بچپن کی یادیں
بچپن ہماری زندگی کا یقینا سنہرا دور ہے۔ اس کی حسین یادیں تا عمر ہمارے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ انگریزی کے مشہور شاعر جان ملٹن نے اسے ’’جنت گمشدہ‘‘ یعنی کھوئی ہوئی جنت کہا ہے۔ جب بھی ہم اپنے بچپن کے بارے میں سوچتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ کاش ہم ایک بار پھر چھوٹے سے بچے بن جائیں۔ بچپن میں ہم گھر بھر کے دلارے اور سب کی آنکھ کے تارے تھے ہر کوئی ہمیں لاڈ پیار کیا کرتا تھا۔ بچپن کی سیانی یادیں اس قدر دلکش ہوا کرتی ہیں کہ انھیں یاد کر کے شاعر بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
میں جب بھی اپنے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے والدین کی وہ بے لوث محبت اور شفقت یاد آتی ہے۔ نانا نانی، دادا دادی کا دلار اور ان کا ہمارے لیے فکرمند رہنا۔ ہماری تعلیم و تربیت اور کھانے پینے کی دیکھ بھال کرنا، بھائی بہنوں کا ستانا، اسکول کے کاموں میں ہماری مدد کرنا، سب یاد آتا ہے اور یاد آتے ہیں، بچپن کے وہ سارے دوست جن کے ساتھ ہم گھنٹوں کھیلا کرتے تھے۔ بچپن کے کھیل اس قدر دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ دوستوں کے ساتھ یا میدان میں کھیلتے ہوئے ان میں مگن ہو کر کھانا پینا اور اپنے گھر جانا بھی بھول جاتے تھے۔ بچپن ہر قسم کی فکر، دشمنی کینہ، کیپٹ اور برائیوں سے پاک ہوا کرتا ہے اسی لیے تو بچوں کو فرشتہ کہا جاتا ہے۔
ہمارا گھر جس جگہ واقع تھا۔ اس کے قریب ایک ندی اور وسیع میدان تھا جس کے پیچھے گھنا جنگل تھا۔ میدان میں ہم طرح طرح کے کھیل کھیلا کرتے اور کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ جنگل میں نکل جاتے، جہاں بیریوں کی جھاڑیاں اور املی کے بڑے بڑے پیڑ تھے۔ جنگل سے املی اور بیر چنتے اور دوسرے پھل پھول جمع کر لاتے۔ اکثر وہاں ہمیں اتنی دیر ہو جاتی کہ واپسی پر گھر میں امی کی ڈانٹ سننی پڑتی۔ امی کی ڈانٹ تو اور بھی کئی باتوں پر کھاتے رہے مگر اصل ڈر لگتا تھا ابو کی ڈانٹ سے اسکول نہ جانے اور نماز نہ پڑھنے پر تو یاد ہے کبھی مار بھی پڑی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن جب ہم بیر کی تلاش میں جھاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ میرے ساتھ میرے دوست امجد، اسلم اور ماجد بھی تھے۔ امجد اچانک سانپ سانپ کہہ کر چیخ پڑا۔ یہ سنتے ہی ہمارے پیروں تلے کی زمین نکل گئی اور جب ہم سب نے قریب ہی زمین پر ایک بڑا کالا سانپ رینگتا ہوا دیکھا تو بدحواس ہو کر سب وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ گھر پہنچنے تک پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک جنگل جانے کی کسی کی ہمت نہیں ہوئی۔
اسی طرح ایک مرتبہ عید کی خریداری کے لیے امی اور ابو کے ساتھ بازار گئے تھے۔ شاپنگ کرتے کرتے امی اور ا بو آگے نکل گئے اور میں ایک دکان پر کھلونے دیکھنے میں کھویا رہا۔ جب ہوش آیا تو گھبر کر ادھر ادھر ڈھونڈتا رہا۔ بہت دیر تک روتا ہوا بھٹکتا رہا۔ آخر قریب کی ایک مسجد سے جب اعلان ہوا تو کچھ لوگ مجھے وہاں پہنچا آئے جہاں امی اور ابو میرا بےچینی سے انتظار کر رہے تھے۔
بچپن کی یادوں میں دوستوں کے ساتھ ہونے والی لڑائیاں بھی ہم کبھی نہ بھول پائیں گے۔ اسکول میں نئے نئے دوست بن گئے تھے۔ ان کے ساتھ خوب شرارتیں کرتے۔ ذراسی بات پر کٹّی کر بیٹھتے لیکن زیادہ دنوں تک اس حالت میں دوست سے دور رہنا مشکل ہو جاتا اور کسی نہ کسی بہانے سے دوستی کر بیٹھتے۔ بچپن ان تمام برائیوں سے دور تھا جو انسان سے خوشیاں چھین لیتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں کسی کے لیے برائی نہ تھی ۔ بچپن ایسی ہی معصوم یادوں سے عبارت ہے۔ اسی لئے ہر شخص کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کاش اس کے بچپن کے وہ سہانے دل کسی طرح لوٹ آئیں۔ لیکن یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں۔
اب بھی بچپن کے دوست یاد آتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات یاد آتے ہیں تو ان کے چھن جانے کا افسوس ہوتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سے ہمارا بچپن نہیں کوئی قیمتی سرمایہ چھن گیا ہو۔ کاش پھر سے لوٹ آئیں بچپن کے وہ سہانے دن!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.