Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چالاک چوہے کی سرگزشت

جاوید بسام

چالاک چوہے کی سرگزشت

جاوید بسام

MORE BYجاوید بسام

    جنگل میں گھنے درختوں کے درمیان چھوٹے بڑے بےشمار ٹیلے تھے۔ ان پر جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ ان ٹیلوں پر کچھ دنوں سے ہلچل دکھائی دے رہی تھی۔ وہ جنگلی چوہوں کی ایک ٹولی تھی جو ان میں اپنے بل بنا رہی تھی۔ چند ہی دنوں میں انہوں نے تمام ٹیلوں کو کھود ڈالا ان میں جابجا سوراخ بنے نظر آ رہے تھے اور وہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے چوہے مزے سے وہاں رہنے لگے۔ کچھ ہی دنوں میں ان کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ جب دیکھو وہ ٹیلوں پر بھاگتے دوڑتے اور کھیلتے نظر آتے تھے۔ جب اتنا آسان شکار اتنے قریب موجود ہو تو شکاری جانور ضرور متوجہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ بہت سے جانور ان کی تاک میں لگ گئے۔

    جنگلی چوہے بڑےاور موٹے تازے ہوتے ہیں لہذا کتے اکثر ان کی ضیافت اڑانے وہاں آ نکلتے، کچھ دور ایک پہاڑی پر چیلوں کا بسیرا تھا وہ بھی وہاں غوطے کھاتے نظر آتے تھے۔ سانپوں کو بھی اب دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بھی رینگتے، بل کھاتے، وہاں موجود ہوتے۔ ایک چالاک لومڑی بھی وہاں آنکلی تھی، بلکہ اس نے تو وہیں ڈیرہ ڈال لیا جب دیکھو وہ اپنا لمبا منہ بلوں میں گھسیڑے چوہے پکڑتی نظر آتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ شکار کرتی اور انہیں مختلف جگہوں پر چھپا دیتی۔ یہ اس کی سردی کے موسم کے لئے منصوبہ بندی تھی جب شکار بمشکل مل پاتا تھا۔

    تمام چوہے اس صورتحال سے پریشان تھے، لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں تھا۔ ان چوہوں میں ایک چوہا بہت ہوشیار اور نٹ کھٹ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے کام کرنا پسند کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے داستان موش (چوہوں کی داستان) بھی زبانی یاد تھی۔ جسے سنا کر وہ دوسرے بڑے بوڑھے چوہوں کو حیران کر دیا کرتا تھا۔ داستان موش میں وہ نئے اور پرانے قصے ملتے تھے جو وقتاً فوقتاً چوہوں کی قوم کے ساتھ پیش آتے رہے تھے لیکن ان دنوں وہ بھی پریشان رہتا۔

    ایک دن وہ خوراک کی تلاش میں باہر گھوم رہا تھا کہ اسے خطرے کا احساس ہوا، اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی، لیکن کوئی شکاری جانور نظر نہیں آیا، پھراچانک اوپر کسی چیز کا سایہ محسوس ہوا۔ وہ بجلی کی تیمی سے دوڑا اور قریب ترین بل میں جا گھسا۔ وہ چیل تھی جو مٹی اڑاتی اس کے بل پر آ بیٹھی تھی۔ چوہے کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، لیکن وہ محفوظ رہا تھا اور ایک دفعہ کی بات ہے کہ لومڑی اس کے پیچھے لگ گئی۔ وہ تیمی سے بھاگا۔ بل دور تھا اور لومڑی اس سے تیز دوڑتی تھی، اسے اپنا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا تھا لیکن اچانک کہیں سے ایک دوسرا چوہا بھاگتا ہوا ان کے درمیان آ گیا۔ لومڑی دور کے شکار کو چھوڑ کر قریب والے پر جھپٹ پڑی اور اس طرح اس کی جان بچی۔ اب وہ بہت احتیاط سے کام لیتا، بلاضرورت کبھی باہر نہیں نکلتا لیکن آخر کب تک بھوک سے مجبور ہو کر تو باہر جانا ہی پڑتا تھا۔

    ایک دن وہ خوراک کی تلاش میں نکلا تو قریب ہی اسے ایک مرا ہوا ٹڈا پڑا مل گیا۔ اس نے جلدی سے ٹڈے کو بل میں پہنچایا پھر اسے لالچ ہوا کہ اس وقت کوئی شکاری جانور قریب نہیں ہے اور بھی خوراک تلاش کر لیتا ہوں۔ وہ دوبارہ گیا اور دور نکل گیا۔ اسے کھانے کی کوئی چیز تو نہیں ملی البتہ ایک مرا ہوا سیہہ پڑا ہوا نظر آیا۔ اس کا جسم گل چکا تھا لیکن کھال سوکھ کر الگ پڑی تھی۔ اچانک چوہے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے کھال اٹھائی اس پر کانٹے موجود تھے۔ چوہے نے اسے اپنے اوپر ڈالا وہ ایک جیکٹ کی طرح اس کے جسم پر فٹ بیٹھ گئی اس نے چل کر دیکھا اور تصور میں خود کو کانٹوں وال سیہہ محسوس کیا وہ مسکرانے لگا۔ اس کے ہاتھ ایک زبردست چیز لگ گئی تھی۔ وہ اسے اپنے بل میں لے آیا۔ سیہہ کے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں اسے کانٹوں والا چوہا بھی کہا جاتا ہے شکاری جانور کوشش کے باوجود اس کو شکار نہیں کر پاتے۔ قدرت نے اسے اپنی حفاظت کے لیے ایک انمول ہتھیار دے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ شیر اور چیتے بھی اس سے دور رہتے ہیں۔ اب چالاک چوہا جب بھی باہر نکلتا وہ کھال پہن لیتا اور مزے سے گھومتا رہتا۔ شکاری جانور اس پر توجہ نہ دیتے، لیکن ایک دن لومڑی نے اسے چوہا سمجھا اور اس کے پیچھے ایک آئی، قریب آ کر وہ رک گئی۔ وہ اس کے اردگرد گھوم رہی تھی۔ چوہا ڈر رہا تھا کہ کہیں چالاک لومڑی اسے پہچان نہ لے لیکن پھر وہ آگے بڑھ گئی۔

    دن یونہی گزرتے رہے۔ چوہے کے ساتھ ایک ایک کر کے شکار ہوتے گئے اب ان کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی۔ لیکن شکاری جانور بدستور وہاں موجود تھے۔ خطرہ بڑھتا جا رہا تھا آخر چالاک چوہے نے فیصلہ کیا کہ اسے اب یہ علاقہ چھوڑ کر کسی اور طرف نکل جانا چاہئے۔ ایک دن اس نے اپنی کانٹوں بھری زردہ بکتر پہنی جو اسے بہت دنوں سے شکاریوں سے بچاتی آئی تھی اور روانہ ہو گیا۔ وہ پگڈنڈی پر آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے جنگل کا بادشاہ شیر چلا آیا۔ اسے دیکھ کر چوہے کی تو جان ہی نکل گئی۔ شیر اس کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گیا۔ وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا اس کی موٹی دم بل کھا رہی تھی۔ دونوں پگڈنڈی پرآمنےسامنے کھرے تھے۔ شیر چوہے کے بہت قریب چلا آیا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے غرا رہا تھا۔ ایک دفعہ تو اس نے پنجہ ہوا میں گھمایا جو چوہے کی آنکھوں کے آگے سے گزرا۔ چوہے کی خوف سے اتنی بری حالت تھی کہ وہ شیر کے راستے پر ہٹنا بھی بھول چکا تھا۔ تھوڑی دیر تک دونوں اسی طرح کھڑے رہے پھر شیر نے ادھر ادھر دیکھا اور غیر محسوس انداز میں چوہے کے راستے سے ہٹ گیا۔ اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ آس پاس کوئی جانور انہیں دیکھ تو نہیں رہا۔ وہ دم ہلاتا ہوا جھاڑیوں میں جا گھسا اور چوہا سیہہ کے بھیس میں اپنے راستے پر ہو لیا۔

    جنگل کی ہزاروں سال پرانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک شیر نے چوہے کے لئے راستہ چھوڑ دیا تھا۔ چوہا چلتا رہا آخر ایسے علاقے میں جا پہنچا جہاں شکاری جانور نہیں تھے۔ اس نے اپنی زرہ بکتر اتار پھینکی۔ جلد ہی سے کچھ چوہے نظر آ گئے۔ چالاک چوہا ان سے جا ملا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔ یوں ایک معمولی سے چوہے نے اپنی دانائی اور ہمت سے کام لے کر بڑے شکاری جانوروں کو دھوکا دیا اور اپنی مندگی بچانے میں کامیاب رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے