Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سائیکل کی چوری

مختار احمد

سائیکل کی چوری

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    احمد کو بہت شوق تھا کہ وہ سائیکل چلائے مگر اس کے پاس سائیکل ہی نہیں تھی اس کے دوست جب شام کو اپنی اپنی سائیکلوں پر گلی میں چکر لگاتے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا اور حسرت بھری نظروں سے انھیں دیکھتا۔ ایک دفعہ وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے تایا ابّو کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے کزن فرقان کے پاس ایک خوبصورت سائیکل ہے۔ فرقان ایک بہت اچھا لڑکا تھا۔ احمد کا شوق دیکھ کر اس نے اس نے دو دن میں ہی اسے بہترین طریقے سے سائیکل چلانا سکھا دی تھی۔

    سائیکل چلانے میں تو آتا ہی بہت مزہ ہے۔ احمد کو بھی بہت مزہ آتا تھا۔ ایک روز جب وہ سائیکل چلانے کے بعد فرقان کے ساتھ واپس آیا تو اس نے چپکے سے اپنی امی سے کہا۔ ’’امی گھر جا کر آپ مجھے بھی سائیکل دلا دیں گی نا؟‘‘۔

    ’’ہاں۔ ہاں۔ کیوں نہیں۔ بس میری کمیٹی نکلنے دو۔ میں تمہیں سائیکل ضرور دلوا دوں گی‘‘۔ اس کی امی بولیں۔

    ’’ابّو یہ تو نہیں کہیں گے کہ پہلے آٹھویں کے امتحان میں فرسٹ آکر دکھاؤ، پھر سائیکل ملے گی؟ آٹھویں کے امتحان میں تو پورا ایک سال باقی ہے‘‘۔ احمد نے شبے بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ’’فرسٹ تو تم آتے ہی ہو۔ پھر تمہیں کیا فکر۔ بس کمیٹی نکلنے تک انتظار کرلو‘‘۔ اس کی امی نے ہنس کر کہا۔

    احمد جب تایا ابّو کے گھر سے واپس اپنے گھر آیا تو اسے فرقان کی سبک رفتار سائیکل ہر وقت یاد آتی رہتی۔ اس کو اب اس بات کا انتظار تھا کہ کب امی کی کمیٹی نکلتی ہے اور کب سائیکل آتی ہے۔

    پھر ایک روز اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ وہ اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ گلی کے نکڑ پر ایک سائیکلوں کی دکان کھلی ہے۔ دکان کے باہر چھوٹی بڑی چھ سائیکلیں کھڑی تھیں اور دکان کے چھپر پر ایک بورڈ لٹکا ہوا تھا جس پر درج تھا۔ ’’کرائے پر سائیکلیں دستیاب ہیں۔ کرایہ دس روپے گھنٹہ‘‘۔ احمد نے دکان میں جھانکا۔ ایک موٹا سا شخص جس کا رنگ گہرا سانولا تھا، پمپ لے کر ایک سائیکل میں ہوا بھر رہا تھا۔ احمد کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور بولا۔’’لڑکے سائیکل چاہیے۔ ایک گھنٹہ کے دس روپے لگیں گے‘‘۔

    ’’انکل۔ ابھی تو میں اسکول جا رہا ہوں۔ واپسی پر دیکھوں گا‘‘۔ اس نے کہا۔

    وہ آدمی مسکرایا اور اس کے قریب آ کر بولا۔ ’’ٹھیک ہے۔ پہلے تم پڑھ کر آجاؤ۔ پھر میں وہ لال رنگ کی سائیکل تیل ویل ڈال کر کپڑے سے چمکا کر تیار رکھوں گا۔ وہ سائیکل بالکل نئی ہے۔ ایک ہی پیڈل مارو گے تو ہوا سے باتیں کرنے لگے گی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے احمد سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے کیا۔

    احمد نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا، اسے اس کی امی اور کلاس ٹیچر نے اجنبیوں اور دکان داروں وغیرہ سے دور رہنے کا سبق دیا تھا۔ وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ ’’شائد میں شام کو آؤں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا۔

    امی ہر روز احمد کو دس روپے دیا کرتی تھیں۔ آج اسکول میں اس نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ یہ پیسے بچا کر کرائے کی سائیکل لے گا۔ اسے بہت بے چینی تھی۔ ایک بجے چھٹی ہوتی تھی مگر ایک بجنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آخر خدا خدا کر کے ٹن ٹن گھنٹی بجنے کی آواز آئ، وہ تو بستہ تیار کر کے انتظار میں ہی بیٹھا ہوا تھا، ادھر چھٹی کی گھنٹی بجی، ادھر وہ دروازے کی جانب لپکا۔

    گھر پہنچ کر اب اسے چار بجنے کا انتظار تھا۔ اسے امی نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ چار بجے سے چھ بجے تک باہر کھیلنے کے لیے جا سکتا ہے۔ کھانا کھا کر اس نے اسکول کا کام کیا۔ جوتوں پر پالش کی، پھر کہانی کی ایک کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ کتاب تو بہت دلچسپ تھی مگر اس کی نظریں بار بار گھڑی کی جانب اٹھ رہی تھیں۔

    خیر کسی نہ کسی طرح چار بھی بج گئے اور وہ امی کو بتانے کے لیے ان کے پاس گیا۔ ’’امی۔ میں جا رہا ہوں۔ ہماری گلی کے نکڑ پر سائیکلوں کی ایک دکان کھلی ہے۔ وہاں سائیکلیں کرائے پر ملتی ہیں۔ آپ نے جو صبح دس روپے دیے تھے، وہ میں نے اسکول میں خرچ نہیں کیے تھے۔ ان پیسوں سے کرائے کی سائیکل لوں گا۔ پورے ایک گھنٹے کے لیے!‘‘۔

    اس کی بات سن کر اس کی امی کے چہرے پر لمحہ بھر کو تشویش کے آثار نظر آئے۔ ان کا دل تو چاہا کہ اسے کرائے کی سائیکل لینے کو منع کر دیں مگر پھر انھیں یاد آیا کہ اسے سائیکل کا کتنا شوق ہے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ہے تو یہ بری بات کہ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ہم کرائے کی سائیکلیں چلائیں۔ مگر میں تمہیں صرف آج تک کے لیے اجازت دے رہی ہوں۔ اس کے بعد تم کرائے کی سائیکل نہیں چلاؤ گے‘‘۔

    اتنا سخت آرڈر سن کر احمد کو ذرا مزہ نہیں آیا۔ مگر ایک روز کی اجازت کو ہی غنیمت جان کر وہ باہر کی طرف بھاگا۔ پیچھے سے اس کی امی کی آواز آئ۔ ’’اور دیکھو سڑک پر مت جانا۔ نزدیک نزدیک ہی سائیکل چلانا‘‘۔

    ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر احمد چلا گیا۔

    سائیکل والے کی دکان پر پہنچا تو وہ اسی لال رنگ والی سائیکل پر کپڑا مار رہا تھا جو صبح احمد نے دیکھی تھی۔ احمد کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور بولا۔’’لے لڑکے۔ سائیکل میں نے بالکل فٹ کردی ہے‘‘۔

    یہ کہہ کر اس نے چھوٹی سی میز پر سے رجسٹر اٹھایا اور احمد سے پوچھ کر اس کا نام اور گھر کا پتہ لکھا۔ پھر گھڑی دیکھ کر اسی رجسٹر کے ایک خانے میں ٹائم لکھا تاکہ معلوم رہے کہ سائیکل کب گئی تھی۔

    احمد نے بھی ہاتھ پر بندھی اپنی گھڑی سے ٹائم چیک کیا اور سائیکل دکان سے نکال کر اس پر سوار ہوگیا۔ ابھی اس نے پیڈل پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ دکان والا بولا۔ ’’لڑکے۔ گرمی بہت ہے۔ میرا بھی ایک کام کردے۔ سامنے برف کی دکان ہے۔ ایک کلو برف تو پکڑ لے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے دس روپے کا نوٹ اسے تھما دیا۔

    سائیکل بہت رواں تھی۔ ایک ہی پیڈل میں سبک رفتاری سے کافی آگے پہنچ گئی۔ احمد خوش ہوگیا۔ خوشی خوشی برف والے کی دکان پر پہنچا۔ برف والے نے برف ایک لکڑی کے تخت پر لگا رکھی تھی اور اسے پٹ سن کی بوریوں سے ڈھانپ کر رکھا ہوا تھا۔ وہاں پر پہلے ہی سے کچھ لوگ برف لینے کے لیے کھڑے تھے۔ احمد بھی سائیکل ایک سائن بورڈ کے نیچے کھڑی کرکے برف والے کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی نظریں بار بار اپنی گھڑی کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ آخر اس کی باری بھی آگئی۔ برف والے نے اندازے سے ایک کلو برف کا ٹکڑا کاٹ کر ایک شاپر میں ڈال کر اسے تھما دیا۔ پیسے دے کر اور برف لے کر وہ سائیکل کی جانب آیا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ جہاں وہ سائیکل کھڑی کر کے گیا تھا، اب سائیکل وہاں نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ اس نے بے تابی سے آس پاس دیکھا۔ سائن بورڈ کے پاس ایک رکشہ کھڑا تھا۔ اس کا ڈرائیور خلیل ان کی گلی کے پیچھے رہتا تھا۔ وہ اس کے پاس گیا۔ ’’خلیل انکل آپ نے میری سائیکل تو نہیں دیکھی۔ میں نے یہاں کھڑی کی تھی‘‘۔ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

    اس کی گھبراہٹ دیکھ کر رکشے والا خلیل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ’’وہ تمھاری سائیکل تھی؟ اسے تو ایک بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی لے گیا۔ وہ ایک سوزوکی گاڑی سے اترا تھا اور سائیکل کو اس میں ڈال کر اس طرف چلا گیا‘‘۔ اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔

    یہ سن کر احمد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے ایک نظر سڑک پر ڈالی، مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ وہ مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا سائیکل کی دکان پر آیا۔ برف کا شاپر سائیکلوں کی دکان کے مالک کو پکڑایا اور بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔

    ’’پیدل کیوں آئے ہو۔ سائیکل کیا ہوئی؟‘‘ دکان دار نے گھبرا کر پوچھا۔

    ’’وہ چوری ہوگئی ہے‘‘۔ احمد نے روہانسی آواز میں کہا۔ ’’میں اسے کھڑی کر کے برف لے رہا تھا۔ برف لے کر پلٹا تو وہ غائب تھی‘‘۔

    دکان دار نے یہ بات سنی تو برف کا شاپر زمین پر پھینک دیا َ اور سر پکڑ کر مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ ’’وہ میری سب سے قیمتی سائیکل تھی۔ کچھ ہی دنوں پہلے میں نے اسے آٹھ ہزار میں خریدا تھا۔ میں تو تباہ ہوگیا۔ اب تم ہی اس کے پیسے بھرنا۔ میں تم سے ہی اپنا نقصان پورا کرواؤں گا‘‘۔

    ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے‘‘۔ احمد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

    دکان دار نے رجسٹر اٹھا کر اسے کھولا اور دھمکی آمیز انداز میں بولا۔ ’’مجھے تمہارے باپ سے ملنا پڑے گا‘‘۔

    اس کی بات سن کر احمد گھبرا گیا۔ وہ اپنے ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’پلیز انکل۔ میرے ابّو سے کچھ مت کہیے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ سائیکل کی قیمت لوٹا دوں گا‘‘۔

    ’’اتنے سارے پیسوں کا انتظام تم کیسے کرو گے؟ تم اپنی جان چھڑانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہو۔ بہانہ بنا رہے ہو‘‘۔ اس دکان دار نے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ نے اگر یہ بات میرے ابّو کو بتائی تو وہ مجھ پر بہت غصہ کریں گے‘‘۔ احمد نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ دو آنسو ڈھلک کر اس کے گالوں پر بھی آگئے تھے۔ وہ آستین سے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔

    دکان دار بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ آخر وہ بولا۔ ’’میں ایک نرم دل آدمی ہوں۔ مجھے سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔ تم ایسا کرو کہ آج رات آٹھ بجے مجھ سے سامنے والے پارک میں ملو۔ میں اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ رجسٹر کو دیکھنے لگا اور رجسٹر کو کھولے کھولے بولا۔ ’’بہتر یہ ہی ہوگا کہ اس کا کوئی حل نکل آئے۔ کیا فائدہ یہ بات تمھارے باپ کو پتہ چلے اور وہ غصہ کرے، تمھاری ماں سے لڑائی جھگڑا کرے کہ اس نے لڑکے کی تربیت ٹھیک نہیں کی ہے اور یہ لڑائی جھگڑا پورا محلہ سنے‘‘۔

    ’’جی اچھا‘‘۔ احمد نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چل پڑا۔ دکان دار کی باتیں سن کر وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر یہ بات گھر پر پتہ چل گئی تو بہت ہنگامہ ہوگا۔ وہ سخت غمزدہ تھا۔ اس کو خود پر غصہ بھی آ رہا تھا کہ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ کرائے کی سائیکل لینے چل پڑا تھا۔ سائیکل آٹھ ہزار کی تھی۔ اس کے ابّو کے پاس تو اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ دکان دار کو دے کر جان چھڑاتے۔

    پھر اچانک اسے اپنی کلاس ٹیچر کی بات یاد آئ۔ انہوں نے لاتعداد مرتبہ سب بچوں کو یہ بات بتائی تھی کہ دن بھر کی تمام باتیں گھر جا کر اپنی امی یا ابّا کو ضرور بتا نا چاہییں۔چاہے وہ باتیں اچھی ہوں یا بری۔ اس کی امی کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ کسی بات کو چھپانا نہیں چاہیے۔ یہ بات یاد آئ تو اس کے اندر ایک ہمت سی پیدا ہو گئی۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ یہ بات گھر پر ضرور بتا دے گا۔ ان ہی سوچوں میں گم وہ کافی دور نکل آیا۔ ہوش آیا تو سامنے پوسٹ آفس کی بلڈنگ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ابّو پوسٹ آفس میں ہی کام کرتے تھے۔ وہ بھاگ کر پوسٹ آفس میں چلا گیا۔ بڑے گیٹ سے اندر آتے ہی سامنے ایک کاونٹر پر اسے اپنے ابّو کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا، ان کی نظر ابھی احمد پر نہیں پڑی تھی۔ مگر جب انہوں نے احمد کو دیکھا تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ وہ جلدی سے کرسی سے کھڑے ہوگئے۔ ’’احمد بیٹے۔ گھر پر تو سب ٹھیک ہے نا؟ تم کیسے آئے؟‘‘ انہوں نے گھبرا کر پوچھا۔

    ان کا شفقت بھرا لہجہ سن کر احمد کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ اسے روتا دیکھ کر اس کے ابّو مزید پریشان ہوگئے۔ وہ سمجھے کہ گھر پر کوئی بات نہ ہوگئی ہو۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو اپنی سیٹ پر بٹھایا اور احمد کے ساتھ پوسٹ آفس سے باہر آگئے۔

    ’’تمہاری امی کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ انہوں نے فکر مند لہجے میں پوچھا۔

    احمد نے انھیں ایک سنسان گوشے میں روک کر ساری کہانی سنا دی کہ کس طرح اس نے کرائے کی سائیکل لی تھی، دکان دار نے اس سے برف منگوائی، وہاں سے سائیکل چوری ہوگئی اور اب اس دکان دار نے اسے رات آٹھ بجے پارک میں بلایا ہے تاکہ اس مسلے کا حل نکال سکے۔

    اس کے ابّو خوب غور سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے۔ ’’احمد بیٹا۔ میں تم سے بہت خوش ہوں۔ تم نے بہت اچھا کیا کہ بغیر ڈرے مجھ سے ساری بات کہہ دی۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، وہاں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ شیطان صفت لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اپنی شیطانیت سے یہ معصوم لوگوں کو بہت اذیت اور دکھ پہنچاتے ہیں۔ ان مجرموں کو ہم اسی وقت پکڑ سکتے ہیں جب ان کی نشان دہی ہوجائے۔ اس سلسلے میں بچے ایک بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی اجنبی یا جاننے والا شخص، گھر کا کوئی ملازم، کوئی دکان دار انھیں کوئی دھمکی دے، مفت میں کوئی چیز دینے کا لالچ دے یا ان کے ساتھ کوئی ایسی نا مناسب حرکت کرے جو بچوں کو بری لگے تو انھیں چاہیے کہ وہ یہ بات اپنے گھر میں ضرور بتا دیں۔ مجھے یہ بات بتا کر تم نے بہت اچھا کیا۔ اب تم گھر جاؤ۔ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا ایک بہادر لڑکا ہے اور بغیر کسی ڈر خوف کے اپنے ماں باپ سے ہر بات شئیر کرتا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے احمد کو ایک قریبی دکان سے بہت سارے چپس، بسکٹ، ببل گم اور جوس کے ڈبے دلائے اور اسے گھر پہنچنے کی تاکید کی۔ انہوں نے اس سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ اس بارے میں اپنی امی سے فی الحال کوئی بات نہ کرے۔

    اس کے ابّو سات بجے گھر آئے۔ احمد ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اپنے ابّو کو دیکھ کر وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس کے ابّو نے ہاتھ منہ دھویا، کپڑے تبدیل کیے۔ اتنی دیر میں اس کی امی ان کے لیے چائے لے آئیں۔ چائے ختم کر کے اس کے ابّو نے گھڑی کی طرف دیکھا، آٹھ بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ اس کی امی باورچی خانے میں تھیں۔ اس کے ابّو نے اس سے دھیرے سے کہا۔ ’’آٹھ بجنے والے ہیں۔ تم اٹھو اور پارک میں جا کر اس سائیکل والے سے ملو۔ تم یہ ہی ظاہر کرتے رہنا کہ جیسے اگر اس نے تمہارے گھر شکایت کردی تو قیامت آجائے گی۔ خود کو اس بات سے خوفزدہ ظاہر کرتے رہنا کہ تم اپنے باپ سے بہت ڈرتے ہو۔ پھر وہ جو کچھ کہے اس پر عمل کرنا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ کہیں لے جانا چاہے گا۔ تم بے دھڑک اس کی بات مان لینا۔ تم ایک بہادر اور نڈر لڑکے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میری کہی ہوئی باتوں پر پوری طرح عمل کرو گے‘‘۔

    اپنے ابّو کی باتیں سن کر احمد کا حوصلہ بلند ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے ابّو سے کہا کہ وہ جیسا کہہ رہے ہیں وہ ویسا ہی کرے گا۔ پھر وہ خاموشی سے اٹھا اور اداس چہرہ بنا کر پارک میں جا پہنچا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے اسے دس منٹ کی دیر ہوگئی تھی۔ دکان والا وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈال کر کہا۔ “تم لیٹ ہوگئے ہو۔ کچھ دیر اور اگر نہ آتے تو میں تمہارے باپ سے شکایت کرنے گھر پہنچ جاتا۔ میرا آٹھ ہزار کا نقصان ہوگیا ہے۔ آٹھ ہزار روپے کچھ کم نہیں ہوتے۔ تمہارا باپ گھر کا آدھا سامان بیچے گا تو یہ رقم پوری ہوگی‘‘۔

    احمد نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ آپ میرے ابّو کو نہیں جانتے وہ بہت غصے والے انسان ہیں۔ انھیں یہ بات پتہ چل گئی تو میری کھال اتار دیں گے۔ پلیز اس کی شکایت ان سے مت کیجیے گا۔ آپ جو بھی کہیں گے، میں کروں گا‘‘۔

    ’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ میں سوچوں گا‘‘۔ اس دکان دار نے احسان جتاتے ہوئے کہا۔ ’’اس پارک میں تو گھپ اندھیرا ہے۔ میرا گھر کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ چلو وہیں چل کر بات کریں گے‘‘۔

    احمد خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا۔ دس منٹ بعد وہ لوگ بڑے بڑے درختوں سے گھرے ایک گھر کے سامنے پہنچے۔ اس کا دروازہ بند تھا۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ اس دکان دار نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ایک بڑی بڑی مونچھوں والے شخص نے دروازہ کھولا۔ دکان دار احمد کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے گیا۔ وہ تینوں ایک کمرے میں پہنچے۔ احمد کا دل مارے خوف کے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا جسم پسینے پسینے ہو رہا تھا۔

    ’’اوئے گامے۔ یہ لڑکا کون ہے؟‘‘بڑی بڑی مونچھوں والے نے پوچھا۔

    ’’رستم کچھ نہ پوچھ۔ اس لڑکے نے میرا آٹھ ہزار کا نقصان کروا دیا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اس کے باپ سے کہہ کر اپنا نقصان پورا کر لوں۔ مگر یہ میری خوشامد کر رہا ہے کہ اس کے باپ سے کچھ نہ کہوں۔ وہ اس کی کھال اتار دے گا‘‘۔

    ’’گامے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت لڑکا ہے۔ میں بھی سفارش کروں گا کہ معاملہ آپس میں ہی نمٹا لے۔ یہ باپ واقعی بہت ظالم ہوتے ہیں۔ اولاد سے کوئی نقصان ہو جائے تو چھوڑتے نہیں ہیں‘‘۔ رستم نے کہا۔

    احمد لاکھ بہادر سہی، مگر یہاں کا ماحول دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر وہ تھوڑا سا پریشان ہوگیا تھا مگر اسے یہ اطمینان تھا کہ یہ سب کچھ کرنے کو اس کے ابّو نے کہا تھا اور یقیناً وہ اس سے بے خبر نہیں ہوں گے۔ دکان دار جس کا نام گاما تھا بغور احمد کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے رستم سے کہا۔ ’’یہ پہلی دفعہ ہمارے گھر آیا ہے۔ اس کی خاطر مدارات نہیں کرے گا؟‘‘۔

    یہ سن کر رستم فوراً کمرے سے نکلا اور تھوڑی دیر میں ایک پلیٹ میں مٹھائی لے آیا۔ احمد کا ذہن پوری طرح بیدار ہوگیا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ مٹھائی میں بے ہوش کرنے والی کوئی چیز ہوگی۔ اس نے ایک لڈو سیدھے ہاتھ سے اٹھایا، اسے الٹے ہاتھ میں منتقل کر کے پتلون کی جیب میں رکھ لیا، سیدھا ہاتھ منہ تک لے گیا اور اپنی زبان کو ایک گال سے لگائی تو تو گال یوں پھول گیا جیسے اس میں لڈو دبا ہوا ہے۔ پھر احمد نے یوں منہ چلانا شروع کردیا جیسے لڈو کھا رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھا ، فضا میں اپنے ہاتھ چلائے جیسے اسے کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہو، اور پھر آنکھیں بند کر کے زمین پر لمبا لمبا لیٹ گیا۔

    گامے نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’یہ شکار تو بہت جلد جال میں پھنس گیا۔ اب تو ایسا کر کہ اسے اڈے پر پہنچا دے۔ کل سائیکل بھی دکان پر پہنچا دینا جو تو نے برف والے کی دکان کے پاس سے اڑائی تھی۔ وہ سائیکل اتنی خوبصورت ہے کہ ایک آدھ دن میں اس جیسا اور کوئی لڑکا بھی پھنس جائے گا‘‘۔

    احمد دم سادھے زمین پر پڑا ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ یہ لوگ بچوں کو پکڑنے والے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی رستم اسے زمین پر سے اٹھانے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ کسی نے دروازے پر زور دار لات مار کر اسے کھولا اور ایک کڑک دار آواز گونجی۔ ’’خبردار۔ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا‘‘۔

    احمد نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دروازے میں ایک انسپکٹر ہاتھ میں پستول لیے کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے چند سپاہی تھے جو کمرے میں آگئے۔ ان کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بندوقیں تھیں جو انہوں نے گامے اور رستم پر تان رکھی تھیں۔ گاما اور رستم ہکا بکا تھے، کبھی وہ حیرت سے پولیس والوں کو دیکھتے اور کبھی احمد کو۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔

    ’’اب آیا مزہ؟‘‘ احمد نے گامے سے پوچھا۔ ’’تم مجھے میرے ابّو سے ڈرا رہے تھے۔ اب میں تمہیں پولیس سے ڈراؤں گا‘‘۔

    ’’ہم بے قصور ہیں‘‘۔ رستم نے انسپکٹر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لڑکا چور ہے۔ ہمارے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوا تھا‘‘۔

    انسپکٹر نے آگے بڑھ کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے رسید کیا اور بولا۔ ’’بچوں کے اغوا کرنے والے گروہ کو ہم بہت دنوں سے تلاش کر رہے تھے۔ اس بہادر لڑکے کی وجہ سے ہمیں کام یابی ملی ہے۔ اس روشندان میں دیکھو۔ پولیس کے فوٹوگرافر نے تمھاری اور تمہاری سب باتوں کی فلم بنا لی ہے۔ جب یہ لڑکا تم سے پارک میں ملا تھا اور تم اسے دھمکا رہے تھے، وہ منظر اور باتیں بھی کیمرے میں محفوظ ہوگئی ہیں۔ ہم نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ تم ابھی حوالات میں چلو تم سے ہم بڑے پیار سے پوچھ گچھ کریں گے۔ ہم نے وہ تمام بچے بھی بازیاب کروانے ہیں جو تم لوگوں نے اغوا کیے ہیں۔ بچوں کو اغوا کرنا معمولی جرم نہیں۔ اب اس کی سزا موت ہے‘‘۔

    اچانک احمد کی نظر کمرے کے کھلے دروازے پر پڑی۔ وہ خوشی سے نہال ہوگیا۔ دروازے میں اس کے ابّو کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ رکشہ ڈرائیور خلیل بھی کھڑا تھا۔

    خلیل نے کہا۔ ’’میں اس بدمعاش کو پہچان گیا ہوں۔ اسی نے میرے سامنے لال رنگ کی سائیکل چرائی تھی اور سوزوکی میں ڈال کر لے گیا تھا۔ وہ سوزوکی بھی باہر کھڑی ہے‘‘۔

    احمد کے ابّو نے کہا۔ ’’احمد۔ تمھارے پوسٹ آفس سے جانے کے بعد میں انسپکٹر فرخ سے ملا اور انھیں پوری کہانی سنائی۔ انسپکٹر صاحب بہت دنوں سے اس گروہ کی تاک میں تھے۔ میری کہانی سن کر انہوں نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت ہی میں نے تم سے کہا تھا کہ بے فکر ہو کر وہ ہی کرنا جو یہ بدمعاش کہیں۔ اس کے وجہ یہ تھی کہ انسپکٹر صاحب نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے خاص اور ان معاملات کے ماہر آدمیوں کے ساتھ چھپ کر تمھاری نگرانی کریں گے۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی تھا اور سب چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا‘‘۔

    تھوڑی دیر بعد مجرموں کو ہتھکڑیاں لگا کر تھانے کی حوالات میں بند کردیا گیا۔

    اگلے دن اتوار تھا۔ دس بجے کے قریب انسپکٹر فرخ ان کے گھر آیا۔ اس کے ساتھ بہت سے میڈیا والے بھی آئے تھے۔ احمد کے ابّو نے ان لوگوں کو اندر بٹھایا۔ انسپکٹر فرخ نے ان میڈیا والوں سے احمد کا تعارف کروایا اور انھیں پوری کہانی سنائی۔ احمد کی عقلمندی اور بہادری کی داستان سن کر سب دنگ رہ گئے۔ سب نے اس بارے میں اس سے مختلف سوالات کیے اور اس پوری کاروائی کو ٹی وی پر چلانے کے لیے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ احمد کی امی بھی دوسرے کمرے میں موجود تھیں اور پردے کے پیچھے سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ احمد کا کارنامہ سن کر وہ بھی بہت خوش تھیں اور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ سب کے جانے کے وہ احمد کی نظر بھی اتاریں گی۔

    انسپکٹر فرخ نے انکشاف کیا کہ رات ان دونوں بدمعاشوں سے پوچھ گچھ کی گئی تھی اور ان کی نشاندہی پر سولہ معصوم بچے ان کے اڈے سے برامد کر لیے گئے تھے۔ ان بچوں سے وہ لوگ بھیک بھی منگواتے تھے اور محنت مشقت کے کام بھی کرواتے تھے۔ اب ان بچوں کے والدین کا پتہ لگا کر انہیں ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انسپکٹر فرخ نے یہ بھی بتایا کہ پولیس کے محکمے نے احمد کے اس کارنامے پر اسے ایک لاکھ روپے انعام دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور ایک پر وقار تقریب میں اس رقم کا چیک اس کے حوالے کیا جائے گا۔

    یہ سن کر احمد اور اس کے ابّو بہت خوش ہوئے۔ انسپکٹر فرخ نے احمد کو مخاطب کر کے کہا۔’’شاباش احمد۔ تم نے اپنی امی اور استانیوں کا کہا یاد رکھا کہ گھر سے باہر ہونے والی ہر بات اپنی امی یا ابّو کو بتا دینا چاہیے۔ دوسرے بچوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی باہر کا آدمی انھیں ڈرائے دھمکائے ، کوئی چیز دے کر یا اور کوئی لالچ دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرے تو انھیں اس کے بارے میں اپنے گھر والوں کو ضرور بتا دینا چاہیے۔ گھر والے ایسے شیطان صفت لوگوں کا اچھی طرح علاج کرنا جانتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر انسپکٹر فرخ نے اپنے ایک سپاہی کو اشارہ کیا۔ وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت خوب صورت اور چار گیروں والی سائیکل تھی۔

    ’’احمد۔ مجھے تمھارے ابّو نے بتا دیا تھا کہ تمہیں سائیکل چلانے کا کتنا شوق ہے۔ یہ سائیکل میری طرف سے تمھارے لیے اس بات کا ایک تحفہ بھی ہے اور انعام بھی ہے کہ تم نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قانون کی مدد کی۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ تمہیں بے حد پسند آئے گی‘‘۔

    احمد کی آنکھیں تو کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے کہا۔ ’’بدمعاشوں کے ڈیرے پر تو میں جھوٹ موٹ کا بے ہوش ہوا تھا مگر اب تو میرا جی چاہ رہا ہے کہ سچ مچ بے ہوش ہو کر گر پڑوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ خوشی سے انسپکٹر فرخ سے لپٹ گیا اور بولا۔ ’’انسپکٹر انکل۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!‘‘۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے