، یہ آپ کو دوں گی کیوں کہ یہ آپ کو اچھی لگتی ہے‘‘۔
یہ کہتے کہتے مالک شاہ کی آواز بّھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔اسلم کی بھی آنکھیں یہ کہانی سن کر بھیگ گئی تھیں۔اس کے بعد دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے۔چائے ختم ہوئی تو وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر باہر آئے۔اسلم نے ایک ٹیکسی والے کو روک کر مالک شاہ کا سامان اس میں رکھوایا۔
جب مالک شاہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو اسلم نے کہا۔’’مالک شاہ۔تمہاری کہانی بہت پر اثر تھی۔بیٹیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔بے پناہ محبّت کرنے والی۔خیال رکھنے والی!‘‘۔
’’جی صاحب۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ بیٹیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں‘‘۔مالک شاہ نے مسکرا کر کہا۔
ٹیکسی چل پڑی اور اسلم اسے جاتا دیکھتا رہا۔تھوڑی دیر بعد وہ دور سڑک پر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔اسلم تیز تیز قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔وہ جلد سے جلد اپنے گھر پہنچ کر اپنی بیٹی کو گود میں لے کر پیار کرنا چاہتا تھا۔مالک شاہ کی بیٹی کی کہانی سن کر اسے اپنی بیٹی شدت سے یاد آنے لگی تھی۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.