Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بونے کے جوتے

مختار احمد

بونے کے جوتے

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    مونگی ایک موچی تھا۔ اس کی دکان گاؤں میں تھی۔ وہ روزانہ صبح دکان کھولتا، دن بھر گاؤں والوں کے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کرتا اور جب شام ہوتی تو دکان بند کر کے گھر چلا آتا۔ چونکہ وہ بہت غریب تھا اس لیے اس کی دکان نہایت ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھی۔ اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ دکان کی مرمت کروا سکتا۔ بارشوں میں اس کی چھت ٹپکنے لگتی تھی اور دکان میں موجود سامان بھیگ جاتا تھا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ جیسے ہی اس کے پاس کچھ پیسے جمع ہوں گے، وہ سب سے پہلے دکان کی مرمت کروائے گا۔

    ایک روز صبح جب وہ اپنی دکان پر جانے کے لیے بیدار ہوا تو اس کی بیوی لالی بولی۔ “لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں۔ میں آٹا گوندھ کر رکھتی ہوں۔ تو جلدی سے لکڑی والے سے مجھے لکڑی لادےتاکہ میں ناشتہ بناؤں”۔

    مونگی نے دو چھپکے پانی کے منہ پر مارے اور گاؤں کی لکڑیوں کی ٹال کی جانب روانہ ہوگیا۔ جب وہ لکڑیوں کی ٹال پر پہنچا تو وہ بند تھی۔ اس کے پڑوس میں بھوسے والے کی دکان تھی۔ بھوسے کی دکان کا مالک مونگی کا دوست تھا۔ اس نے بتایا کہ ٹال والا کل شہر گیا تھا اور آج دوپہر تک واپس آئے گا۔

    مونگی نے سوچا کہ اگر لکڑیاں نہیں ملیں تو پھر لالی ناشتہ کیسے تیار کرے گی۔ یہ سوچ کر اس نے جنگل جانے کی ٹھانی تاکہ وہاں سے کچھ لکڑیاں لے کر گھر چلا جائے۔ جنگل بالکل قریب تھا۔ وہ جنگل کی طرف چل پڑا۔ اس کے پاس کلہاڑی تو تھی نہیں کہ وہ لکڑیاں کاٹتا۔ اس لیے جنگل میں پہنچ کر اس نے بہت ساری خشک جھاڑیاں جمع کر لیں۔ پھر ان کا گٹّھا بنایا اور اس گٹّھے کو اٹھا کر گھر کی طرف چل دیا۔

    ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ سامنے سے اس کو ایک ننھا منا بونا آتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے پاؤں گھسٹ گھسٹ کر آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ مونگی کو لگا کہ اس کے پاؤں میں تکلیف ہے۔ مونگی ایک رحمدل آدمی تھا۔ بونے کے پاؤں کی تکلیف کا خیال دل میں آیا تو اس نے اس کی مدد کرنے کی ٹھانی۔ اس نے جھاڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور بونے کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔

    بونا جب اس کے قریب پہنچا تو مونگی نے کہا۔ “ایسا معلوم دیتا ہے جیسے تمھارے پاؤں میں تکلیف ہے۔ کیا میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں؟”۔

    بونے نے کہا۔ “میرے پاؤں میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ دراصل میں نے جو جوتے پہن رکھے ہیں وہ میرے پاؤں سے بہت بڑے ہیں۔ میں تیز تیز چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ پاؤں سے اتر جاتے ہیں”۔

    مونگی نے اس کی بات سن کر اس کے پیروں پر ایک نظر ڈالی۔ بونے کے پاؤں تو چھوٹے چھوٹے سے تھے مگر اس نے جوتے اتنے بڑے پہنے ہوئے تھے جیسے خود مونگی پہنتا تھا۔ اتنے بڑے جوتے پہننے کی وجہ سے ہی بونا زمین پر پاؤں گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔

    مونگی نے کہا۔ “اتنے بڑے جوتے پہن کر چلنا پھرنا بہت تکلیف دہ کام ہے۔ یہ جوتے تو بہت بڑے ہیں۔ تمہیں کہاں سے ملے؟”۔

    بونے نے جواب دیا۔ “میں بونوں کی دنیا میں رہتا ہوں۔ ہماری دنیا سامنے والے پہاڑوں کے پیچھے ہے۔ میرا کسی کام سے تمہاری دنیا میں آنا ہوا۔ یہاں پہنچنے کے لیے پہلے تو مجھے پہاڑ پر چڑھنا پڑا اور پھر اترنا بھی پڑا۔ اس وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ میرے سامنے ایک جنگل تھا۔ جنگل میں پہنچ کر تھوڑا سا آرام کرنے کی غرض سے میں ایک درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں گھاس پر لیٹ گیا۔ اپنے جوتے اتار کر میں نے اپنے قریب ہی رکھ لیے تھے۔ میری تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ گئی تھی۔ جب میں سو کر اٹھا تو میرے جوتے غائب تھے۔ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ میری نظر سامنے درخت پر بیٹھے ایک بڑے سے بندر پر پڑی۔ وہ دانت نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا اور اس نے میرے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ میں اس کی طرف لپکا تو وہ درختوں کی شاخوں پر جھولتا ہوا وہاں سے غائب ہوگیا۔ میں بہت پریشان تھا۔ جنگل میں جا بجا کانٹے اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں پڑی ہوتی ہیں۔ میں بغیر جوتوں کے ان پر چل بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن مجبوری تھی۔ میں نے اپنا سفر پھر شروع کیا۔ ابھی میں تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک جگہ مجھے جھاڑیوں میں یہ جوتے پڑے نظر آئے۔ شاید کسی قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا کیوں کہ وہاں پر بہت سے مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن اور دوسری اشیا بھی پڑی ہوئی تھیں۔ یہ جوتے پھٹے پرانے تھے مگر میں نے انہیں غنیمت جانا اور انہیں پہن کر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا”۔

    مونگی نے کہا۔ “یہ جوتے تو بہت ہی تکلیف دہ ہیں۔ مگر فکر کی بات نہیں۔ تم میرے ساتھ چلو۔ میں جوتے بناتا ہوں۔ آج میں اپنا کام نہیں کروں گا۔ تمھارے لیے سبک اور خوب صورت سے جوتے بناؤں گا۔ انھیں پہن کر تم بہت آرام محسوس کرو گے”۔

    اس کی بات سن کر بونا کچھ فکرمند ہو گیا اور بولا۔ “میں تو بونوں کی دنیا میں رہتا ہوں۔ میرے پاس وہیں کے پیسے ہیں۔ مگر یہ پیسے تمہاری دنیا میں نہیں چلیں گے”۔

    یہ کہہ کر بونے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر بونوں کی دنیا کے پیسے نکال کر مونگی کو دکھائے۔ مونگی نے دیکھا کہ اس کی ہتھیلی پر پیتل کے بنے ہوئے چھوٹے بڑے چوکور ٹکڑے رکھے تھے۔ ان پر نہ تو کوئی تصویر تھی اور نہ ہی کچھ لکھا ہوا تھا۔

    مونگی ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے بونے سے کہا۔ “ہاں اس طرح کے پیسے ہمارے یہاں نہیں چلتے۔ لیکن میں تمھارے لیے پھر بھی جوتے بناؤں گا۔ تم پیسوں کی طرف سے فکر مت کرو۔ سمجھنا وہ جوتے میری طرف سے تمھارے لیے ایک تحفہ ہوں گے”۔

    بونا یہ سن کر خوش ہوگیا۔ مونگی اسے ساتھ لے کر گھر آیا اور جنگل سے لائی ہوئی جھاڑیوں کا گٹّھا چولہے کے پاس رکھ دیا۔ مونگی کے ساتھ ایک بونے مہمان کو دیکھ کر لالی نے جلدی سے چولہا جلایا اور ناشتہ تیار کرنے لگی۔

    ناشتے کے بعد مونگی بونے کو لے کر اپنی دکان پر آیا اور اس کے جوتے بنانے میں مصروف ہوگیا۔ دوپہر تک جوتے تیار ہوگئے تھے۔ وہ نہایت نرم و ملائم کھال سے بنے تھے اور بونے کی پنڈلیوں تک لمبے تھے۔

    بونے نے انھیں پہن کر دیکھا تو خوش ہوگیا اور بولا ۔ “مونگی۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ تم نے بہت خوب صورت اور آرام دہ جوتے بنائے ہیں۔ تم ایک بہت اچھے انسان ہو۔ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا اب میں چلتا ہوں تاکہ رات ہونے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جاؤں”۔

    مونگی نے اسے خدا حافظ کہا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

    اس بات کو بہت دن ہوگئے۔ مونگی اس بونے کو بھول بھال گیا تھا۔ اچانک ایک روز رات کو اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ مونگی نے دروازہ کھولا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ہی بونا اس کے دروازے پر کھڑا ہے۔ سامنے ایک چھوٹی سی بگھی کھڑی تھی۔ بونا اسی بگھی میں سوار ہو کر آیا تھا۔

    وہ بونے کو لے کر گھر میں آیا۔ لالی بھی بونے کو دوبارہ اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے گڑ کے میٹھے چاول بنائے تھے۔ اس نے وہ چاول بونے کے آگے رکھے۔ بونے کو میٹھے چاول بہت پسند تھے۔ اس نے لالی کا شکریہ ادا کیا اور چاول کھانےلگا۔

    کھانے کے بعد اس نے مونگی سے کہا۔ “مونگی تمہارے بنائے ہوئے جوتوں کی میرے ملک میں ہر طرف دھوم مچ گئی ہے۔ وہاں کے تو سب لوگ چاول، میزری یا پھر گندم کے سوکھے پودوں سے بنے ہوئے جوتے پہنتے ہیں۔ ایسے شاندار چمڑے کے بنے ہوئے خوب صورت جوتے انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان جوتوں کی خبر شاہی محل میں بھی پہنچ گئی ہے۔ ہمارے بادشاہ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ تم ان کے، ملکہ کے اور ان کے بچوں کے جوتے بناؤ گے۔ اسی لیے میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ بس اب چلنے کی تیاری شروع کردو۔ ہمارا بادشاہ اس کام کا تمہیں بہت سا انعام دے گا “۔

    بونے کی باتیں سن کر مونگی کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے کہا۔ “ہاں ہاں۔ میں ضرور تمھارے ساتھ چلوں گا۔ اسی بہانے میں بونوں کی دنیا بھی دیکھ لوں گا۔ سنا ہے بونوں کی دنیا بہت خوب صورت ہے۔ سب لوگ بہت پیار محبّت سے رہتے ہیں”۔

    “مونگی۔ تم نے ٹھیک سنا ہے۔ ہماری دنیا کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ بالکل تمہاری اور تمہاری بیوی کی طرح۔ تم نے بھی تو میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں تھا اس کے باوجود بھی تم نے مجھے جوتے بنا کر دئیے۔ تمہاری بیوی بھی بہت اچھی ہے۔ اس نے بھی میری بہت خاطر مدارت کی تھی”۔ بونے نے کہا۔

    مونگی اس کی بات سن کر بولا۔ “ہم نے جو کیا تھا وہ ہمارا فرض تھا۔ ویسے بھی کسی کے کام آنا بہت اچھی بات ہے”۔

    بونے نے اپنی جیب سے سونے کی چند چھوٹی چھوٹی ڈلیاں نکال کر مونگی کو دیں اور بولا۔ “یہ سونے کی ڈلیاں ہمارے بادشاہ نے تمھارے لیے بھجوائی ہیں تاکہ انہیں بیچ کر تم جوتے بنانے کے لیے چمڑہ اور دوسری چیزیں خرید سکو۔ اس کے علاوہ تمہیں ایک گھوڑا بھی خریدنا پڑے گا۔ اس پر بیٹھ کر ہی تم ہمارے ملک جا سکو گے۔ وہ پہاڑوں کے پیچھے ہے اور یہاں سے کافی فاصلے پر ہے۔ بس اب تم تیاری شروع کردو۔ میں ایک ہفتے بعد پھر آؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا”۔

    یہ کہہ کر بونا اپنی سنہری بگھی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ بگھی میں ایک چھوٹا سا گھوڑا جْتا ہوا تھا۔ بونا بگھی پر سوار ہوگیا تو گھوڑا ہلکی سی آواز میں ہنہنایا، سر گھما کر مونگی کو دیکھا اور پھر روانہ ہوگیا۔

    مونگی نے جب سونے کی ڈلیاں لالی کو دکھائیں تو وہ بھی بہت خوش ہوئی اور بولی۔ “مونگی میں انہیں سنبھال کر رکھ دیتی ہوں۔ ان سے تمہیں ایک گھوڑا اور جوتے بنانے کے لیے سامان خریدنا ہوگا”۔

    مونگی نے اب اپنے سفر کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ اس نے نرم و نازک چمڑہ، نئے اوزار، ریشمی دھاگا اور جوتے بنانے میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدیں۔ اس نے سواری کے لیے ایک گھوڑا بھی خرید لیا تھا۔ اسے اس بات کی بہت خوش تھی کہ اس کے کام کو بونوں کی دنیا میں بھی پسند کیا گیا تھا۔

    اب اسے بونے کی آمد کا انتظار تھا۔ آخر خدا خدا کرکے ایک ہفتہ گزرا اور ایک صبح بونا اپنی بگھی میں سوار اس کے گھر آ پہنچا۔ مونگی تو تیار ہی بیٹھا تھا۔ اس نے لالی کو خدا حافظ کہا اور بونے کے ساتھ چل پڑا۔ بونے کی بگھی آگے آگے تھی اور مونگی اپنے گھوڑے پر سوار اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔

    اونچے اونچے پہاڑوں کو عبور کرکے وہ ایک میدان میں پہنچے۔ میدان ختم ہوا تو سامنے کسی شہر کے آثار نظر آئے۔ اسی شہر میں بونا رہتا تھا۔

    مونگی جب شہر میں داخل ہوا تو اس نے بہت سے چھوٹے چھوٹے خوب صورت گھر دیکھے۔ وہاں پر خوب چہل پہل نظر آ رہی تھی اور چھوٹے چھوٹے بونے رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

    ان کے جانور بھی ان ہی کی طرح چھوٹے تھے۔ مونگی کو گلیوں میں مرغیاں بھی نظر آئیں۔ ان مرغیوں کا قد چوزوں جتنا تھا اور وہ بھاگتی پھر رہی تھیں۔ مونگی انھیں دیکھ کر سوچنے لگا کہ جانے ان کے چوزے کتنے بڑے ہوتے ہوں گے۔

    وہاں اسے پھلوں کے درخت بھی نظر آئے۔ وہ تھے تو درخت مگر جھاڑیوں جتنے تھے اور پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ ان میں لگے سیب بیروں جتنے تھے اور کیلے مونگی کی چھوٹی انگلی کے برابر تھے۔ یہ ہی حال ان پر بیٹھے پرندوں کا تھا۔ چڑیاں بھونروں جتنی تھیں اور کائیں کائیں کرتے کوے چھوٹی چڑیوں کے جتنے تھے۔ یہ تمام چیزیں دیکھنے میں مونگی کو بڑا مزہ آ رہا تھا۔

    بونا مونگی کو لے کر ایک بہت ہی خوب صورت اور بڑی سی عمارت کے پاس لایا۔ یہ بادشاہ کا محل تھا۔ یہ محل اتنا بڑا تھا کہ مونگی تھوڑا سا جھک کر اس میں داخل ہوگیا۔ محل کے اندر بادشاہ اور ملکہ اپنے بہت سے شہزادوں اور شہزادیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

    مونگی نے ادب سے بادشاہ اور ملکہ کو سلام کیا۔ بونے نے مونگی کا تعارف ان لوگوں سے کروایا۔

    بادشاہ نے کہا۔ “مونگی۔ ہمیں خوشی ہے کہ تم اپنے کام میں بہت ماہر ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے، ملکہ کے اور بچوں کے جوتے تیار کرو”۔

    مونگی نے کہا۔ “جہاں پناہ۔ میں آپ سب کے جوتے ضرور تیار کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میرے بنائے ہوئے جوتے آپ کو ضرور پسند آئیں گے”۔

    محل کا ایک بڑا ہال مونگی کے حوالے کردیا گیا تھا۔ مونگی وہاں بیٹھ کر اپنا کام کر سکتا تھا۔ اس نے تھیلوں میں سے اپنا سامان نکال کر سامنے رکھا۔ پھر بادشاہ، ملکہ اور ان کے بچوں کے پاؤں کی پیمائش کی اس کے بعد وہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔

    اس کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا بہت اچھا انتظام تھا۔ وہ مسلسل آٹھ روز تک اپنے کام میں لگا رہا۔ آٹھ روز گزرے تو تمام جوتے تیار ہوگئے تھے۔ اس کے بنائے ہوئے جوتے اتنے خوب صورت تھے کہ بادشاہ اور ملکہ انھیں دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے شہزادے اور شہزادیوں نے جب انھیں پہن کر دیکھا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔

    مونگی کا کام ختم ہوگیا تھا اس لیے اس نے بادشاہ سے اپنے گھر جانے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے بہت ساری سونے کی ڈلیاں دیں۔ اتنی ساری دولت پاکر مونگی بہت خوش تھا۔ اس کا دوست بونا اسے دور تک چھوڑنے آیا تھا۔

    مونگی گھر پہنچا اور ساری سونے کی ڈلیاں لالی کے حوالے کردیں۔ مونگی نے ان ڈلیوں کو بیچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی ایک بہت اچھی سی دکان بنائی تاکہ وہ بارشوں کے موسم میں بھی اپنا کام اطمینان سے کرسکے۔ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو اس نے اپنا ایک اچھا سا گھر بھی بنا لیا۔ اب اس کے دن پھر گئے تھے اور وہ اپنی بیوی لالی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگا۔

    اس طرح مونگی کو بونے سے اچھا سلوک کرنے اور اس کی مدد کرنے کا انعام مل گیا تھا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے