بونے کی انگوٹھی
زمانہ گزرا کسی ملک میں ایک گاؤں تھا جس میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بیٹی کا نام لالہ رخ تھا اور وہ پندرہ سولہ سال کی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی۔ وہ بہت با اخلاق اور ہر کسی کے دکھ درد میں کام آنے والی لڑکی تھی۔ لالہ رخ گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور مرغیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی۔ ان کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنی بکریوں کو قریبی جنگل میں چرانے کے لیے لے جاتی۔ بکریاں تو جنگل میں گھاس اور جھاڑیوں میں لگے پتے کھانے لگتیں اور لالہ رخ کسی مٹی کے ٹیلے پر بیٹھ کر ان کی رکھوالی کرتی اور اس بات کا دھیان رکھتی کہ کوئی بکری زیادہ دور نہ نکل جائے۔ اسے جنگل میں جا کر اس کی کھلی فضا میں بکریوں کو چرانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔
ایک دن سورج ڈھلنے سے پہلے وہ اپنی بکریوں کو ہانک کر جنگل سے گھر کی جانب آ رہی تھی کہ راستے میں اسے زمین پر کوئی چمکیلی چیز نظر آئ۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک ننھی سی سنہری انگوٹھی تھی جس پر سرخ رنگ کا ایک نگینہ بھی جڑا ہوا تھا۔ لالہ رخ نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید اسے وہ شخص نظر آجائے جس کی یہ انگوٹھی تھی مگر آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی اوڑھنی کے پلو میں باندھ لیا اور سوچا کہ اگر اس انگوٹھی کا مالک کبھی مل گیا تو وہ اسے اس کے حوالے کردے گی۔
اس کے بعد وہ پھر بکریوں کو ہانکتی ہوئی گھر کی جانب چل پڑی۔ ابھی وہ گھر سے کچھ فاصلے پر تھی کہ راستے میں ایک درخت کے نیچے اسے ایک چھوٹا سا بونا بیٹھا نظر آیا۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ لالہ رخ کو اسےیوں اداس دیکھ کر بہت ترس آیا اور وہ اس کے پاس آکر بولی۔ “کیا میں آپ کی کچھ مدد کرسکتی ہوں۔ آپ غمزدہ نظر آ رہے ہیں”۔
بونے نے ایک آہ بھری اور اداس لہجے میں بولا۔ “تم تو کیا میری مدد تو کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اتنی بڑی زمین ہے، وہ نہ جانے میری جیب سے کہاں گر گئی ہے۔ جب میں جھک کر دریا سے پانی پی رہا تھا تو ہوسکتا ہے وہ دریا میں گر پڑی ہو”۔
اس کی بات سن کر لالہ رخ ہنس پڑی۔ “کہیں آپ کی انگوٹھی تو نہیں کھو گئی ہے؟” اس نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
اس کی بات سن کر بونا حیرت سے اچھل پڑا۔ “لڑکی تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میری انگوٹھی کھو گئی ہے؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
“مجھے کچھ دور زمین پر سے ایک انگوٹھی ملی تھی اور میں نے آپ کی باتوں سے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ آپ ہی کی ہوگی”۔ لالہ رخ نے اپنی اوڑھنی کے پلو سے انگوٹھی نکال کر بونے کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ بونا خوش ہوگیا ۔ اس نے انگوٹھی لے کر احیتاط سے اپنی جیب میں رکھ لی اور لالہ رخ سے بولا۔ “یہ ایک بہت ہی قیمتی انگوٹھی ہے۔ اسے بیچ کر تمہیں بہت ساری رقم مل سکتی تھی۔ مگر تم ایک اچھی اور نیک دل لڑکی ہو اور تمہارے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ یہ انگوٹھی میں نے اپنی پیاری بیوی کو تحفے میں دینے کے لیے لی تھی”۔
“میں خوش ہوں کہ آپ کی انگوٹھی آپ کو مل گئی ہے”۔ لالہ رخ نے کہا۔
بونے نے مسکرا کر اس کی بات سنی اور اپنے تھیلے میں سے چاندی کی ایک ڈبیہ نکال کر اسے لالہ رخ کو دیتے ہوئے بولا۔ “لڑکی۔ میں تمہاری نیکی کا انعام تو نہیں دے سکتا کیوں کہ اس وقت میرے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔ ہاں جنگل سے گذرتے ہوئے ایک جادوگرنی کے گھر کی کھڑکی کے نیچے سے مجھے یہ ڈبیہ ملی تھی۔ اس میں ایک بیج ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ جادو کا بیج ہوگا۔ گھر جا کر اسے زمین میں بودینا۔ ہوسکتا ہے اس میں سے ایسا درخت نکل آئے جس میں بجائے پھلوں اور پھولوں کے سونے چاندی کی اشرفیاں لگتی ہوں۔ اگر ایسا ہوگیا تو مزے آجائیں گے۔ تم امیر ہوجاؤ گی”۔
لالہ رخ نے ڈبیہ لے کر بونے کا شکریہ ادا کیا ۔ بونے نے اپنے منہ میں دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ڈال کر زور سے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز سنتے ہی سامنے کی جھاڑیوں میں ہلچل سی مچی اور ان میں سےبونے سے کچھ بڑے قد کا ایک گھوڑا نکل کر آیا اور اس کے پاس کھڑا ہو کر ہنہنانے لگا۔ اس کے منہ میں گھاس دبی ہوئی تھی جسے وہ مزے لے لے کر کھا رہا تھا۔ بونے نے لالہ رخ کو خدا حافظ کہا اور اپنے چھوٹے سے گھوڑے پر سوار ہو کر لمحہ بھر میں ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
لالہ رخ خوش خوش گھر آئ۔ گھر آ کر اس نے بکریوں کو ان کے کھونٹوں سے باندھ دیا۔ پھر اس نے صحن میں ایک اچھی سی جگہ دیکھ کر زمین کھودی اور اس میں وہ جادو کا بیج دبا دیا۔ بیج دبانے کے بعد اس نے اس پر تھوڑا سا پانی بھی چھڑک دیا اور اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد کسان بھی کھیتوں پر سے گھر لوٹ آیا۔ رات ہوگئی تھی۔ کسان، اس کی بیوی اور لالہ رخ نے کھانا کھایا اور سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔
اگلی صبح جب لالہ رخ اٹھی تو اس نے اس جگہ جہاں بیج بویا تھا وہاں ایک مٹر کا پودا دیکھا۔ لالہ رخ کو بہت حیرت ہوئی۔ ایک تو اس بات پر کہ ایک ہی رات میں مٹر کا پودا زمین سے کیسے نکل آیا اور اتنا بڑا ہوگیا۔ دوسری حیرت اسے اس بات پر تھی کہ اس پودے کی شاخ میں ایک مٹر کی پھلی بھی لگی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ جادو کے بیج کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
اس نے جلدی سے مٹر کی پھلی پودے سے توڑ ی اور اسے چھیل کر دیکھنے لگی۔ اسے چھیلا تو اندر مٹر کے دانے نہیں تھے بلکہ ایک بہت ہی چھوٹا سا لڑکا آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ لالہ رخ ڈرپوک لڑکی نہیں تھی اس لیے وہ اس عجیب و غریب چھوٹے سے لڑکے کو دیکھ کر ذرا بھی نہیں ڈری۔ اس نے جلدی سے اس لڑکے کو پھلی سے نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔ پھلی سے نکلتے ہی لڑکے کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
“میں کہاں ہوں؟” ۔ لڑکے نے حیرت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے پوچھا۔ “شائد میں دیووں کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ اتنی بڑی لڑکی تو میں نے آج تک نہیں دیکھی “۔
“تم میری ہتھیلی پر ہو ننھےلڑکے۔ میں دیو نہیں ہوں عام انسان ہی ہوں۔ تم ہی بس بہت چھوٹے سے ہو”۔ لالہ رخ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ اس ننھے لڑکے کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔ اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ وہ اس لڑکے کو اپنے گھر میں ہی رکھے گی۔
“مجھے بھوک لگ رہی ہے”۔ لڑکے نے کہا۔ “کیا مجھے کھانے کو کچھ ملے گا؟”۔
لالہ رخ نے کہا۔ “تم کیا کھاؤ گے۔ مجھے بتا دو۔ جو کی روٹی اور مکھن تو تم کھا نہیں سکو گے۔ جو کی روٹی تو بہت بڑی ہوتی ہے”۔
“کیا تم اخروٹ کا حلوہ بنا سکتی ہو؟” ۔ لڑکے نے جلدی سے پوچھا۔
“بنا تو میں لوں گی مگر اس کے لیے مجھے اخروٹ لینے کے لیے پہاڑوں پر جانا ہوگا۔ ہمارے گھر میں اخروٹ نہیں ہیں”۔ لالہ رخ نے کہا۔
“ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو”۔ لڑکے نے کہا۔
لالہ رخ لڑکے کو ہاتھ میں لے کر اپنی ماں کے پاس پہنچی اور اس کے متعلق بتایا۔ مٹر کی پھلی سے نکلنے والے لڑکے کو دیکھ کر اس کی ماں ڈر گئی۔ اتنا چھوٹا سا لڑکا تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔
اس کا خوف محسوس کرکے لڑکے کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ وہ اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ “آپ اتنی بڑی ہو کر مجھ سے ڈر گئی ہیں مگر میں اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود بھی آپ سے نہیں ڈرا۔ ہا ہا ہا!”۔
لڑکا تھا تو چھوٹا سا مگر باتیں مزے کی کرتا تھا۔ اس کی بات سن کر لالہ رخ کی ماں مسکرانے لگی اور اس کا خوف دور ہوگیا–
لالہ رخ نے اپنی ماں سے کہا۔ “آج میں بکریوں کو جنگل میں نہیں لے جاؤں گی، انھیں یہیں چارہ ڈال دوں گی۔ مجھے پہاڑوں پر جا کر وہاں سے اخروٹ لینا ہیں تاکہ اس ننھے لڑکے کے لیے حلوہ بناسکوں”۔
“ٹھیک ہے۔ مگر خوب دیکھ بھال کر جانا۔ وہاں پر بڑے خطرات ہوتے ہیں۔ تم واپس آؤ گی تو میں اس لڑکے کا ناریل کے چھلکے سے بستر بنا کر رکھوں گی اور اس کے چھوٹے چھوٹے کپڑے اور جوتے بھی بناؤں گی۔ مجھے یہ لڑکا بہت پسند آیا ہے۔ اگر یہ بڑا ہوتا تو میں تمہاری شادی اس سے کردیتی”۔ اس کی ماں نے مسکرا کر کہا۔
اپنی شادی کا سن کر لالہ رخ کا چہرہ مارے شرم کے گلابی ہوگیا اور وہ مٹر کی پھلی والے لڑکے کو لے کر جلدی سے کمرے سے نکل گئی۔ کسان تو منہ اندھیرے ہی کھیتوں پر کام کرنے کے لیے نکل گیا تھا اس لیے وہ اس لڑکے سے نہیں مل سکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد لالہ رخ نے اپنے باپ کا گھوڑا اصطبل سے نکالا، لڑکے کو ایک چھوٹی سی جالی والی مخملی تھیلی میں رکھ کر تھیلی کو اپنے گلے میں لٹکایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑوں کی جانب روانہ ہوگئی۔
پہاڑوں کے پاس پہنچ کر وہ تھوڑی دیر سستانے کے لیے ایک جگہ درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ گھوڑے کو اس نے ایک درخت سے باندھ دیا تھا۔ اس نے لڑکے کو تھیلی سے نکال کر اپنے ہتھیلی پر رکھ لیا۔ وہ دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ لالہ رخ نے کہا۔ “اب ہم یہاں سکون سے کچھ دیر بیٹھتے ہیں، تم مجھے اپنے متعلق بتاؤ کہ تم کون ہو اور اس مٹر کی پھلی میں کیسے پہنچے؟۔ مجھے تو یہ سب جادو کی باتیں لگ رہی ہیں”۔
لڑکے نے کہا۔ “تم ٹھیک سمجھی ہو۔ یہ سب ایک ظالم جادوگرنی کا کیا دھرا ہے۔ ٹہرو میں شروع سے تمہیں پوری کہانی سناتا ہوں۔ میرا نام دلاور ہے۔ میں بھی عام لڑکوں کی طرح تھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دفعہ گاؤں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے جس سے میری ماں اس دنیا سے چل بسی۔ اس وقت میں کوئی آٹھ سال کا تھا۔ کچھ دنوں بعد میرے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہ تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر مجھے دھن کر رکھ دیتی تھی اور شام کو جب میرا باپ گھر آتا تو اس سے میری سچی جھوٹی شکایتیں کرتی۔ ان شکایتوں کو سن کر میرا باپ غصے میں آجاتا اور میری پٹائی شروع کردیتا۔ ان ہی حالات میں سالوں گزر گئے اور میں اٹھارہ سال کا ہوگیا۔ ایک روز میری سوتیلی ماں کی شکایت پر میرا باپ اتنا ناراض ہوا کہ پہلے تو اس نے مجھے خوب مارا پیٹا پھر مجھے گھر سے نکال دیا اور مجھ سے کہا کہ اب میں کبھی اسے اپنی شکل نہ دکھاؤں۔ میرا اس دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں ایک طرف کو چل پڑا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں۔ چلتے چلتے میں ایک جنگل میں پہنچ گیا۔ وہاں میں نے ایک عجیب سا پراسرار سیاہ رنگ کامحل نما ایک گھر دیکھا۔ مجھے زوروں کی بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شائد مجھے اس گھر سے کھانے کی کوئی چیز مل جائے۔ میں اس گھر میں داخل ہوگیا۔ ہر طرف سکوت طاری تھا۔ ایک کمرے میں میں نے ایک نہایت بدصورت جادوگرنی کو دیکھا، وہ ایک پلنگ پر پڑی بے خبر سو رہی تھی۔ سامنے ایک اور کمرہ تھا جس کے دروازے پر جیل جیسی سلاخیں لگی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے کچھ بچے موجود تھے۔ سب بچے خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے۔ میں ان کے قریب گیا تو ان میں سے ایک بچے نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ “خدا کے لیے یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اگر جادوگرنی اٹھ گئی تو وہ تمہیں بھی ہمارے ساتھ قید کردے گی”۔
میں نے انھیں تسلی دی اور پوچھا کہ وہ لوگ کون ہیں اور یہاں کیسے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جادوگرنی ان بچوں کو پکڑ کر لے آتی ہے جو اپنی امی ابّا کو بتائے بغیر اپنے گھروں سے دور دور گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں۔ ہم بھی ایسے بچے تھے اس لیے اس نے ہمیں پکڑ لیا اور اپنے گھر لے آئ۔ یہ جادوگرنی ہم سے اپنے گھر کے سارے کام کرواتی ہے اور جب کام ختم ہوجاتے ہیں تو ہمیں اس کمرے میں بند کرکے باہر سے کنڈی لگا کر خود مزے سے سو جاتی ہے۔
ان بچوں کی کہانی سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اس جیل خانے کی کنڈی کھول کر سب بچوں کو آزاد کردیا اور ان سے کہا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر سیدھے اپنے گھر جائیں۔ میں نے انھیں یہ تاکید بھی کی کہ آئندہ وہ اپنے ماں باپ کو بتائے بغیر کہیں نہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کرلیا اور خوش خوش وہاں سے بھاگ گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں بھی وہاں سے نکلنے کے لیے پلٹا مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ جادوگرنی وہاں آگئی ہے۔ بچوں کو جیل میں نہ پا کر وہ سمجھ گئی کہ میں نے انھیں آزاد کردیا ہے۔ وہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگئی۔ اس نے اپنے دانت کٹکٹائے اور قہر بھری آواز میں بولی۔ “تو نے ان بچوں کو یہاں سے نکال کر مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ میں ان بچوں سے اپنے گھر کے سارے کام کرواتی تھی اب وہ تمام کام مجھے خود کرنا پڑیں گے۔ لڑکے تجھے اس حرکت کی سزا ضرور ملے گی۔ میں تجھے جادو کے زور سے بالکل چھوٹا سا بنا کر مٹر کے بیج میں بند کردوں گی۔ پھر اس بیج کو ایک ڈبیہ میں بند کر کے اپنے گھر سے باہر پھینک دوں گی۔ اگر تیری قسمت اچھی ہوئی تو کوئی اس بیج کو ڈبیہ میں سے نکال کر زمین میں بو دے گا۔ اس میں سے مٹر کا ایک پودا نکلے گا جس میں ایک پھلی لگی ہوگی اور اس پھلی میں تو گہری نیند سو رہا ہوگا۔ ہاں اگر کوئی نیک دل لڑکی تجھے پھلی سے نکال کر اخروٹ کا حلوہ بنا کر تجھے کھلائے گی تو تب ہی تو اپنی اصلی شکل میں آ سکے گا۔ جو لوگ مجھے تنگ کرتے ہیں اور غصہ دلاتے ہیں میں ان کو ایسی ہی عجیب و غریب اور انوکھی سزائیں دیتی ہوں”۔ یہ کہہ کر جادوگرنی نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکا پھر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا”۔
لالہ رخ دلاور کی کہانی بہت دلچسپی سے سن رہی تھی۔ کہانی ختم ہوئی تو وہ بولی۔ “دلاور۔ تم فکر مت کرو۔ میں تمہیں اخروٹ کا حلوہ بنا کر کھلاؤں گی تاکہ تم پر سے جادو کا اثر ختم ہوجائے۔ ویسے تمہاری دکھ بھری کہانی سن کر میرا دل بھر آیا ہے۔ تم نے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ اب اطمینان رکھو، تم ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہی رہنا۔ وہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی”۔
اس کے بعد وہ اٹھی، پہاڑ کے دامن میں اخروٹ کے درخت تھے۔ اس نے درختوں سے اخروٹ توڑے اور دلاور کے ساتھ واپس گھر آگئی۔ اس کی ماں نے کھانا تیار کر رکھا تھا مگر لالہ رخ کو ذرا سی بھی بھوک نہیں تھی۔ وہ تو یہ چاہ رہی تھی کہ جلد سے جلد اخروٹ کا حلوہ بنائے اور دلاور کو کھلادے ۔ اس نے دلاور کو زمین پر چھوڑ دیا تھا اور وہ باورچی خانے میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
لالہ رخ نے ایک چھوٹی سی ہنڈیا کو دھو دھا کر اس میں مکھن ڈال کر سوجی بھونی۔ پھر اس میں کشمش، پستے، کھوپرا اور پہاڑ پر سے لائے ہوئے اخروٹ ڈالے۔ حلوے کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں حلوہ تیار ہوگیا۔ لالہ رخ نے امرود کا ایک پتہ لیا اور اسے گول گول کاٹ کر ایک چھوٹی سی پلیٹ بنائی اور اس میں حلوہ ڈال کر اس پر چاندی کے ورق لگائے اور پلیٹ دلاور کے سامنے رکھ دی۔ گھر میں اتنا چھوٹا کوئی چمچ تو تھا نہیں کہ وہ اس سے حلوہ کھا سکے، اس لیے ماہ رخ نے امرود کے پتے کے موٹے ڈنٹھل سے ایک چھوٹا سا چمچ بھی بنا دیا تھا۔ دلاور نے اس چمچ سے حلوہ کھانا شروع کردیا۔ حلوہ بہت مزے کا تھا – دلاور نے ڈنٹھل والے چمچ میں تھوڑا سا حلوہ لے کر لالہ رخ کو بھی کھلانا چاہا۔ اس کی اس حرکت پر لالہ رخ ہنس پڑی اور بولی۔ “یہ میں نے تمہارے لیے بنایا ہے۔ تم ہی کھاؤ”۔
لالہ رخ کی ماں بھی وہیں بیٹھی تھی۔ لالہ رخ نے مسکرا کر اس سے کہا۔ “ماں۔ اب دلاور ٹھیک ہوجائے گا”۔
“خدا کرے ایسا ہی ہو۔ میں تو حیران ہوں کہ دنیا میں اتنے چھوٹے چھوٹے سے لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ میں تو ڈر رہی تھی کہ اسے مرغی ٹھونگ مار کر نہ کھا جائے یا بلی اسے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہ لے جائے”۔
لالہ رخ نے اپنی ماں کو دلاور کی پوری داستان شروع سے آخر تک سنا دی۔ اس کی ماں یہ تمام باتیں سن کر دنگ رہ گئی اور دلاور کی سوتیلی ماں، ظالم باپ اور جادوگرنی کو برا بھلا کہنے لگی۔ اچانک وہ دونوں چونک گئیں۔ کھلی کھڑکی سے دھنک کے سات رنگوں کی روشنی اندر آنے لگی اور دلاور کو اپنے حصار میں لے کر اس کے گرد چکر کاٹنے لگی۔ یہ روشنی اتنی تیز تھی کہ لالہ رخ اور اس کی ماں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ جب روشنی کے تین چکر پورے ہوگئے تو اس روشنی میں سے سترہ اٹھارہ سال کا ایک نہایت حسین و جمیل لمبے قد کا نوجوان لڑکا برآمد ہوا اور اس کے ساتھ ہی رنگ برنگی روشنی غائب ہوگئی۔ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “لالہ رخ۔ میں دلاور ہوں۔ مجھ پر سے جادو کا اثر ختم ہوگیا ہے”۔
لالہ رخ یہ سن کر خوش ہوگئی۔ اس کی ماں بھی حیرت بھری نظروں سے دلاور کو دیکھے جا رہی تھی۔ وہ کسی شہزادے کی طرح خوبصورت تھا۔ اتنی دیر میں کسان بھی دوپہر کا کھانا کھانے گھر آگیا۔ اس نے دلاور کو دیکھا تو اپنی بیوی سے اس کے متعلق پوچھا۔ اس کی بیوی نے ساری کہانی اسے بھی سنا دی۔ کسان کو جب تمام باتیں پتہ چلیں تو وہ بہت حیران ہوا۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اب دلاور ان کے ساتھ ہی رہے گا۔ وہ بھی بخوشی راضی ہوگیا۔
جب کسان دوبارہ کھیتوں پر چلا گیا تو دلاور، لالہ رخ اور اس کی ماں تینوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔ دلاور نے لالہ رخ کی ماں سے کہا۔ “بس اب تو میرے دل میں ایک ہی خوف ہے”۔
لالہ رخ اور اس کی ماں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ جب اس نے مزید کچھ نہیں کہا تو لالہ رخ کی ماں نے پوچھا۔ “دلاور بیٹا۔ کیسا خوف؟”۔
“یہ ہی کہ آپ اپنی بات نہ بھول جائیں”۔ دلاور نے جھوٹ موٹ کی اداسی سے کہا۔
“کونسی بات؟”۔ لالہ رخ کی ماں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ ہی بات جو آپ نے آج صبح کی تھی کہ اگر یہ بڑا ہوتا تو میں اس کی شادی لالہ رخ سے کردیتی”۔
لالہ رخ تو یہ سن کر شرما گئی مگر اس کی ماں ہنس کر بولی۔ “جب میں نے ایک بات کہہ دی تو کہہ دی۔ میں اسے کیوں کر بھولوں گی”۔
تھوڑے دنوں بعد دلاور اور لالہ رخ کی شادی ہوگئی۔ دلاور اب گھر بار والا ہوگیا تھا۔ اس کو گھر چلانے کے لیے کوئی کام تو کرنا ہی تھا اس لیے وہ کسان کے ساتھ کھیتوں پر جانے لگا۔ وہ بہت محنتی اور جفاکش لڑکا تھا۔ وہ کھیتوں پر صبح سے شام تک کام کرتا۔ پہلے کسان اپنے کھیتوں میں سبزیاں وغیرہ ہی اگاتا تھا مگر دلاور نے گندم، گنّا، جو، باجرہ اور مختلف قسموں کی دوسری فصلیں بھی اگانا شروع کردی تھیں جن کو بیچ کر کسان کو بہت سارے پیسے ملنے لگے۔ اتنے پیسے تو اس نے زندگی بھر نہیں کمائے تھے۔ ان پیسوں کو جمع کر کر کے تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے ایک بڑا سا گھر بھی بنا لیا اور پھر سب ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.