Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چچا کی لاٹری نکلی

ہاشم عظیم آبادی

چچا کی لاٹری نکلی

ہاشم عظیم آبادی

MORE BYہاشم عظیم آبادی

    چچا الاپتے ہوئے حویلی میں داخل ہوئے بیگم ضرور لاٹری نکلےگی میرے نام آمین تم کہو، میں خدا سے دعا کروں چچا کی الاپ سن کر چچی نے پوچھا ’’یہ لاٹری نگوڑی کون ہے بنو کے ابا جس کے فراق میں آپ اس طرح گلا پھاڑ رہے ہیں؟‘‘

    چچا سر میں تھے۔ وہیں کھٹولے پر بیٹھ کر بولے ’’یہ بھی خوب رہی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ لوگ چاند اور مریخ پر دھاوا بول رہے ہیں اور یہ حوا کی بیٹی ایسی ہیں کہ یہ بھی خبر نہیں کہ لاٹری کس چڑیا کا نام ہے حد ہوگئی جہالت کی۔ واللہ!‘‘

    ’’لیکن سنئے تو‘‘ چچی بھنا کربولیں’’میں تو خیر جاہل ہوں لیکن آپ نے قابل ہو کر کون سا کارنامہ دکھلایا ہے۔ دور کیوں جائیے، آپ کا انگر کھا تک تو درست نہیں اور یہ خود میری جوتی کی کیا حالت ہو رہی ہے۔ تین شبرات تو کاٹ چکی۔ تلی تک گھس کے پانی ہو چکی۔۔۔ میں کہتی ہوں اگر افیون خوری، بٹیر بازی، کبوتر بازی اور پتنگ بازی کے بدلے ذرا ہاتھ پاؤں چلائے ہوتے تو یہ برے دن کاہے کو دیکھنے میں آتے۔‘‘

    ’’آہا‘‘ چچا جلدی سے بولے ’’اب اس برے دن کو ہمیشہ کے لئے رخصت ہی سمجھو۔ بہت جلد اچھے دن آرہے ہیں اپنی قسم! ادھر لاٹری نکلی نہیں کہ سارا دلدر پار اور پانچوں انگلیاں گھی میں۔‘‘

    ’’ایسا بھی کیا‘‘ چچی بولیں ’’تب تو یہ لاٹری نگوڑی جادوئی چھڑی ہے گویا۔‘‘

    ’’اجی‘‘ چچا بولے ’’جادونی چھری سے بھی بڑھ کر ہے بنو کی ماں۔۔۔ اور یہ تو تم سن ہی چکی ہو کہ اسی لاٹری کے چلتے ررمضنیا کا بیٹا راتوں رات رات لکھ پتی بن گیا۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ جب رمضنیاشبرتیا جیسے کم ظرف کو لاٹری نکل سکتی ہے تو کیا میرے ایسے نجیب الطرفین کو لاٹری نہ نکلے گی بھلا۔ یہ اور بات ہے کہ آنکھوں پر پردہ پڑا رہا جو لاٹری لگانے کا کبھی خیال ہی نہ آیا۔ بس پندرہ روز کے اندر دو لاکھ روپے گن کر مجھ سے لے لو۔‘‘

    ’’لیکن پھر بھی’’ چچی ناک پر انگلی رکھ کر بولیں ’’میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کون ایسا احمق ہے جو لاکھوں روپے اس آسانی سے دے دےگا اور وہ بھی آپ کے ایسے افیون خور کو‘‘۔

    چچی کے اس طنز پر چچا کے جذبات کو ایسی ٹھیس لگی کہ چلے تھوتھنا لٹکائے ہوئے اپنی بیٹھک کی طرف۔معاً چچی کو احساس ہوا کہ خواہ کچھ بھی ہو انھیں چچا کو افیون خور نہیں کہنا چاہئے تھا۔ دوڑیں ننگے پاؤں۔ مگر جب تک بیٹھک میں داخل ہو چکے تھے۔

    بیٹھک میں لاٹری کے بارے ہی میں تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ چچا کے پڑوسی شبن خاں بھی موجود تھے۔ انہیں کے ذریعے یہ خبر موذن صاحب، پیش امام صاحب، منشی جی اور مختار صاحب سے ہوتی ہوئی پورے محلے میں پھیل گئی کہ چچا لاٹری لگانے والے ہیں۔

    چچا کو پورا یقین تھا کہ لاٹری ان کے نام ضرور نکلےگی اس لئے وہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی خبر ہو جائے کہ چچا لاٹری خریدنے جا رہے ہیں۔ جب محلے کے سیکڑوں لوگ گلی میں جمع ہو گئے تو چچا ایک جلوہ کی شکل میں لاٹری کی ٹکٹ خریدنے کےلئے روانہ ہوئے۔ اب مرحلہ یہ درپیش ہوا کہ چچا ٹکٹ خریدیں تو کس سیریز کی۔ ہینگن، کلن اور چھٹن کے علاوہ اور لوگوں کی بھی یہ رائے تھی کہ چچا ہر سیریز کی ایک ایک ٹکٹ خرید لیں۔ لیکن چچا کہتے تھے کہ جب یہ تسلیم شدہ ہے کہ لاٹری میرے نام سے آنی ہی ہے تو ایک سے زیادہ ٹکٹیں خریدنی حماقت اور فضول خرچی نہیں تو کیا ہے۔ اگر یہی پیسے افیون میں اٹھیں تو حق بھی لگے۔

    جب اس محبت نے بہت طول پکڑا تو چچا نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو میں اس معاملے کو بذریعہ استخارہ طے کرنے کی کوشش کروں، تاکہ آپ لوگوں کو مزید زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ چچا کے اشارہ کرنے پر جب ہر طرف خاموشی چھا گئی تو آنکھ بند کر کے استخارہ دیکھنے کے بعد چچا چہک کر بولے ’’یارو، بس ایک ہی ٹکٹ بی سیریز کی خریدی جائے۔‘‘ چچا نے بٹوا کھول کر ایک روپیہ ٹکٹ کے لئے بڑھایا۔ دوکاندار نے تالیوں کی گونج میں لاٹری کی ایک ٹکٹ چچا کے حوالے کی جس کا نمبر محلے کے قریب قریب سب لوگوں نے نوٹ کر لیا۔

    ٹکٹ لے کر چچا شان سے اکڑتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوئے جیسے دو لاکھ روپوں کی تھیلی اپنے ساتھ لئے جارہے ہوں۔ گھر پہنچ کر چچا کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ دو لاکھ مالیت کی ٹکٹ بحفاظت تمام رکھیں تو کہاں۔ چچا اسے اپنی پپیا میں رکھنا غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ ہینگن، کلن اور چھٹن پر بھروسا نہ تھا اور چچی کو بی سپرد نہ کر سکتے تھے کیوں کہ بقول چچا ان کا کیا بھروسہ۔ کس وقت غصے میں آکر ٹکٹ کو چولھے میں جھونک دیں۔ آخرش بہت غور و فکر کے بعد لاٹری کی ٹکٹ چچی کے سنگاردان میں خوب اچھی طرح چسپاں کر کے چچا نے اطمینان کا سانس لیا۔

    اب صورت حال یہ تھی کہ چچا ہر وقت سنگار دان کے پاس کھڑے آئینے میں اپنا منھ دیکھ رہے ہیں یا لاٹری کی ٹکٹ پر نظر ہے کبوتروں کو دانا دینا، بٹیر لڑانا اور طوطی کو سبق پڑھانا تو بھول ہی گئے تھے۔

    چچا چچی کو باورچی خانے میں دیکھ کر ان کے پاس ہی پیڑھا لے کر بیٹھ جاتے اور وہ وہ ہوائی قلعے بناتے کہ چچی عاجز آ جاتیں۔ چچا کہتے ’’بنو کی اماں لاٹری کے دو لاکھ روپے میرے ہاتھ میں آئے نہیں کہ تمہارے لئے ایک شاندار بنگلہ بنوا دوں گا اور اس کلی میں سنگ مر مر نہ بچھوا دیا۔ تو میرا نام بدل دینا۔ یہ محلے والے بھی کیا یاد کریں گے۔‘‘

    چچا کی بکواس اور ہوائی قلعے بنانے کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ لاٹری ککھلنے کا دن آ گیا۔ اس روز چچا کی مسرت کی انتہا نہ تھی پورے گھر کی صفائی کی گئی، بینڈ بجانے والے بلوائے گئے۔ بڑے بڑے شاندار پھاٹک تیار ہوئے، ہر رنگ کی جھنڈیاں اور قمقمے لگائے گئے بیٹھک میں قوالوں نے قوالی شروع کی اور حویلی کے اندر مراثنوں نے ڈھولک سنبھالا۔ چچا مارے خوشی کے اندر باہر ایک کئے ہوئے تھے۔

    یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ محلے کا ایک منچلا طالب علم دوڑتا ہوا آیا اور ہانپتے ہوئے چچا سے بولا۔

    ’’مبارک ہو میر صاحب۔ دو لاکھ کی لاٹری آپ ہی کے نام سے نکلی۔ دیکھئے۔ یہی نا نمبر ہے آپ کا؟‘‘

    چچا نے بغور دیکھا تو واقعی یہ نمبر انہیں کا تھا۔ یقین کیسے نہ کرتے بھلا جب کہ پہلے سے بھی یہ توقع تھی۔ یہ خبر سنتے ہی چچا کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ دوڑے ہوئے حویلی میں آئے اور چچی کے آنچل سے خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے بولے۔

    ’’آخر اللہ نے میری اور تمہاری دعا سن ہی لی۔ یعنی دو لاکھ کی لاٹری میرے ہی نام سے نکلی ہے۔ خدا کی قسم ابھی ابھی نمبر ملا کر آ رہا ہوں۔‘‘

    چچی کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔ بولیں’’معاف کیجئےگا بنو کے ابااس روز لاٹری لگانے کی بات پر ناحق میں نے آپ کو افیون خور کہہ دیا تھا۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ اللہ پاک یہ لاٹری آپ کو مبارک کرے۔ بہت زمانے بعد آپ کے دن پھرے ہیں۔‘‘

    لاٹری نکلنے کی خبر سن کر محلے کے لوگوں کا تانتا بندھ گیا چچا ہر آنے والے کی تواضع امرتی سے کرتے اور جھک جھک کر سلام کر کے کہتے ’’یہ دولت جو مجھے ملی وہ آپ ہی لوگوں کے طفیل میں ہے۔ اگر آپ حضرات کی دعائیں شامل حال نہ ہوتیں تو میرا نجیب الطرفین ہونا بھی کوئی کام نہ آتا۔ بھئی اللہ نے عزت رکھی اور خوب ہی عزت رکھی!‘‘

    اب مرحلہ تھا ٹکٹ کو چچی کے سنگاردان سے الگ کرنے کا۔ جس کو چچا نے اس بری طرح چسپاں کر دیا تھا کہ بہت کوشش کرنے پر بھی سنگار دان سے اسے الگ نہ کیا جا سکا۔ اس کوشش میں حصہ لینے والے سیکڑوں لوگ تھے اور ہر ایک کی الگ الگ رائے تھی۔ آخر میں کسی نے یہ رائے دی کہ اس قدر جھنجھٹ سے کہیں بہتر ہے کہ سنگار دان ہی داخل دفتر کر دیا جائے۔ چچا کو یہ تجویز بہت مناسب معلوم ہوئی اور وہ اس کے لئے فوراً تیار بھی ہو گئے۔ لیکن چچی نے اپنا سنگاردان دینے سے صاف انکار کر دیا۔ لہذا مجبوراً ٹکٹ کو سنگار دان سے چھڑانے کی کوشش دوبارہ شروع کی گئی۔ اس جدوجہد میں وہ حضرت میں شامل ہو گئے جنہوں نے لاٹری نکلنے کی خبر چچا کو دی تھی۔ یہ حضرت آگے بڑھ کر چچا سے بولے ’’میر صاحب آپ ناحق اس قدر پریشان ہو رہے ہیں۔ دیکھئے میں ابھی اسے آپ کے سامنے سنگاردان سے الگ کئے دیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے یہ کہہ کر لوہا گرم کر کے بظاہر ٹکٹ کو سنگار دان سے چھڑانا چاہا۔ اس کوشش میں ٹکٹ جل کر راکھ ہو گئی اور سنگار دان کا سیشہ چٹک گیا وہ حضرت تو اپنے مذاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر چلتے بنے لیکن دو لاکھ کے ٹکٹ کا یہ حشر دیکھ کر چچا چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتے۔

    جب چچا کی طبیعت مائل بہ سکون ہوئی تو چچا کے سر میں چمیلی کے تیل کی مالش کرتے ہوئے چچی بولیں ’’میں پوچھتی ہوں کہ اس لاٹری نگوڑی کا اتنا صدقہ کیوں ہے جب کہ آپ لاکھوں روپے افیون خوری بٹیربازی اور مرغ بازی میں جھونک چکے ہیں تو یہ کہہ کر دل کی تسلی دے لیجئے کہ دو لاکھ روپے لاٹری کے بھی نہ سہی۔ لیکن میرے سنگاردان کا شیشہ آج ضرور آ جانا چاہئے۔‘‘

    چچا جواب کیا دیتے۔ صرف چچی کے چہرے کا اتار چڑھاؤ دیکھتے رہے۔ جب چچی باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں تو چچا طوطی کو ’بنی جی بھیجو‘ کا سبق پڑھا کر اپنی بیٹھک میں چلے آئے اور اپنے دوست ہینگن، کلن اور چھٹن کے ساتھ چسکی لگانے میں مشغول ہو گئے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے