ایک تھی بڑھیا۔ اکیلی ہی رہتی تھی بیچاری۔دن بھر کام کرتی پر اسے پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔ سدا فاقے سے رہتی۔ ایک دفعہ بڑھیا کا من چاہا کہ چار دن اپنی بیٹی کے گھر رہ کر آئے
بڑھیا، لڑکی کے گاؤں جانے کے لیے نکل پڑی۔ راستے میں اسے ایک بھیڑیا ملا۔ بھیڑیے نے کہا۔
’’بڑھیا بڑھیا، کھاؤں کیا تجھے؟‘‘
بڑھیا تھی ہوشیار وہ کب ڈرنے والی!
اس نے کہا’’چاہیے تو کھا لو پر ملےگا کیا ہڈی اور چمڑی! ذرا رکو۔ لڑکی کے گھر جاؤں گی، چار دن رہوں گی۔ گھی شکر کھاؤں گی، موٹی تازی ہو کر آؤں گی پھر مجھے کھانا۔‘‘
بھیڑیا بولا’’بہت خوب! پر چار دنوں میں واپس آنا، ٹھیک ہے۔‘‘
’’ٹھیک!‘‘ یہ کہہ کر بڑھیا آگے چلنے لگی۔ پھر اسے ملا ایک شیر۔ شیر نے اس سے کہا۔ ’’بڑھیا بڑھیا کھاؤں کیا تجھے؟‘‘
بڑھیا تھی ہوشیار وہ کہاں ڈرنے والی!
اس نے کہا’’چاہے تو کھالو۔ پر ملےگا کیا، ہڈی اور چمڑی! ذرا رکو۔ لڑکی کے گھر جاؤں گی، چار دن رہوں گی۔ گھی شکر کھاؤں گی، موٹی تازی ہو کر آؤں گی تب مجھے کھانا۔‘‘
شیر نے کہا ’’بہت خوب! پرچار دنوں میں واپس آنا۔ ٹھیک ہے!‘‘
’’ٹھیک!‘‘ یہ کہہ کر بڑھیا آگے بڑھ گئی۔ پھر وہ لڑکی کے گھر گئی۔ بہت دنوں بعد ماں آئی تھی، اس لیے لڑکی بہت خوش ہوئی۔ اس نے ماں کو نہلایا، کھانا کھلایا، چار دنوں میں بڑھیا بالکل ٹن ٹن ہو گئی۔
پھر اس نے لڑکی سے کہا’’بیٹی اب میں جاتی ہوں۔‘‘
لڑکی نے کہا ’’ماں اور رہونا!‘‘
بڑھیا نے کہا ’’نہ بابا، بھیڑیا میری راہ دیکھ رہا ہوگا، شیر میری راہ دیکھ رہا ہوگا۔ میں چار دنوں کا وعدہ کر کے آئی ہوں، اب چلتی ہوں پھر سے نہیں ملنے والی۔‘‘
لڑکی نے کہا ’’ماں، ماں، اس کدو میں بیٹھ جاؤ۔ یہ تمہیں لے جائےگا۔ پھر تم کسی کو نظر نہیں آؤں گی۔‘‘
ماں کدو میں بیٹھ گئی، کدو ٹھمک ٹھمک چلنے لگا۔ راستے میں شیر بیٹھا ہی تھا۔ اسے لگا پتا نہیں یہ گول گول سا کیا دوڑ رہا ہے؟ چار دن ہو گئے کہیں یہ بڑھیا تو نہیں جا رہی ہے۔ اس نے کہا’’بڑھیا بڑھیا بھاگی کہاں جا رہی ہے؟‘‘
بڑھیا نے اندر سے کہا
’’بڑھیا وڑھیا مجھے
نہیں معلوم!
چل رے کدو ٹھمک ٹھمک‘‘
کدو زور سے بھاگنے لگا، شیر بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ بھیڑیا بھی بڑھیا کی راہ دیکھ ہی رہا تھا۔ تب ہی اس نے دیکھا کہ آگے کدو اور پیچھے شیر دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ اس نےپہچان لیا کہ اندر بڑھیا ہوگی۔ راستے میں کھڑے ہوکر اس نے کہا۔
’’بڑھیا بڑھیا، کہاں بھاگ رہی ہے؟‘‘
بڑھیا نے اندر سے کہا
’’بڑھیا وڑھیا مجھے
نہیں معلوم
چل میرے کدو ٹھمک ٹھمک‘‘
کدو زور سے بھاگنے لگا لیکن بھیڑیا ٹھہرا بدمعاش۔ وہ ہاتھ پھیلا کر بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً کدو کو پکڑ لیا اور بڑھیا کو اندر سے باہر نکالا۔ شیر بھی پیچھے پیچھے آیا۔
بڑھیا تھی ہوشیار وہ کب ڈرنے والی تھی
اس نے کہا ’’مجھے کھانا ہے تو کھاؤ، پر میر سر تم میں سے کون کھائےگا؟‘‘
شیر نے کہا ’’سر میں کھاؤں گا۔‘‘
بھیڑیا بولا’’سر میں کھاؤں گا۔‘‘
دونوں چلانے لگے۔
دونوں لڑنے لگے۔
بڑھیا چپکے سے کدو میں جا بیٹھی اور بولی
’’شیر مرے یا بھیڑیا مرے
میں بیٹھوں چپ چاپ
چل مرے کدو ٹھمک ٹھمک‘‘
کدو فوراً دوڑنے لگا، شیر اور بھیڑیا دونوں لڑتے ہی رہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.