Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بادشاہ کا انعام

مختار احمد

بادشاہ کا انعام

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    بادشاہ کو نہ تو شکار کا شوق تھا اور نہ ہی گھومنے پھرنے کا۔ اسے تو بس کھیلوں کے مقابلے بہت پسند تھے۔ وہ ایک سادگی پسند حکمران تھا۔ سال کے بارہ مہینے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا رہتا۔ اس کے وزیر بھی بہت عقلمند اور وفادار تھے۔ اپنے بادشاہ کی نیک خصلت طبیعت کی وجہ سے وہ لوگ اس کی بہت قدر کرتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ بادشاہ کے اچھے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ عوام خوشحال رہیں۔ عوام خوشحال ہوں تو ملک بھی بہت ترقی کرتا ہے۔

    جب موسم بہار شروع ہوتا تھا تو اس کے پہلے سات دنوں میں لوگ جشن مناتے تھے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا تھا اور اب تو اس نے ایک تہوار کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان سات دنوں میں ملک کے سارے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر بس خوشیاں ہی مناتے تھے۔ گھروں میں طرح طرح کے پکوان پکتے، نئے کپڑے زیب تن کیے جاتے۔ تمام عزیز و اقارب ایک دوسرے کے گھروں پر جاتے۔ بادشاہ کو بھی اس جشن کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ اس طرح کے جشنوں پر دوسرے ملکوں کے بادشاہ قیدیوں کو شیروں سے لڑواتے تھے، اگر قیدی نے شیر کو شکست دیدی تو اس کو آزاد کر دیا جاتا تھا، ورنہ شیر اس کو اپنا نوالہ بنا لیتا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی قیدی نے شیر کو شکست دی ہو۔

    بادشاہ کو اس قسم کے کھیل تماشوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ نہایت رحمدل تھا اور انسانوں کی قدر و قیمت جانتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اللہ نے جب انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو انسان کو اپنے اچھے کاموں سے اس کا ثبوت بھی دینا چاہیے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ پیار محبت سے رہنا چاہیے۔ اس جشن کا بادشاہ اس لیے انتظار کرتا تھا کہ اس کے دوران محل کے سامنے ایک بہت بڑے میدان میں کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے جن میں لمبی چھلانگ لگانے کے، تیر اندازی، نیزہ بازی، تلوار بازی، پہلوانوں کی کشتیاں، رسہ کشی اور دوڑوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ ان مقابلوں میں ملک بھر سے نوجوان شرکت کرتے تھے۔ بادشاہ کو دوڑوں کے مقابلے بہت اچھے لگتے تھے اور وہ ان کو زیادہ دلچسپی سے دیکھا کرتا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ دوڑنا صحت کے لیے بھی بہت اچھا ہوتا ہے اس لیے صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کو بھی روزمرہ کی زندگی میں باقائدگی سے دوڑتے بھاگتے رہنا چاہیے۔

    اسی شہر میں ایک بڑھئی بھی رہتا تھا۔ اس کا بیٹا گلفام ہر سال دوڑوں کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا اور اول آیا کرتا تھا۔ وہ نہایت خوبصورت اور اچھے اخلاق کا نوجوان تھا۔ اس دفعہ بھی وہ ان مقابلوں میں حصہ لے رہا تھا۔ چونکہ وہ ہر سال ان مقابلوں میں شرکت کے لیے آیا کرتا تھا اس لیے بادشاہ اسے پہچاننے لگا تھا۔ اس کے دوڑنے کا انداز بادشاہ کو بہت بھاتا تھا۔ جب وہ دوڑتا تھا تو یہ گمان ہوتا تھا جیسے کوئی چیتا بغیر آواز نکالے سبک رفتاری سے بھاگ رہا ہے۔ دوڑ کے مقابلوں میں حالانکہ بہت سے نوجوان شرکت کر رہے تھے مگر بادشاہ کو امید تھی کہ گلفام پالا مار لےگا اور انعام جیت لےگا۔

    خدا خدا کرکے کھیلوں کے مقابلوں کا دن آیا۔ تھوڑی دیر بعد دوڑ شروع ہوئی۔ دوڑ میں شرکت کرنے والے سارے نوجوان بڑے پرجوش تھے۔ ہر نوجوان کو یہ ہی امید تھی کہ مقابلہ وہ ہی جیتےگا۔ ان نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق امیر گھرانوں سے تھا۔ وہ گلفام سے الگ تھلگ کھڑے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ گلفام کو وہ منہ ہی نہیں لگا رہے تھے کیوں کہ انھیں پتہ تھا کہ وہ ایک معمولی بڑھئی کا بیٹا ہے۔ ان کی یہ سوچ بہت بری تھی۔ تمام انسان برابر ہوتے ہیں۔ امیر غریب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    اس سے پہلے دوڑ میں اول آنے والے کو ایک شاہی تمغہ ملا کرتا تھا۔ اس دفعہ سے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اب اس تمغے کے ساتھ ایک ہزار اشرفیاں بھی انعام میں دی جائیں گی۔ اس اعلان نے کھلاڑیوں کا جوش و خروش اور بھی بڑھا دیا تھا۔ دوڑ اس میدان سے شروع ہوتی تھی اور کھلاڑیوں کو تقریباً تین کوس کی پختہ راہ گزر پر دوڑنا پڑتا تھا۔ اس پکے راستے کو گولائی کی شکل میں بنوایا گیا تھا۔ اس راہ گزر کے راستے میں ایک دریا بھی آتا تھا اور یہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گھوم کر بادشاہ کے محل کے قریب سے ہوتی ہوئی اسی میدان میں اختتام پذیر ہو جاتی تھی۔

    دوڑ شروع ہونے والی تھی۔ پنڈال میں بادشاہ کے ساتھ ملکہ اور شہزادی بھی موجود تھیں۔ ملکہ کو تو ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ تو اس شاہی فرمان کی وجہ سے مجبور تھی جس کے مطابق ملکہ کے لیے لازم تھا کہ وہ عوامی تقریبات میں بادشاہ کے ساتھ شریک ہو۔ البتہ شہزادی لمبی چھلانگوں اور تیر اندازی کے مقابلے شوق سے دیکھتی تھی۔

    نقارے پر پہلی ضرب لگی، دوڑنے والے تیار ہو گئے۔ ان کی تعداد دس تھی۔ دوسری ضرب پر وہ مزید تیار ہو گئے اور تیسری ضرب کی آواز کانوں میں پڑتے ہی سب دوڑ پڑے۔ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی اور سب لوگ شور مچا مچا کر دوڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ میدان سے چند سو گز کی دوری پر ایک موڑ تھا، لمحہ بھر میں سارے دوڑنے والے نوجوان موڑ کاٹ کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    اب بادشاہ سمیت تمام تماشائیوں کو ان کی واپسی کا انتظار تھا کہ کب وہ گھوم کر واپس آئیں اور یہ پتہ چل سکے کہ اول آنے والا کون ہے۔ ان دوڑ لگانے والوں کے پیچھے دو گھڑ سوار بھی تھے جو ان لوگوں کی نگرانی پر مامور تھے۔

    بادشاہ نے ملکہ سے پوچھا ’’ملکہ۔ آپ کے خیال میں اس دوڑ میں کون جیتےگا۔‘‘

    ملکہ نے بڑی سادگی سے کہا ’’جو بھی اول آئےگا۔‘‘

    ملکہ کے اس جواب پر بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ شہزادی بھی بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ کافی انتظار کے بعد میدان کے اس حصے سے دھول سی اڑتی دکھائی دی جہاں سے دوڑنے والے واپس آ رہے تھے۔ بادشاہ پہلو بدل کر اس طرف نظریں جما کر بیٹھ گیا۔ سب سے آگے نیلے کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان تھا۔ گلفام نے تو سیاہ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ بادشاہ کو مایوسی ہوئی۔

    تھوڑی دیر بعد دوڑ ختم ہو گئی مگر بادشاہ کو گلفام نظر نہیں آیا۔ وہ ان میں تھا ہی نہیں۔ تماشائیوں نے جیتنے والے نوجوان کو شاباش دینے کے لیے تالیاں بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ بادشاہ کی نظریں گلفام کو ڈھونڈ رہی تھیں، جب اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ گلفام ان نوجوانوں میں موجود نہیں ہے تو اس نے برابر میں بیٹھے ہوئے اپنے وزیر سے کہا ’’وزیر باتدبیر۔ ہمیں وہ نوجوان نظر نہیں آ رہا جو گزشتہ کئی سالوں سے ان دوڑوں میں اول آ رہا تھا۔ وہ کہاں رہ گیا ہے ذرا معلوم تو کیجیے؟‘‘

    وزیر نے اسی وقت دونوں گھوڑوں سواروں کو طلب کر لیا اور گلفام کی بابت معلوم کیا۔ ایک گھڑسوار نے ہاتھ باندھ کر کہا۔ ’’جناب ہم ان دوڑنے والوں کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ موڑ کاٹتے ہی دریا شروع ہو گیا تھا، ابھی ہم دریا کے ساتھ ساتھ کچھ دور ہی گئے تھے کہ ہم نے دریا کے کنارے کھڑی ایک عورت کو چیختے چلاتے ہوئے دیکھا۔ اس کا کمسن بیٹا دریا میں گر پڑا تھا اور ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ اس کی چیخوں کی آواز سن کر ان نوجوانوں میں وہ نوجوان جو سب سے آگے تھا وہ رک گیا اور پھر جلدی سے اس عورت کے پاس پہنچا۔ اس ڈوبتے ہوئے بچے کو ان سب نے دیکھا تھا مگر کسی نے بھی رک کر اس عورت کی مدد کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ انھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر وہ رکے تو مقابلے میں ہار جائیں گے۔‘‘

    گھڑسوار نگران کی یہ بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر غم و غصے کا آثار نمودار ہو گئے۔ وہ تمام نوجوان جنہوں نے اس دوڑ میں حصہ لیا تھا شرمندگی سے سر جھکاے کھڑے تھے۔ بادشاہ نے ایک قہرآلود نظر ان پر ڈالی اور بولا ’’ہمیں یہ سن کر سخت افسوس ہوا ہے۔ ایک انسانی زندگی کے مقابلے میں اس دوڑ کے مقابلے کی کیا حیثیت تھی۔ تم سب لوگوں کو تو یہ چاہیے تھا کہ مل کر اس عورت کی مدد کو پہنچتے جس کا بچہ دریا میں ڈوب رہا تھا۔ ہم اس مقابلے کو منسوخ کرتے ہیں کیوں کہ اس کا ایک کھلاڑی اس میں شرکت نہیں کر سکا تھا، جب کہ قانون یہ کہتا ہے کہ دوڑنے والوں کی تعداد دس ہونا چاہیے نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔‘‘

    یہ سن کر جیتنے والے نوجوان کا چہرہ لٹک گیا، اسے تو انعام ملنے کا پورا یقین ہو گیا تھا۔ وہ حالانکہ ایک امیر کبیر سوداگر کا بیٹا تھا مگر اس کے باوجود اس کو انعام نہ ملنے کا افسوس ہو رہا تھا۔ بادشاہ نے مزید کہا ’’اب یہ ہی مقابلہ کل دوبارہ ہوگا جب دوڑنے والوں کی تعداد پوری ہو جائےگی۔’’ پھر بادشاہ نے وزیر سے کہا “ہمیں معلوم کرکے بتایا جائے کہ اب ڈوبنے والے بچے کا کیا حال ہے اور ہمارا وہ بہادر اور انسان دوست کھلاڑی کہاں ہے۔

    ملکہ اور شہزادی بھی اس واقعہ کو سن کر سوچ میں پڑ گئی تھیں۔ انھیں ڈوبنے والے بچے کی فکر تھی۔ وہ دونوں اس نوجوان پر بھی آفرین بھیج رہی تھیں جس نے دوڑ کے مقابلے سے تو دستبرداری کا فیصلہ کر لیا تھا مگر ایک مصیبت زدہ ماں اور اس کے بچے کی مدد کو پہنچ گیا تھا۔

    وزیر اٹھا ہی تھا کہ کسی کو اس واقعہ کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ اچانک سب نے سامنے سے آتے ہوئے گلفام کو دیکھ لیا۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے تمام تماشائیوں کو بھی اس واقعہ کا پتہ چل گیا تھا۔ انہوں نے گلفام کو دیکھا تو سب اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجا بجا کر گلفام کا استقبال کیا۔ گلفام قریب آیا تو اس کا پورا جسم پانی میں شرابور تھا۔ اس نے جھک کر بادشاہ اور ملکہ کو تعظیم دی۔

    بادشاہ نے اٹھ کر اس کے شانے پر تھپکی دی اور پوچھا ’’نوجوان کیا واقعہ پیش آ گیا تھا۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم کسی ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے کے لیے گئے تھے؟‘‘

    گلفام نے ادب سے کہا ’’ایک عورت دریا کے کنارے کپڑے دھو رہی تھی۔ اس کا بچہ اس کے پاس بیٹھا کھیل رہا تھا۔ چانک جانے کیا ہوا کہ بچہ دریا میں گر گیا۔ وہ چیخنے چلانے لگی۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب ہم لوگ وہاں سے دوڑتے ہوئے نکل رہے تھے۔ میں نے جب اس عورت کی چیخیں سنیں تو اس کی مدد کو پہنچ گیا۔‘‘

    ’’نوجوان تم کام کیا کرتے ہو؟۔‘‘ بادشاہ نے اچانک پوچھا۔

    گلفام نے کہا ’’عالم پناہ۔ میرا باپ ایک بڑھئی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی دکان ہے، میں بھی اس کے ساتھ دکان پر بیٹھ جاتا ہوں اور اس کی مدد کرتا ہوں۔‘‘

    بادشاہ اس کی بات سن کر کچھ سوچنے لگا۔ ’’تمہارے مالی حالات کیسے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    اس کا سوال سن کر گلفام کچھ جھجکا، آس پاس کھڑے لوگوں کو ایک نظر دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔بادشاہ نے پھر کہا ’’جانتے ہو اگر تم اس دوڑ میں جیت جاتے تو تمہیں ایک ہزار اشرفیاں انعام میں ملتیں؟‘‘

    ’’جی جہاں پناہ۔ میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ میری دلی خواہش تھی کہ میں یہ مقابلہ جیت کر انعام حاصل کر لوں۔ اس انعام سے ہمارے گھر کی تمام پریشانیاں ختم ہو جاتیں۔‘‘

    ’’پھر بھی تم نے اس کے لیے کوشش نہیں کی۔ مقابلہ چھوڑ کر بچے کو بچانے کے لیے چلے گئے؟‘‘ بادشاہ نے کچھ حیرت سے پوچھا۔

    گلفام اپنی پیشانی پر آئے ہوئے لمبے لمبے گیلے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے بولا ’’جہاں پناہ۔ ایک ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانا اس انعام سے لاکھ درجے بہتر تھا۔ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ روپیہ پیسہ تو آنی جانی شے ہے، انسانی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔ میں اگر جیت بھی جاتا تو مجھے اتنی خوشی ہرگز نہ ہوتی جتنی اس ماں کی خوشی دیکھ کر ہوئی تھی جب میں نے بچے کو دریا سے نکال کر اس کی گود میں دیا تھا۔ یہ خوشی میرے لیے انعام کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی ہے۔‘‘

    گلفام کی باتیں سن کر بادشاہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا ’’ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہماری رعایا میں تم جیسے نیک اور اپنے دل میں دوسروں کا درد رکھنے والے نوجوان بھی موجود ہیں۔‘‘ پھر اپنے گلے سے سچے موتیوں کا ہار اتارکر اسے انعام میں دیا اور وزیر سے بولا ’’ہم اس نوجوان کو رہنے کے لیے ایک حویلی دیتے ہیں۔ اس کا انتظام کیا جائے۔‘‘

    اس کے بعد بادشاہ دوبارہ گلفام سے مخاطب ہوا ’’اب تم گھر جاوٴ اور تیاری کرو۔ کل پھر اسی جگہ دوڑ کا مقابلہ دوبارہ ہوگا۔‘‘

    گلفام نے بادشاہ کا جھک کر شکریہ ادا کیا اور خوش خوش گھر چلا گیا۔ اگلے روز پھر تمام لوگ اس میدان میں موجود تھے۔ گلفام کی کہانی ہر ایک کو پتہ چل گئی تھی۔ اچھے اور نیک کام کرنے والوں کی سب عزت کرتے ہیں۔ وہ لوگ دوڑ کا مقابلہ دیکھنے سے زیادہ گلفام کی ایک جھلک دیکھنے آئے تھے۔ آج تماشائیوں میں گلفام کے ماں باپ بھی تھے اور بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ وہ میدان میں آیا تو ایک بار پھر سب نے اس کا پرجوش استقبال کیا۔ دوڑ شروع ہوئی اور جب اس کا اختتام ہوا تو گلفام جیت گیا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ہاتھوں سے اسے تمغہ اور ایک ہزار اشرفیوں کا انعام دیا اور گلفام اپنے ماں باپ کے ساتھ خوش خوش گھر چلا گیا۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وزیر نے ایک عظیم الشان حویلی بھی اس کے حوالے کر دی تھی۔ اب ان کے بہت اچھے دن آ گئے تھے اور پھر وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے