ایک محلے میں دو ہمسائے پاس پاس رہتے تھے۔ ایک بڑا لڑاکا تھا اور دوسرا دھیما اور دانا۔
دانا کے یہاں کچھ مرغیاں پلی ہوئی تھیں مگر اس بات کا وہ ہمیشہ خیال رکھتا۔ کہ ہمسایوں کو تکلیف نہ ہو۔ باہر جاتے وقت مرغیوں کو دانہ پانی دے کر بند کر جاتا اور جب گھر آتا تو کھول دیا کرتا تھا۔
ایک دن یہ گھر میں موجود نہ تھا کہ کسی طرح مرغیاں کھانچے سے باہر نکل آئیں اور انہوں نے لڑاکے ہمسائے کے گھر جا کر کہیں بیٹ کر دی۔ کہیں زمین کھود کھود کر گڑھے ڈال دیے۔ غرض ہر جگہ کوڑا کرکٹ پھیلا دیا۔
لڑاکے نے دیکھا تو مارے غصے کے بیسیوں ہی گالیاں دیں اور غصے میں ایک مرغی کی گردن بھی مروڑ ڈالی۔
یہ غصے میں بھرا ہوا ابھی بک ہی رہا تھا کہ دانا بھی آ پہنچا۔ جس سے گھر والوں نے شکایت کی کہ اس ہمسائے نے ناحق گالیاں دے کر اتنا شور مچا رکھا ہے۔ ذرا جا کر پوچھو تو سہی۔ اگر جانور آپ سے آپ نکل گئے تو ہمارا کیا قصور؟‘‘
عقلمند نے سوچا کہ ایسے لڑاکے سے سمجھداری کی امید فضول ہے اور ایسی ذرا ذرا سی بات پر ہمسائے سے دشمنی رکھنا بھی حماقت۔ دانائی یہ ہے کہ اس کی درستی کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ سوچ کر وہ ہمسائے کے گھر گیا اور نرمی سے کہا۔ ’’آج کسی طرح آپ سے آپ مرغیاں نکل گئیں تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے آپ کو دق کیا۔ لائیے میں صحن میں جھاڑو دے دوں۔ اور کچھ نقصان ہوا ہو۔ تو وہ بھی پورا کر دوں۔‘‘
دانا کی ان ملائم باتوں نے لڑاکے کے دل پر بڑا اثر کیا کیونکہ اسے تو ایک مرغی کا گلا گھونٹ دینے سے ہمسائے کی طرف سے لڑائی جھگڑے کا اندیشہ تھا۔ اس نے فوراً دانا سے معافی مانگی اور پھر کبھی ایسی حرکت نہ کی جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.