بہترین دوست
شہزاد صاحب اپنی بیوی، بچوں، ماں اور بھائی کے ساتھ مسلم ٹاؤن میں ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، عادل، ریحان اور سونیا۔ تینوں بچے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ ان میں یہ بڑی اچھی بات تھی کہ انھیں پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور وہ نہایت پابندی سے اسکول جایا کرتے تھے۔
تینوں بچے اپنی دادی اماں سے بہت مانوس تھے۔ ان کے بغیر انھیں ایک پل بھی چین نہیں آتا تھا۔ دادی اماں بھی ان پر جان چھڑکتی تھیں۔ وہ اسکول چلے جاتے تو وہ بے چینی سے ان کا انتظار کیا کرتیں اور دوپہر کا کھانا اس وقت تک نہیں کھاتی تھیں، جب تک تینوں بچے اسکول سے واپس نہیں آجاتے تھے۔
شام کو جب سب بچے اسکول کا کام ختم کر لیتے اور رات کا کھانا کھالیتے تو دادی اماں کے پاس پہنچ جاتے۔ انھیں ادب سے سلام کرتے اور ان کے بستر پر چڑھ کر انھیں گھیر کر بیٹھ جاتے۔ دادی اماں ان سے سارے دن کی مصروفیات کے بارے میں پوچھتیں، کسی کو اگر نصیحت کرنے کی ضرورت پڑ جاتی تو بڑے پیار سے اس کو سمجھاتیں۔ اس کے بعد کہانی سنانے کی باری آجاتی۔
سب بچوں کو دادی اماں سے کہانی سننے میں برا مزہ آتا تھا۔ کہانی ختم ہوجاتی تو سب بچے سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ دادی اماں کو کتابیں پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ جب ان کے دونوں بیٹے چھوٹے تھے تو وہ پابندی سے ان کو کہانیوں کی کتابیں اور رسالے دلواتی تھیں۔ اس زمانے میں فیروز سنز، شیخ غلام علی اینڈ سنز اور مکتبہ القریش کی کتابیں بچوں میں بڑی مقبول ہوا کرتی تھیں۔
ان کے کمرے میں ایک لکڑی کی الماری بھی تھی جس میں سینکڑوں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ان میں وہ کتابیں بھی شامل تھیں جو اسکول کے زمانے میں ان کے دونوں بیٹے پڑھا کرتے تھے۔
زندگی بڑی پرسکون طریقے سے گزر رہی تھی کہ ایک روز دفتر کی جانب سے شہزاد صاحب کو ایک لیٹر مل گیا جس کے تحت ان کا تبادلہ خوش حال نگر نامی شہر میں کردیا گیا تھا۔ نوکری تو نام ہی احکامات پر عمل کرنے کا ہے۔ شہزاد صاحب اپنا شہر چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے، مگر ان کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ انھیں حکم کی تعمیل کرنا تھی ۔ وہ بیوی بچوں کو لے کر نئے شہر میں آگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تبادلے کی وجہ سے ان کے ساتھ ساتھ ان کے بیوی بچوں کا دل بھی بہت اداس ہوگیا تھا۔
ایک اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ آفس کی طرف سے انھیں یہاں ایک شاندار سا گھر اور استعمال کے لیے گاڑی مل گئی تھی۔ عادل، ریحان اور سونیا شروع شروع میں تو نئے شہر آ کر بہت گھبرائے۔ یہاں پر نہ ان کا کوئی دوست تھا اور نہ کوئی رشتے دار۔ مگر جب ان کے اسکولوں میں داخلے ہوگئے تو ان کی دوستی اپنے ہم عمر ساتھیوں سے ہوگئی۔ تین چار دوست ان کے محلے میں بھی بن گئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے دل سے اپنے پرانے دوستوں اور شہر کی محبت ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے انتظار میں تھے تاکہ ان چھٹیوں میں وہاں جاسکیں۔
شہزاد صاحب ایک موبائل کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی مصروفیات اتنی بڑھی ہوئی تھیں کہ شاذ و نادر ہی انھیں چھٹی کرنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ ان کی مجبوری تھی کہ وہ دس پندرہ دن کی چھٹی لے کر اپنی ماں اور بھائی سے ملنے نہیں جا سکتے تھے۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ اپنے بھائی فرہاد کو فون کردیا کہ وہ اپنی بیوی اور اماں کو لے کر ان سے ملنے آجائے۔
ان کے بھائی کو بھی آفس سے چھٹی نہیں ملی، اس نے معذرت کرلی کہ وہ پھر کبھی آ جائے گا، اماں کو البتہ اس نے ٹرین میں بیٹھا کر روانہ کر دیا تھا تاکہ ان سے مل کر بچے خوش ہوجائیں۔ چونکہ بس کا سفر اتنا آرام دہ نہیں ہوتا اس لیے وہ ٹرین سے آ رہی تھیں۔
جس روز انھیں آنا تھا تو سارے گھر والے انھیں اسٹیشن پر لینے گئے۔ اسٹیشن پر سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوۓ اور خوشی خوشی گھر آگئے۔ رات کو کھانے کے بعد وہ سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ شہزاد صاحب بھی اپنی ماں کے آجانے سے بہت خوش تھے اور ان ہی کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے۔ اچانک دادی اماں نے شہزاد صاحب سے پوچھا ۔ “بیٹے تم نے گھر میں اخبار کونسا لگوا رکھا ہے؟”۔
اس سوال سے شہزاد صاحب گھبرا سے گئے۔ “اخبار تو کوئی سا نہیں لگوایا ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو نیٹ پر پڑھ لیتے ہیں”۔
دادی اماں کے چہرے کے تاثرات سے یوں معلوم ہوا کہ انھیں شہزاد صاحب کا جواب پسند نہیں آیا ہے۔ وہ خاموش ہوگئیں۔ شہزاد صاحب بھانپ گئے کہ اماں کچھ ناراض ہوگئی ہیں۔ بات بنانے کو بولے۔ “آپ کہیں تو ہم کل سے اخبار لگوا لیں؟”
“ہر کام میرے کہنے سے ہی کرو گے۔ کیا تمہیں خود احساس نہیں ہے کہ اخبار کتنا اہم ہوتا ہے۔ معلوم ہے بچوں کو مطالعہ کی عادت اخبار پڑھنے سے ہی لگتی ہے۔ اس بات کو بھول گئے کہ تمہارے ابّا نے گھر میں دو دو اخبار لگوا رکھے تھے، تم اور فرہاد چھوٹے چھوٹے تھے، دونوں کس مزے سے بچوں کے صفحے پڑھتے تھے۔ ٹارزن کی کہانی کی اگلی قسط کا کیسے انتظار کرتے تھے۔ اور تو اور تم دونوں بھائی ان اخباروں میں سے چپکے چپکے فلمی اشتہار بھی دیکھا کرتے تھے”۔
شہزاد صاحب کو دادی اماں نے اس انداز میں ڈانٹا تو بچے مسکرانے لگے۔ ریحان کو تو اتنا مزہ آیا کہ اس نے دادی اماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ دادی اماں نے اسے ایک طرف ہٹاتے ہوۓ کہا ۔ “میری تو سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تم لوگوں کی پڑھائی لکھائی کا فائدہ کیا ہے۔ تمہیں اخبار کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ تم لوگوں نے بچوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں وقت سے پہلے ہی موبائل تھما دیے ہیں۔ انھیں کارٹونوں کے بارے میں تو بہت معلومات ہونگی، دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہونگے، جانیں گے بھی کیسے، اخبار ہی نہیں پڑھتے”۔
شہزاد صاحب اور ان کی بیوی رخسار دادی اماں کی باتوں سے شرمساری محسوس کر رہے تھے۔ دادی اماں واقعی ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ دونوں میاں بیوی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ اپنی مصروفیات میں لگ کر انھیں اخبارات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں رہا تھا۔ دادی اماں کی باتوں سے انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ گھر میں اخبارات آتے رہیں تو بچے بھی انہیں پڑھتے ہیں جس سے لاشعوری طور پر ان کی معلومات میں کافی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
دادی اماں نے ان کی شرمندگی محسوس کرلی تھی۔ موضوع بدلنے کی خاطر انہوں نے عادل، ریحان اور سونیا کی طرف رخ کیا اور بولیں۔ “اچھا بچو۔ تم ضرور کہانی سننے کی فرمائش کرو گے اس لیے کوئی سی کہانی کی کتاب لے آؤ، میں تمہیں اس میں سے کہانی سناؤں گی۔ میری یاداشت پہلے جیسی تو رہی نہیں ہے، اب زبانی کہانی نہیں سنائی جاتی”۔
ان کی بات سن کر بچے پریشان ہوگئے۔ عادل نے کہا ۔ “لیکن دادی اماں ہمارے پاس تو کوئی کہانی کی کتاب ہے ہی نہیں”۔
یہ سن کر دادی اماں حیران رہ گئیں۔ “کیا کہا۔ تمہارے پاس کہانی کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہوتا تو میں گھر سے چند کتابیں اٹھا لاتی۔ اب میں یہاں کیا کروں گی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہوں گی”۔
اب شرمندہ ہونے کی باری رخسار کی تھی۔ اس نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔ “اماں۔ یہ میری غلطی ہے۔ میں نے کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر بچوں کو شوق ہوگا تو یہ لوگ اپنے موبائلوں میں ہی کہانیاں پڑھ لیں گے۔ انہوں نے بھی کبھی ضد نہیں کی کہ انہیں کتابیں دلائی جائیں۔ فرصت ہو تو یہ تینوں موبائلوں میں ہی لگے رہتے ہیں”۔
“خدا جانے ہم کہاں جا رہے ہیں۔ موبائلوں نے تو بچوں اور بڑوں کو ہر چیز سے دور کردیا ہے۔ لیکن یہ بات تم سب کان کھول کر سن لو کہ کتابوں سے دوستی سب سے اچھی دوستی ہوتی ہے، انسان ادھر ادھر کی فالتو مصروفیات سے بھی بچ جاتا ہے اور انہیں پڑھ کر طرح طرح کی کام کی باتیں بھی سیکھتا رہتا ہے ۔ یہ کتابیں ہی تو ہیں جن کی وجہ سے ہمیں دین اور دنیا کی تمام باتیں پتہ چلتی ہیں۔ ان سے دور رہیں گے تو پھر ہماری مثال ٹہرے ہوۓ پانی کی سی ہوجائے گی جو کسی کام کا نہیں رہتا، ایک ہی جگہ رکے رکے کیچڑ بن جاتا ہے”۔
رخسار بولی ۔ “اماں آج آپ نے ہمیں بہت کام کی باتیں بتائی ہیں جنہیں ہم نے اپنی غفلت کی وجہ سے فراموش کردیا تھا۔ کتابیں ہمارے دماغ کے دریچے کھولتی ہیں، اسے وسعت بخشتی ہیں۔ ان کو پڑھ پڑھ کر ہی تو لوگوں نے ہزاروں لاکھوں چیزیں ایجاد کی ہیں، جن کی وجہ سے پوری دنیا کے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں نے تو تہیہ کر لیا ہے کہ جب بھی بازار جایا کرونگی بچوں کے لیے کتابیں ضرور خریدا کروں گی”۔
دادی اماں خوش ہوگئیں۔ پھر انہوں نے سب کو “چل میرے کدو چلم چل” والی کہانی سنائی۔ اس کہانی کو سن کر سب سے زیادہ مزہ شہزاد صاحب کو آیا۔ وہ جب چھوٹے تھے تو گرمیوں کی دوپہر میں وہ اکثر ان کو یہ ہی کہانی سناتی تھیں۔
اگلے روز صبح کے وقت دادی اماں چہل قدمی کے لیے لان میں گئیں تو تھوڑی دیر بعد ایک اخبار گیٹ کے قریب گھاس پر آ کر گرا۔ شہزاد صاحب نے آفس جاتے ہوےٴ اخبار والے سے کہہ دیا تھا کہ وہ ہر روز ان کے گھر اخبار ڈال جایا کرے۔
دوپہر کو رخسار ان کے پاس آئ۔ “اماں میں بچوں کے ساتھ بازار جا رہی ہوں، آپ چلیں گی؟”۔
دادی اماں نے کہا ۔ “میں تو کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہی ہوں۔ تم لوگ جاؤ، میں پھر کبھی چلوں گی”۔
جب وہ لوگ بازار سے واپس آئے تو بچوں کے ہاتھوں میں کہانیوں کی کتابوں کے بنڈل تھے۔ وہ کتابیں انہوں نے دادی اماں کو دکھائیں تو وہ بہت خوش ہوئیں۔
“دادی اماں۔ اب ہم پابندی سے کتابیں خریدا کریں گے اور انھیں پڑھا کریں گے”۔ سونیا نے کہا۔
دادی اماں نے بچوں کو شاباش دی۔ پھر وہ بچوں کے ساتھ مل کر ان کتابوں کو قرینے سے الماری میں لگانے لگیں۔ کتابوں کو الماری میں لگاتے لگاتے وہ بولیں۔ “خزانہ صرف ہیرے جواہرات کا ہی نہیں ہوتا، کتابوں کا بھی ہوتا ہے اور کتابوں کا خزانہ روپے، پیسے، سونے چاندی کے خزانوں سے زیادہ مفید اور قیمتی ہوتا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ آج تم بھی اس خزانے کے مالک بن گئے ہو”۔
“دادی اماں۔ ہم یہ کتابیں اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیں گے۔ میں ایک رجسٹر بنالوں گا، جس دوست کو کتاب دوں گا، اس رجسٹر میں اس کا نام لکھ لیا کروں گا۔ اس سے مجھے یاد رہے گا کہ کس دوست کو کونسی کتاب دی ہے”۔ ریحان نے کہا۔
اس کی بات سن کر دادی اماں بہت خوش ہوئیں۔ ایک ماہ بعد دادی اماں واپس چلی گئیں۔ وہ اس بات سے بہت خوش تھیں کہ ان کے جانے کے بعد بچے اس بات سے پریشان نہیں ہونگے کہ انھیں کہانی کون سنائے گا۔ ان کے پاس بہت سی کتابیں ہوگئی تھیں۔
سونے سے پہلے وہ تینوں ہاتھوں میں کتابیں لے کر بستروں میں گھس جاتے اور کہانی پڑھتے پڑھتے سوجاتے تھے۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی تھی کہ ان کی دوستی کتابوں سے ہوئی تو موبائلوں سے وہ خود بخود دور ہوتے چلے گئے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.