چالاک سوداگر
بہت پرانے زمانے کا ذکر کسی شہر میں امانت نامی ایک شخص رہتا تھا۔وہ غلہ فروشی کا کام کرتا تھا اور شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑے بازار میں اس کی غلّے کی دکان تھی۔ اس دکان میں گندم، چاول، گڑ، شکر، مکئی اور دالیں فروخت ہوتی تھیں۔اس کی ایمانداری، خوش اخلاقی اور غلے کے مناسب داموں کی وجہ سے لوگ دور دور سے اس کی دکان میں سودا لینے آتے تھے۔
اس کی دکان میں دو نو عمر لڑکے بھی کام کرتے تھے۔ایک کا نام احسان تھا اور دوسرے کا مقصود۔دونوں تقریباً ہم عمر ہی تھے اور کوئی بارہ سال کے ہونگے۔ ان لڑکوں کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا اور دونوں کے باپ اس دنیا میں نہیں تھے۔ وہ امانت کے محلے میں ہی رہتے تھے اور اسے ان کے گھر کے حالات کا علم تھا اس لیے اس نے انہیں اپنی دکان میں کام کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔یہاں سے انھیں جو کچھ بھی ملتا تھا وہ اسے اپنی ماؤں کے ہاتھ پر رکھتے جس سے وہ گھر کا خرچ چلاتی تھیں۔یہ دونوں بڑی محنت اور جانفشانی سے امانت کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔امانت ان کی محنت اور ایمانداری سے بہت خوش تھا۔
ایک روز دوپہر کا وقت تھا۔سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ گرمی کی وجہ سے سارا بازار سنسان پڑا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام کررہے تھے۔
احسان اور مقصود دکان کے ایک کونے میں دوپہر کا کھانا کھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔امانت بھی دکان میں موجود تھا اس لیے دونوں لڑکے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔وہ امانت کا بہت ادب کرتے تھے اور ان کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی کسی بات سے اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔
ان دونوں لڑکوں میں احسان زیادہ ہوشیار اور ذہین تھا۔اسے ہر معاملے میں سوچ بچار کی عادت تھی اس وجہ سے امانت اسے بہت پسند کرتا تھا۔وہ دکان کے معاملات میں بھی بہت دلچسپی لیتا تھا اور اس کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے امانت کو مشورے بھی دیتا رہتا تھا۔وہ مشورے ایسے ہوا کرتے تھے کہ امانت بخوشی ان پر عمل کرتا تھا۔
اسی کے مشورے پر امانت نے ایک لکڑی کی بڑی سی دو پہیوں کی ہتھ گاڑی بھی بنوالی تھی۔ جو لوگ زیادہ سامان خریدا کرتے تھے، امانت ان کا وہ سامان اس گاڑی میں لدوا دیتا تھا اور احسان اور مقصود مل کر وہ سامان اس جگہ پہنچا دیتے تھے جہاں وہ گاہک اسے لے جانا چاہتا تھا۔گاہکوں کو اس سہولت سے بہت آسانی ہوگئی تھی۔اس سے ان کی یہ پریشانی دور ہوگئی تھی کہ سامان کو خود اٹھا کر کیسے لے جائیں۔امانت اس کام کی اپنے گاہکوں سے ایک دمڑی بھی نہیں لیتا تھا۔ چونکہ یہ کام احسان اور مقصود مل کر کرتے تھے اس لیے اس نے ان کی اجرت میں پانچ درہم ماہانہ کا اضافہ بھی کردیا تھا۔ سمجھو یہ ان کی محنت کا انعام تھا۔
اس وقت کام تو کوئی تھا نہیں، گرمی کی وجہ سے گاہک دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے اور بازار میں سناٹا چھایا ہوا تھا اس لیے امانت نے سوچا کہ گھر کا ایک چکر لگا لے۔شام سے پہلے پھر آجائے گا۔ اس نے گلّے میں پڑی اشرفیاں اور درہم ایک تھیلی میں بھرے اور انھیں اپنے چوغے کی جیب میں رکھا اور اٹھنے ہی والا تھا کہ دکان کے دروازے پر ایک لمبا چوڑا شخص نمودار ہوا۔ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی مونچھیں تھیں اور اس نے سر پر ایک کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔
اسے دکان میں آتا دیکھ کر امانت دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا۔اس آدمی کے کپڑے اتنے قیمتی تھے کہ امانت کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ کوئی بہت ہی امیر کبیر آدمی ہے۔
وہ آدمی اندر آگیا تو امانت نے کہا۔ ’’فرمائیے۔ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘۔
اس آدمی کو دیکھ کر احسان اور مقصود بھی اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اس کے نزدیک آ کر کھڑے ہوگئے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ امیر آدمی غلہ خریدنے آیا ہے اور انھیں سامان تول تول کر دینا پڑے گا۔
اس آدمی نے کہا ’’میرا نام گوہر سوداگر ہے۔میں سلطان پور میں رہتا ہوں اور وہیں میری غلے کی دکان بھی ہے۔ اس دفعہ سلطان پور میں بارشیں بہت کم ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ غلہ پیدا نہیں ہو سکا۔یہ ہی وجہ ہے کہ مجھے اتنی دور سے آپ کے پاس آنا پڑا۔مجھے کسی نے بتایا تھا کہ آپ ایک ایماندار آدمی ہیں اور آپ کی چیزیں بہت اچھی ہوتی ہیں اور ان کے دام بھی بہت مناسب ہوتے ہیں۔مجھے بڑی تعداد میں غلہ درکار ہے۔ کیا اتنا زیادہ غلہ مجھے مل جائے گا؟‘‘۔
اپنی تعریف سن کر امانت بہت خوش ہوا۔اس نے گوہر سوداگر کو تخت پر بیٹھنے کا کہا اور بولا ’’خدا کا شکر ہے کے میرے پاس ہر طرح کا بہت سا غلہ موجود ہے۔ آپ حکم کریں۔ آپ کو کیا کیا چاہیے؟‘‘۔
گوہر سوداگر نے کہا ’’میں اپنے ساتھ چھ اونٹ لے کر آیا ہوں۔ بس آپ سمجھ جائیں کہ مجھے کتنا سامان چاہیے ہوگا‘‘۔
اس کی بات سن کر امانت حیران رہ گیا۔اس نے آگے جھک کر دکان سے باہر جھانکا۔باہر چھ اونٹ کھڑے تھے۔ان کی رسیاں سیاہ فام غلاموں نے تھام رکھی تھیں۔ اس نے کہا ’’آپ مجھے بتا دیں کہ آپ کو کون کون سی اشیا چاہییں۔ میں انھیں نکلوا کر دے دوں گا‘‘۔
گوہر سوداگر نے اس کو سامان بتانا شروع کیا۔امانت ان چیزوں کو لکھتا گیا۔
احسان اور مقصود نے بڑی پھرتی سے سارا سامان بڑے سے ترازو میں تول تول کر دکان کے باہر رکھا جسے گوہر سوداگر کے غلام اٹھا اٹھا کر اونٹوں پر لادنے لگے۔
اس دوران امانت حساب کتاب کرنے لگا کہ کل سامان کی کیا قیمت ہے۔ اس نے تمام اشیا کی تفصیل لکھ کر ان کے آگے ان کی قیمت بھی لکھ دی تھی۔سارا سامان پانچ ہزار اشرفیوں کا تھا۔
گوہر سوداگر نے ہزار ہزار اشرفیوں کی پانچ تھیلیاں نکال کر امانت کے حوالے کیں۔امانت نے ایک تھیلی کو الٹ کر ان کی اشرفیاں تخت پر ڈھیر کیں اور مقصود کو پاس بیٹھا کر انھیں گننے کا کہا۔ خود اس نے دوسری تھیلی کھول لی تھی اور ان میں موجود اشرفیوں کو گننے لگا۔
اچانک بے خالی میں مقصود کا ہاتھ اشرفی کے ڈھیر سے ٹکرا گیا اور چند اشرفیاں زمین پر گر پڑیں۔ یہ اچانک ہی اور غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ اپنی اس حرکت پر مقصود شرمندہ نظر آنے لگا۔ احسان نزدیک ہی کھڑا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اشرفیاں زمین سے اٹھانا شروع کردیں اور انھیں تخت پر رکھنے لگا۔
اچانک ایک بات دیکھ کر امانت سکتے میں آگیا۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔جب احسان ان اشرفیوں کو زمین سے اٹھا رہا تھا تو اس نے آنکھ بچا کر ایک اشرفی اپنی جیب میں ڈال لی تھی۔ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ امانت اسے دیکھ رہا ہے۔
امانت اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اسے بہت اچھا لڑکا سمجھتا تھا۔اس کی اس حرکت سے اسے دلی صدمہ پہنچا مگر اس وقت تو اس نے احسان سے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا اور ایسا بن گیا جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ جب گوہر سوداگر چلا جائے گا تو وہ احسان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کرے گا۔ چوری کرنا بری بات ہوتی ہے، اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس حرکت کے نتیجے میں وہ اب اسے اپنی دکان میں بھی نہیں رکھے گا بلکہ نوکری سے نکال دے گا۔
تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے پانچوں تھیلیوں کی اشرفیاں گن لیں تو امانت نے دیکھا کہ احسان دکان میں موجود نہیں تھا۔اس کے ذہن میں آیا کہ شائد وہ اشرفی کو کہیں چھپانے گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر امانت کو اس کی حرکت پر افسوس ہوا۔وہ تو اسے ایک بہت ہی اچھا اور ہاتھ کا صاف لڑکا سمجھتا تھا مگر آج اس نے ایک اشرفی کی چوری کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچادی تھی۔
امانت کی دکان سامان سے تقریباً خالی ہو چکی تھی اور اس میں موجود سامان اونٹوں پر لاد دیا گیا تھا۔چاروں غلام اس مشقت کے کام سے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔امانت نے مقصود کو بازار کی طرف دوڑایا کہ وہ جلدی سے ان کے لیے شربت لے آئے۔
چاروں غلام کام ختم کر کے ایک کونے میں بیٹھ گئے تھے۔مقصود جلد ہی ٹھنڈا اور خوش ذائقہ شربت لے آیا اور مٹی کے آبخوروں میں ڈال کر سب کو پیش کیا۔ابھی وہ لوگ شربت پی ہی رہے تھے کہ امانت کی نظر دور سے آتے ہوئے احسان پر پڑی۔
اسے دیکھ کر امانت کو ایک مرتبہ پھر وہ واقعہ یاد آگیا جب احسان سب کی نظر بچا کر ایک اشرفی اپنی جیب میں ڈال رہا تھا۔ اس کی اس حرکت پر امانت کو دوبارہ افسوس ہونے لگا۔ وہ ان دونوں لڑکوں کو اپنی اولاد کی طرح چاہتا تھا، احسان کی چوری کی وجہ سے اسے بہت صدمہ ہوا تھا۔
اچانک امانت نے دیکھا کہ احسان اکیلا نہیں ہے۔اس کے ساتھ چھ سپاہیوں کا دستہ بھی تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ سب دکان پر پہنچ گئے۔ دکان میں داخل ہوتے ہی احسان نے سپاہیوں سے کہا “یہ ہی وہ شخص ہے جس کے متعلق میں نے داروغہ صاحب کو بتایا تھا”۔
دو سپاہیوں نے جھپٹ کر گوہر سوداگر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔اس صورتحال سے امانت بہت پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے نہایت غصے سے کہا’’احسان۔یہ کیا بدتمیزی ہے۔یہ ایک معزز سوداگر ہیں۔ان کے ساتھ یہ سلوک میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔
احسان نے بڑے ادب سے کہا ’’مالک۔ ابھی آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا‘‘۔
سپاہیوں کو دیکھ کر چاروں غلام بھی گھبرا کر کھڑے ہوگئے تھے۔مقصود بھی ایک کونے میں سہما ہوا کھڑا تھا۔ اتنے سارے سپاہیوں اور ان کی میانوں میں لٹکتی تلواریں دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوگیا تھا۔ ادھر گوہر سوداگر غصے سے لال بھبوکا ہو رہا تھا۔اس نے نہایت غصے سے احسان کو دیکھا اور بولا’’لڑکے تو مجھے نہیں جانتا۔ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔ اس بے عزتی کا بدلہ ضرور لوں گا‘‘۔
اس کی بات سن کر احسان ذرا بھی نہیں گھبرایا۔ اس نے کہا ’’جناب۔ آپ کے فریب کا پول کھل گیا ہے۔ آپ میرے مالک کو دھوکہ دے کر انھیں تباہ کرنا چاہتے تھے۔اصلی مال لے کر انھیں نقلی اشرفیاں تھما رہے تھے‘‘۔
امانت نے یہ بات سنی تو اس نے جلدی سے گوہر سوداگر کی دی ہوئی ایک اشرفی تھیلی سے نکال کر زمین پر گھسی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا سونے جیسا رنگ اتر گیا تھا اور اندر سے پیتل کی دھات نظر آنے لگی تھی۔ اس نے مزید کئی اشرفیاں زمین پر گھس کر دیکھیں، وہ بھی سب کی سب نقلی تھیں۔
یہ دیکھ کر گوہر سودا گر گھبرا گیا۔اس نے خود کو سپاہیوں کی گرفت سے چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔سپاہیوں نے غلاموں سے کہہ کر امانت کا سارا سامان اونٹوں پر سے اتار کر واپس دکان میں رکھوایا اور ان کو بھی گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔سپاہی اپنے ساتھ نقلی اشرفیوں کی تھیلیاں بھی لے گئے تھے تاکہ انھیں مجرم کے ساتھ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے۔
یہ ہنگامہ دیکھ کر آس پاس کے لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے تھے اور مختلف سوالات کر رہے تھے۔
امانت نے انھیں اس واقعہ کے متعلق بتایا۔وہ بہت خوش تھا کہ وہ ایک بڑا دھوکہ کھانے سے بچ گیا ہے۔جب لوگوں کا جھمگٹا کم ہوا تو اس نے بڑی محبّت سے احسان کو اپنے قریب بٹھایا اور بولا ’’احسان جب تم ایک اشرفی چھپا کر اپنی جیب میں رکھ رہے تھے تو میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا اور مجھے تمھاری اس چوری پر بہت افسوس ہوا تھا۔ یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ تم چور نہیں تھے اور جو کچھ بھی کر رہے تھے میرے فائدے کے لیے ہی کر رہے تھے‘‘۔
احسان نے مسکرا کر کہا ’’خدا کا شکر ہے کہ میری بے گناہی ثابت ہوگئی۔ جب مقصود کا ہاتھ لگ کر اشرفیاں زمین پر گری تھیں تو’’ٹھن‘‘ کی طرح کی آوازیں آئی تھیں۔مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ تانبے اور پیتل کے سکوں کے گرنے سے ایسی ہی آوازیں آتی ہیں۔اشرفی زمین پر گرے تو ان کی آواز دوسری ہوتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے فرش پر کوئی پتھر ٹھک کر کے گرا ہو ۔اس کے گرنے سے آواز میں کھنک نہیں ہوتی جیسے پیتل کے سکوں میں ہوتی ہے۔ میں نے اشرفیوں کے نیچے گرنے کی آواز سنی تو مجھے اسی وقت شبہ ہوگیا تھا۔میں سب کی آنکھ بچا کر ایک اشرفی لے کر باہر نکلا اور کونے میں بیٹھ کر اس کو زمین پر گھس کر دیکھا تو اندر سے پیتل کی دھات دکھائی دی جب کہ اشرفیاں تو خالص سونے کی ہوتی ہیں، انھیں کتنا ہی گھسیں ان کی پیلاہٹ ختم نہیں ہوتی۔میں سمجھ گیا کہ یہ آدمی کوئی دھوکے باز ہے اور آپ کو جل دینے کی فکر میں ہے۔ یہ دیکھ کر میں بھاگا بھاگا داروغہ جی کے پاس پہنچا اور انھیں ساری بات بتائی۔ انہوں نے غور سے میری بات سنی اور سن کر مجھے شاباش دی پھر انہوں نے اپنے سپاہی میرے ساتھ کردیے تاکہ وہ اس نو سر باز کو پکڑ سکیں‘‘۔
’’احسان۔میں تمہارا مشکور ہوں کہ تمھاری عقلمندی کی وجہ سے میں ایک بہت بڑے نقصان سے بچ گیا ہوں۔اگر وہ چالاک سوداگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا تو میرے تباہ ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی‘‘۔ امانت نے کہا۔
مقصود بھی ان دونوں کے قریب کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا۔اسے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اس کا دوست ایک عقلمند لڑکا ہے۔امانت تو احسان سے بہت ہی خوش تھا۔ اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس نے ناحق اس پر شک کیا تھا ۔اس خوشی میں اس نے دونوں لڑکوں کو دس دس درہم بھی دیے اور کہا کہ اگلے ہفتے میلہ شروع ہو رہا ہے، یہ رقم تم دونوں وہاں خرچ کرنا اور مزے سے گھومنا پھرنا اور جو جی میں آئے کھانا پینا۔ دونوں لڑکے خوش ہوگئے۔
اگلے دن امانت کی دکان پر شہر کا داروغہ آیا اور آتے ہی احسان کے بارے میں پوچھا۔ امانت نے احسان کو بلا کر اس کے سامنے کھڑا کردیا۔داروغہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا ’’تم نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔اس مجرم کو قاضی کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے اور قاضی صاحب نے اسی سلسلے تم دونوں کو عدالت میں طلب کیا ہے۔وہ اس واقعہ کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں‘‘۔
احسان تھا تو بچہ ہی، قاضی کا نام سنا تو گھبرا گیا۔مگر امانت نے اسے دلاسہ دیا اور بولا ’’گھبراؤ نہیں۔ میں بھی تو تمہارے ساتھ چل رہا ہوں‘‘۔
امانت نے دکان بند کی اور دونوں لڑکوں کو ساتھ لے کر داروغہ جی کے ساتھ قاضی کی عدالت میں پہنچ گیا۔ گوہر سوداگر کٹہرے میں سر جھکائے کھڑا تھا۔
تھوڑی دیر میں مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔پہلے امانت نے تفصیل بتائی پھر احسان نے پورا واقعہ سنایا۔اس کی بات سن کر قاضی سمیت وہاں سب لوگ اس کی ذہانت پر عش عش کر اٹھے۔جرم ثابت ہوگیا تھا۔ گوہر سوداگر کو اسّی درّوں اور دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اس کے بعد قاضی نے احسان سے کہا ’’لڑکے احسان۔میں تمھاری ذہانت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ تمھاری اگر صحیح تعلیم و تربیت ہو تو تم بڑے ہو کر ایک بہت اچھے اور قابل انسان بن کر ملک کی خدمت کر سکتے ہو۔میں نے پتہ کروا لیا ہے کہ تمہارا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے، جس کی وجہ سے تم اتنی کم عمری میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہو۔ تمہارے اس کارنامے کے صلے میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری خزانے سے تمہیں پانچ سال تک دو سو درہم ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔میں تمہارے مالک امانت کو بھی یہ حکم دیتا ہوں کہ وہ تمھاری اچھی تعلیم کا بندوبست کرے۔فارغ وقت میں تم اس کی دکان پر کام کرسکتے ہو، جس کا معاوضہ وہ تمہیں ادا کرتا رہے گا‘‘۔
قاضی کی یہ بات سن کر احسان کو ذرا خوشی نہیں ہوئی۔یہ بات قاضی نے محسوس کر لی تھی۔ اس نے حیرت سے پوچھا ’’تم خوش نہیں ہو لڑکے؟‘‘۔
’’میں خوش تو ہوں مگر زیادہ نہیں‘‘۔ احسان نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
’’اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘۔ قاضی نے حیرانگی سے سوال کیا۔
’’انعام کا حقدار میرا دوست مقصود بھی ہے۔ اگر اس کا ہاتھ لگنے کی وجہ سے اشرفیاں نیچے نہ گرتیں تو مجھے ان کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور مجھے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اشرفیاں نقلی ہیں۔دیکھا جائے تو اصل کارنامہ مقصود کا ہی تھا جس کی وجہ سے اس سوداگر کی چالاکی کا پردہ چاک ہوا‘‘۔
احسان کی بات سن کر عدالت میں موجود سب لوگ اس کی دوستی کے اس ایثار پر بہت خوش ہوئے۔قاضی نے مسکرا کر کہا ’’شاباش لڑکے۔ تم نے بہت اچھی بات کی اور اپنے دوست کو نہیں بھولے۔ اب ہمارا یہ بھی فیصلہ ہے کہ تمہارے دوست مقصود کو بھی اتنا وظیفہ ملے گا جتنا تمہیں ملے گا اور وہ بھی پورے پانچ سال تک۔اس کی پڑھائی لکھائی کی ذمہ داری بھی تمہارے مالک امانت پر ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت برخواست کی جاتی ہے‘‘۔
سب لوگ اٹھ کر جانے لگے تو مقصود احسان سے لپٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔امانت نے بھی احسان کو گلے سے لگا لیا۔
اس کے بعد ان دونوں لڑکوں کے دن پھر گئے۔وہ صبح سے لے کر دوپہر تک پڑھنے کے لیے ایک مکتب میں جانے لگے۔وہاں سے واپسی پر وہ امانت کی دکان پر کام کرتے۔دونوں کی مائیں بہت خوش تھیں کیونکہ قاضی کے دئیے ہوئے وظیفے کی وجہ سے ان کی غربت دور ہوگئی تھی، پھر امانت کی دکان پر کام کرنے کے بھی انھیں پیسے ملا کرتے تھے۔ ان کی ماؤں کی دوسری خوشی یہ تھی کہ ان کے بچوں کی تعلیم کا بھی بندوبست ہوگیا تھا۔
امانت بھی بہت خوش تھا۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ احسان اور مقصود جب بڑے ہوجائیں گے تو وہ ان کو بھی غلے کا کاروبار کروا دے گا۔اور اس نے ایسا ہی کیا۔ دونوں لڑکوں کے پاس بہت ساری رقم جمع ہوگئی تھی۔چند سالوں بعد اسی رقم سے امانت نے انھیں اپنے پڑوس میں ہی دو دکانیں کھلوادیں۔ایک دکان احسان کی تھی اور دوسری مقصود کی۔ امانت کو دیکھ دیکھ کر انہوں نے کاروبار کے طریقے سیکھ لیے تھے۔ وہ امانت کی طرح ہی ایماندار اور خوش اخلاق تھے، ان کی تعلیم بھی مکمل ہوگئی تھی، اور یہ تعلیم ان کے کاروبار کو چلانے میں بھی بہت کام آئی جس کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں دونوں دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.