Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چٹکی اور بلّی کا بچہ

مختار احمد

چٹکی اور بلّی کا بچہ

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    چٹکی چھ سال کی ایک گول مٹول سی پیاری پیاری بچی تھی۔ وہ اسکول جاتی تھی اور اسکول سے واپسی کے بعد گھر میں بھاگی بھاگی پھرتی تھی۔ اسے کھیلنا کودنا بہت پسند تھا۔ شام کو اس کی امی اس کا اسکول کا کام کروانے میں اس کی مدد کرتی تھیں۔ ان کے گھر کے لان میں بہت سارے پھولوں کے پودے لگے ہوۓ تھے، جن پر دن بھر رنگ برنگی خوبصورت تتلیاں منڈلاتی رہتی تھیں۔ چٹکی انھیں پکڑنا چاہتی تو وہ ایک پھول سے اڑ کر دوسرے پھول پر بیٹھ جاتیں۔ اس نے آج تک ایک بھی تتلی نہیں پکڑی تھی۔ اس کے تین بڑے بھائی بھی تھے، زاہد، حامد اور عابد۔ چونکہ وہ سب سے چھوٹی تھی اس لیے گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ امی، ابّو اور تینوں بھائی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔

    چٹکی بہت تمیز دار لڑکی تھی ۔ اس میں ایک اور بڑی اچھی بات یہ بھی تھی کہ وہ رات کو جلدی سوتی اور صبح جلدی اٹھ جایا کرتی تھی۔ جو بچے رات کو جلدی سوتے ہیں اور صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں وہ دن بھر چاق و چوبند رہتے ہیں۔ ناشتے سے پہلے وہ اسکول جانے کی پوری تیاری کرلیتی تھی۔ اس کی امی رات کو ہی اس کی یونیفارم تیار کرکے ہینگر میں لٹکا دیتی تھیں۔ وہ ہاتھ منہ دھو کر خود ہی یونیفارم پہن لیتی تھی۔ اسکارف اسے باندھنا نہیں آتا تھا، وہ اسے امی سے بندھواتی تھی۔ اس کے بھائیوں میں سے کوئی ایک اس کے جوتوں پر پالش کردیا کرتا تھا، وہ انھیں پہن کر ناشتے کی ٹیبل پر آکر بیٹھ جاتی اور گھر والوں کے ساتھ ناشتہ کرتی۔ ناشتے کے بعد بچوں کی اسکول کی وین آجاتی اور چٹکی اور اس کے تینوں بھائی امی کو خدا حافظ کہہ کر اسکول چلے جاتے۔

    چٹکی کو کہانیاں سننے کا بھی بہت شوق تھا۔ اسے پریوں، بادشاہوں، شہزادے، شہزادیوں اور بونوں کی کہانیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ وہ ابھی چھوٹی تھی اس لیے خود سے کتابیں پڑھنا اس کے لیے مشکل تھا اس لیے وہ یہ کہانیاں اپنی امی اور بھائیوں سے سنا کرتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ کسی روز کوئی پری آکر اسے اپنے اڑنے والے قالین پر بٹھا کر پرستان لے جائے اور وہ وہاں کی خوب سیر کرے۔

    ایک روز چٹکی اسکول سے گھر آئی تو اس نے اپنی گود میں ایک چھوٹا سا بلّی کا بچہ اٹھا رکھا تھا۔ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے بلّی کے بچے کو پا کر وہ بہت خوش ہے۔ بلّی کا بچہ تھا بھی بہت خوبصورت۔ اس کا رنگ دودھ کی طرح سفید تھا، آنکھیں سیاہ رنگ کی اور نہایت چمکیلی تھیں اور اس کی دم گھپے دار تھی جو بہت بھلی لگتی تھی۔ وہ چٹکی کی گود میں چڑھا ادھر ادھر دیکھ کر ہلکی سی آواز میں میاؤں میاؤں کیے جا رہا تھا۔

    بلّی کے بچے کو دیکھ کر چٹکی کی امی تھوڑا سا پریشان ہوگئیں۔ انہوں نے کہا۔ ’’چٹکی۔ یہ تم کہاں سے لے آئی ہو؟ تم تو اسکول چلی جایا کرو گی، میں اسے کہاں سنبھالتی پھروں گی‘‘۔

    چٹکی نے جواب دیا۔ ’’امی یہ بلّی کا بچہ مجھے گلی میں سے ملا ہے۔ عارف لوگوں کے دروازے کے باہر جو گلاب اور چنبیلی کے پودے ہیں ان میں چھپا بیٹھا تھا۔ اب میں اسے پالوں گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اسے بھی اپنے ساتھ اسکول لے جایا کروں گی۔ ہماری مس کو بلّی کے بچے بہت پسند ہیں۔ انھیں بلّیوں کی بہت سی نظمیں بھی یاد ہیں‘‘۔

    امی بولیں۔ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اسے اسکول نہیں لے جا سکو گی۔ پرنسپل صاحبہ اس بات کی اجازت ہی نہیں دیں گی کہ تم اسے اپنے ساتھ لاؤ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بچہ تو بہت چھوٹا ہے۔ اس کی ماں اسے ڈھونڈ رہی ہوگی۔ اسے نہ پا کر وہ کتنی پریشان ہوگی۔ یہ بات تم نے سوچی تھی؟‘‘۔

    ’’میں نے تو اس کی ماں کو وہاں نہیں دیکھا تھا۔ یہ بالکل اکیلا بیٹھا تھا‘‘۔ چٹکی نے بتایا۔

    اس کا بھائی عابد بولا۔ ’’ہاں امی۔ چٹکی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ یہ بچہ جھاڑیوں میں دبکا میاؤں میاؤں کیے جا رہا تھا اور اس کے پاس کوئی دوسری بلّی بھی نہیں تھی‘‘۔

    امی یہ سن کر خاموش ہوگئیں۔ چٹکی کا سارا دھیان بلّی کے بچے میں ہی پڑا ہوا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اسکول کی یونیفارم بدلی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بلّی کے بچے کو قالین پر چھوڑ دیا۔ اسے آزادی ملی تو وہ صوفے کے نیچے گھس گیا۔ چٹکی نے ابھی تک اس کا کوئی نام تو رکھا نہیں تھا اس لیے وہ اسے ’’بلّی کے بچے باہر آجاؤ‘‘ ’’ بلّی کے بچے باہر آجاؤ‘‘کہہ کہہ کر بلاتی رہی۔ اس کی آواز پر اس نے کوئی دھیان نہیں دیا اور وہیں صوفے کے نیچے ہی دبکا بیٹھا رہا۔ امی نے کھانا تیار کرلیا تھا اور وہ اسے بلانے کے لیے آوازوں پر آوازیں لگا رہی تھیں۔ مجبوراً چٹکی کو بلّی کے بچے کو صوفے کے نیچے گھسا ہی چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ بلّی کے بچے کے اس برے سلوک سے وہ افسردہ ہو گئی تھی کیوں کہ اس نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ وہ تو اس کو اپنا دوست بنانا چاہ رہی تھی مگر وہ تو صوفے کے نیچے چھپ گیا تھا۔ یہ ہی باتیں سوچ سوچ کر چٹکی نے بددلی سے کھانا کھایا۔ وہ اسکول میں انٹرویل میں کافی بھاگی دوڑی تھی اس لیے تھک گئی تھی۔ کھانا کھا کر اسے نیند آنے لگی ۔ وہ اپنی امی کے پاس جا کر سو گئی۔ اسے سلا کر اس کی امی ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئیں۔

    چٹکی کا بڑا بھائی زاہد ڈرائنگ روم میں اپنا اسکول کا کام کر رہا تھا۔ انہوں نے زاہد سے کہا۔ ’’محلے میں بچوں کو پتہ چل گیا ہے کہ چٹکی نے بلّی کا بچہ پکڑا ہے۔ ابھی عارف کی امی کا فون آیا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ بلّی کا بچہ ان کی ایرانی بلّی کا ہے۔ اس نے دو بچے دیے تھے۔ باہر کا گیٹ کھلا رہ گیا تو ایک بچہ نکل کر جھاڑیوں میں بیٹھ گیا۔ اس کی ماں بلّی بہت پریشان ہے اور اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ہمیں یہ بچہ انھیں واپس کرنا ہوگا ورنہ محلے داری خراب ہوگی‘‘۔

    ’’لیکن امی۔ چٹکی تو کہہ رہی تھی کہ وہ اس بلّی کے بچے کے بغیر اب نہیں رہ سکتی۔ وہ تو اسے واپس نہیں کرنے دے گی۔ وہ ابھی چھوٹی ہے اسے محلے داری وغیرہ کی اہمیت کا علم نہیں‘‘۔ زاہد نے فکرمندی سے کہا۔

    ’’میں اسی وجہ سے پریشان ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں‘‘۔ اس کی امی نے کہا۔’’سختی کروں گی تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے وہ رنجیدہ ہوجائے گی‘‘۔

    ان کی بات سن کر زاہد کسی سوچ میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔ ’’امی آپ کوئی فکر نہ کریں میں نے اس کا حل سوچ لیا ہے‘‘۔

    زاہد ایک سمجھدار بچہ تھا۔ اس کی امی کو اطمینان ہوگیا کہ وہ اس مسلے کا ضرور کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا۔

    سہہ پہر کی چائے پی کر زاہد اپنے دونوں بھائیوں کو ساتھ لے کر مارکیٹ جانے کے لیے گھر سے نکلا۔ یہ مارکیٹ ان کے گھر کے بالکل قریب تھی۔ جب وہ گیٹ کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا چٹکی بلّی کے بچے کو گود میں لیے باغیچے میں ٹہل رہی ہے اور اس سے باتیں کرتی جا رہی ہے۔

    آدھے گھنٹے بعد اس کے تینوں بھائی گھر واپس آگئے۔ حامد کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا اور ان تینوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کی امی ڈرائنگ روم میں بیٹھی ان کے ابّو کے آفس سے آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ تینوں بھائی چٹکی کو لے کر ان کے پاس پہنچے۔

    ’’امی۔ امی۔ ہمیں ایک ایسی ترکیب آتی ہے کہ جس سے چٹکی کا بلّی کا بچہ جھوٹ موٹ کا بن جائے گا۔ نہ تو وہ کچھ کھائے گا، نہ کچھ پیے گا اور نہ کہیں بھاگے گا۔ بس ہر وقت چٹکی کے ساتھ ساتھ ہی رہے گا‘‘ زاہد نے کہا۔

    زاہد کی بات سن کر اس کی امی اسے حیرت سے گھورنے لگیں۔ چٹکی ان کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی اور بولی۔ ’’ہاں زاہد بھائی۔ جادو سے اس کو ایسا بنا دیں۔ یہ کھا پی تو خیر ابھی بھی نہیں رہا مگر میں اسے نیچے چھوڑتی ہوں تو یہ ادھر ادھر بھاگ جاتا ہے۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ یہ ایسا بن جائے کہ ہر وقت میرے ساتھ رہے اور میرے ساتھ ہی سوئے‘‘۔

    زاہد نے اس کی گود سے بچہ لیا اور عابد اور حامد کو اشارہ کیا۔ اس کے دونوں بھائی عابد اور حامد ہنستے ہوۓ اٹھے اور باہر نکل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئے تو عابد کے ہاتھوں میں وہ ہی تھیلا تھا جو وہ مارکیٹ سے لائے تھے۔ اس نے تھیلے میں سے ایک بانسری نکال کر زاہد کو دی، پھر دوبارہ تھیلے میں ہاتھ ڈال کر گتے کا ایک سفید رنگ کا خالی ڈبہ نکالا۔ سب بچے قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے تھے۔ زاہد نے بلّی کے بچے کو لے کر اسے ڈبے میں رکھا پھر اس کا ڈھکن بند کر کے چٹکی کے آگے قالین پر رکھ دیا اور بولا۔ ’’چٹکی۔ اب اپنی دونوں آنکھیں بند کر کے دس تک گنتی گنو‘‘۔

    چٹکی نے جھٹ آنکھیں بند کیں اور گنتی گننے لگی۔ اس کھیل نے اسے اتنا پرجوش کر دیا تھا کہ جلدی میں وہ ایک سے دس تک گنتی گنتے گنتے گڑ بڑا گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیے کیے ہی پوچھا۔ ’’کیا میں دوبارہ شروع سے گنتی گنوں۔ چھ کے بعد میں نے آٹھ کہہ دیا تھا؟‘‘۔

    ’’ہاں بھئی۔ دوبارہ گنو ورنہ ہماری ترکیب شائد کام نہ کرے‘‘۔ حامد نے کہا۔ اس دوران عابد نے جلدی سے بلّی والے ڈبے کو اٹھا کر تھیلے میں رکھ لیا اور بالکل ویسا ہی دوسرا ڈبہ نکال کر اسے قالین پر رکھ دیا۔ دس تک آہستہ آہستہ اور ٹھیک ٹھیک گنتی گننے کے بعد چٹکی نے آنکھیں کھول دیں اور انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

    زاہد نے کچھ کہے بغیر بانسری لے کر ہونٹوں سے لگائی اور تھوڑی دیر تک ڈبے کے قریب لا کر اسے بے سرے انداز میں بجاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بانسری بجانا بند کردی اور عابد کو آنکھ سے اشارہ کرتے ہوۓ چٹکی سے بولا۔ ’’چٹکی۔ اب اس ڈبے کو کھول کر دیکھو‘‘۔

    اس کا اشارہ دیکھ کر عابد تھیلا لے کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ چٹکی نے جلدی سے ڈبے کو کھول کر دیکھا اور پھر اندر نظر پڑتے ہی اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ ڈبے میں سفید مخملی کپڑے اور نرم نرم روئی سے بنا ایک نہایت خوبصورت سفید رنگ کا کالی چمکیلی آنکھوں والا بلّی کا بچہ نظر آیا۔ یہ بچہ ہو بہو اسی بلّی کے بچے کی شکل کا تھا جو آج چٹکی لے کر آئی تھی۔ اس کے جسم پر نہایت باریک اور لمبے لمبے بال بھی تھے اور ایک چھوٹی سی گھپے دار پیاری سی دم بھی تھی۔ چٹکی نے اسے جلدی سے ڈبے سے باہر نکال لیا اور غور سے دیکھنے لگی۔ پھر وہ خوشی خوشی امی کے پاس گئی۔ ’’امی دیکھیے۔ زاہد بھائی نے جادو کی بانسری سے اس بلّی کے بچے کو جھوٹ موٹ کا بنا دیا ہے۔ اب یہ کہیں بھاگے گا بھی نہیں۔ ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہا کرے گا‘‘۔

    امی اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر مسکرانے لگیں۔ چٹکی خوش خوش اسے لے کر باہر چلی گئی۔ اتنی دیر میں عابد دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔

    ’’امی۔ میں وہ بلّی کا بچہ عارف کی امی کو دے کر آگیا ہوں۔ اس کی ماں بلّی بے چاری واقعی بہت پریشان تھی۔ اسے دیکھ کر وہ خوش ہوگئی تھی اور اب وہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گھر میں موجود ہے۔ عارف کی امی نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے‘‘۔

    ’’شکر ہے کہ یہ مسلہ حل ہوگیا ہے۔ اگر تم لوگ یہ ترکیب نہ کرتے تو چٹکی تو اسے واپس کرنے پر کبھی راضی ہی نہیں ہوتی اور مجھے عارف کی امی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا۔ لیکن تم لوگوں نے میری سیدھی سادھی بچی کو خوب بے وقوف بنایا ہے۔ میں سمجھ تو گئی ہوں تمھارے پاس ایک جیسے دو ڈبے تھے۔ ان ہی سے تم نے یہ سب ہیر ا پھیرا کی تھی‘‘۔ ان کی امی ہنس کر بولیں۔

    ’’وہ یوں ہی بے وقوف نہیں بن گئی۔ اس جھوٹ موٹ کے بلّی کے بچے کو خریدنے پر ہم تینوں کی ساری جمع شدہ پاکٹ منی خرچ ہوگئی ہے‘‘۔ حامد نے کہا۔

    پھر تینوں بھائی باہر آئے۔ انہوں نے چٹکی کو دیکھا۔ وہ بلّی کے بچے کو گود میں لیے ٹہل ٹہل کر اسے ایک نظم سنا رہی تھی۔ اسے خوش دیکھ کر وہ بھی مسکرانے لگے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے