Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھوٹ کا چکر

محمد اسد اللہ

چھوٹ کا چکر

محمد اسد اللہ

MORE BYمحمد اسد اللہ

    شیخ چاند بیو پاری سون پور میں رہتا تھا۔ اس کی ایک دکان تھی۔ دکان کس قسم کی تھی یہ بتانا ذرا مشکل ہے کیونکہ اس ایک دکان میں کئی دکانیں موجود تھیں ۔ گاؤں کے لوگ کہا کرتے تھے کہ شیخ چاند کی دکان میں صرف شیرنی کا دودھ ہی نہیں ملتا، اس کے علاوہ ہر چیز مل جاتی ہے۔ دکان پر ایک پرانا سا بورڈ لگا تھا جو زنگ لگ جانے کی وجہ سے ہر سال قسطوں میں کم ہوتا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں اس بورڈ پر ’شیخ چاند اینڈ سنس‘، لکھا ہوا تھا۔ اب صرف چاند پڑھا جاسکتا تھا۔

    شیخ چاند تھا بڑا دلچسپ آدمی، بظاہر بیوقوف قسم کا، چہرے سے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کچھ معاملات میں بڑا چالاک بھی تھا ورنہ بدّھو پن سے بھلا اس کا کاروبار اتنا کیسے پھیلتا؟ کبھی تو اس کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے کہ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس پڑتے کبھی اس کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے وہ لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بنتا۔ اتنا بڑا کاروبار ہونے کے باوجود وہ بلا کا کنجوس تھا۔ ہر وقت اسکے سر پر یہ فکر سوار رہتی تھی کہ کس طرح دو پیسے بچائے جائیں ۔ گاؤں کے لوگ اس کی بیوقوفیوں کے قصے مزے لے لے کرسنایا کرتے تھے۔ ان میں یہ لطیفہ بھی تھا کہ ’’مرنے کے بعد شیخ چاند خدا کے حضور میں پہنچا تو اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں کا پلڑا برابر تھا۔‘‘

    خدا نے اس سے پوچھا، ’’بتاؤ شیخ چاند! اب تمھیں جنت میں بھیجا جائے یا جہنم میں۔‘‘

    شیخ چاند نے جواب دیا، ’’اے خدا، میں کیا بولوں، بس جدھر بھی دو پیسے کا فائدہ ہو ادھر بھیج دے۔‘‘

    سبھی کو پتہ تھا کہ شیخ چاند اس راستے پر جائے گا جدھر دو پیسے کا فائدہ ہو لیکن ہمیشہ روپے پیسے میں فائدہ دیکھنے والوں کے ساتھ جو ہوتا آیا ہے اس کے ساتھ بھی ہوا کرتا تھا۔ شیخ چاند نے سو بار ٹھو کر کھائی مگر کچھ نہ سیکھا۔ اب بھی شیخ چاند کے گھر سانپ نکل آئے تب بھی وہ اسی فکر میں رہتا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کے ساتھ اکثر معاملہ الٹا ہوتا۔ سانپ بھی اپنی جان بچا کر نکل جاتا اور بیچارے کی لاٹھی بھی ٹوٹ جاتی اور شیخ چاند یہ صدمہ لے کر بیٹھ جاتا کہ ایک اور نقصان ہوگیا۔

    ایک مرتبہ شیخ چاند کو زبردست زکام ہوا اس نے چھینک چھینک کر سارا گھر سر پر اٹھالیا۔ سب لوگ پریشان ہو گئے۔ گھر کے لوگوں نے اس سے کہا کہ تم کسی ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے شیخ چاند نے کہا، ’’علاج تو کر رہا ہوں۔‘‘ مگر سبھی جانتے تھے کہ وہ ڈاکٹر کو اپنا مرض اس لئے نہیں دکھاتا کہ وہاں پیسے خرچ کرنے پڑیں گے۔ بیوی کے بار بار سمجھانے پر شیخ چاند نے سوچا ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ ڈاکٹر سے علاج بھی ہو جائے اور جیب پر بھی بارنہ پڑے۔ اسے پتہ تھا کہ ڈاکٹر بھوتڑا ہر صبح سیر کے لئے نکلتے ہیں اور پوسٹ آفس کے سامنے والی سڑک سے جاگنگ کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس دن وہ صبح سویرے اٹھا اور اور اس راستے پر ہولیا جدھر سے ڈاکٹر صاحب جاتے تھے۔

    راستہ میں اسے یاد آیا کہ اس کا ملازم جو دیر تک سونے کا عادی تھا ایک دن کہنے لگا میری سمجھ میں نہیں آتا لوگ اتنی جلدی بستر کیوں چھوڑ دیتے ہیں، ارے زندگی کا مزہ تو دیر تک سونے میں ہے۔ اور شیخ چاند نے اسے سمجھایا تھا ارے سونے سے کیا ملتا ہے۔ زندگی سونے کے لئے تھوڑی ملی ہے۔ مجھے دیکھ صبح جلدی اٹھ کر دکان کھولتا ہوں تو چائے پتی شکر خریدنے والوں کی بھیٹر لگ جاتی ہے کتنی کمائی ہو جاتی ہے جو دیر سے دکان کھولتے ہیں انھیں کچھ نہیں ملتا۔ تھوڑی دیر بعد جب ڈاکٹر صاحب اس راستے پر آتے ہوئے دکھائی دئے تو شیخ چاند دوڑتے دوڑتے ان کے قریب آیا ڈاکٹر صاحب اچھلتے کودتے چلے جارہے تھے۔ شیخ چاند نے بھی انہیں کی طرح جاگنگ شروع کر دی۔ ان کے قریب پہنچ کر انھیں سلام کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں بھی بیوی بچوں کے علاج کے لئے وہ جاتا رہتا تھا۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب جانا پہچانا چہرہ دیکھ کر مسکرائے۔

    شیخ چاند نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب! کیا آپ روزانہ سیر کے لئے نکلتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مختصر جواب دیا ’’ہاں‘‘۔

    شیخ چاند نے کہا ’’آجکل صبح تو بڑی سردی ہوا کرتی ہے۔‘‘ پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! یہ بتائیے کبھی آپ کو زکام بھی ہوا ہے؟‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے کہا، ’’ہاں‘‘، اکثر ہوتا رہتا ہے۔ شیخ چاند نے پوچھا ’’تب آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ اب ڈاکٹر صاحب کا ماتھا ٹھنکا۔ انھیں کچھ یاد آیا کہ شیخ چاند کچھ اسی قسم کا سوال ان سے اس سے پہلے بھی پوچھ چکا ہے۔ انھوں نے اسے اپنی عینک کے اوپر سے اسے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’چھینکتا ہوں اور کیا؟‘‘

    مفت میں دوائی کا نام معلوم کرنے کی اس کی ترکیب ناکام ہو گئی تو شیخ چاند نے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے ہی میں خیریت سمجھی۔

    شیخ چاند کو اچھے کھانوں کا بہت شوق تھا۔ گھر میں اس کی چٹپٹے کھانوں کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اسی لئے وہ جب مال لانے شہر جاتا تو کسی ہوٹل میں ضرور جاتا۔ وہاں بھی کفایت اور سستے کے چکر میں کتنی ہی ہوٹلوں میں پوچھ تاچھ کرتا۔ اکثر سستے ہوٹل ڈھونڈنے میں، رکشے سے سفر کرتے ہوئے، اتنی رقم خرچ کر بیٹھتا جس میں کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھایا جاسکتا تھا، مگر سستا کھانا کھا کر اسے عجیب کی خوشی ہوتی۔

    ایک دن وہ شہر میں کسی مناسب ہوٹل کی تلاش میں بھٹک رہا تھا کہ اس کی نظر ایک ہوٹل کے سامنے لگے بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا۔

    ’آئیے، بِن داس کھائیے، پیسے کی کوئی چنتا نہیں، بِل آپ کو نہیں دینا ہے، وہ آپ کا پوتا دے گا۔‘

    شیخ چاند بہت خوش ہوا اور اندر داخل ہو کر بیرے سے پوچھا ’’یہ جو لکھا ہے کہیں مذاق تو نہیں۔‘‘

    بیرے نے کہا:

    ’’بالکل نہیں آپ جو کچھ کھائیں گے ہم اس کابل آپ کے پوتے ہی سے وصول کریں گے۔‘‘

    شیخ چاند نے جو چیزیں زندگی میں کبھی نہ چکھی تھیں منگوائیں اور خوب سیر ہو کر کھایا۔ جب وہ باہر نکلنے لگا تو بیرے نے اس سے کہا ’’جناب بل تو دیتے جائیے۔‘‘

    شیخ چاند نے کہا ’’ارے! تم نے تو کہا تھا ہم اس کھانے کا بل آپ کے پوتے ہی سے وصول کریں گے۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں‘‘ بیرا بولا ’’ہم آپ کا بل آپ سے تھوڑا ہی مانگ رہے ہیں، یہ تو آپ کے دادا جی کا بل ہے؟ انھوں نے جو کھانا یہاں کھایا تھا، وہ تو آپ ہی کو دینا ہوگا نا۔‘‘ یہ سن کر شیخ چاند نے اپنا سر تھام لیا۔

    اسی طرح ایک مرتبہ جب وہ ایک بڑے شہر میں کھانے کی تلاش میں مختلف ہوٹلوں کے بورڈ پڑھتا جا رہا تھا، تو اس کی نظر ایک ہوٹل کے اندر دروازے پر پڑی جہاں ایک چھوٹا سا بورڈ لگا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ ’چالیس فیصد چھوٹ‘ اور دوسرے دروازے پر ’ساٹھ فیصد چھوٹ‘ کا بورڈ لگا تھا۔

    شیخ چاند فوراً ساٹھ فی صد چھوٹ والے دروازے میں داخل ہو گیا۔ جب وہ آگے بڑھا تو بہت خوش تھا کہ یہ ہوٹل ابھی تک اس کی نظر سے کیسے چھپا رہا۔ اس نے سوچا اب وہ ہمیشہ یہیں آیا کرے گا، مگر یہ کیا! اس کے سامنے پھر دو دروازے تھے۔ ایک پر لکھا تھا، اسّی فیصد چھوٹ اور دوسرے پر سوفیصد چھوٹ کا بورڈ نظر آیا۔ شیخ چاند نے سوچا یہ ہوٹل تو کمال کا ہے پھر وہ تیز قدموں سے سو فیصد چھوٹ والے دروازے میں داخل ہو گیا اور آگے بڑھا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد شیخ چاند چکرا گیا۔ پہلے تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کہاں پہنچ گیا ہے، غور کیا تو پتہ چلا، وہ اسی ہوٹل کے سامنے والی سڑک پر کھڑا تھا جس میں داخل ہوا تھا۔

    اب شیخ چاند کو وہاں سے اپنے گھر واپس جانے کی سوفیصد چھوٹ حاصل تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے