Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دانیال، دادا اور جائسی

ذکیہ مشہدی

دانیال، دادا اور جائسی

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    دہلی کا ایسٹ آف کیلاش کھاتے پیتے، پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ ہے۔ اسی سے ملا ہوا گڑھی۔ گڑھی میں جو لوگ رہتے ہیں وہ اتنے پیسے والے نہیں ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔ سنتے ہیں گڑھی پہلے ایک دیہات تھا۔ اب بھی دیہات جیسا ہی لگتا ہے۔ مکان بہت معمولی ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کمرے کم کرایے میں مل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں باہر سے آنے والے بہت سے طالب علم بھی رہتے ہیں۔

    دانیال ایسٹ آف کیلاش میں رہتے ہیں۔ وہ دہلی پبلک اسکول کی چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں۔ ان کے دادا ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں۔ گھر پر وہ دانیال کو اردو خود پڑھاتے ہیں۔ ان کے گھر کے پاس سے ایک سڑک نیچے ڈھلان پر اترتی ہے۔ یہ گڑھی میں جاتی ہے۔ صبح صبح یہ سڑک جاگ اٹھتی ہے۔ گڑھی کے باسی اپنے اپنے کام دھندوں کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ کچھ بچے بستہ لٹکائے اسکول جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ گڑھی میں رہنے والے بچے مہنگے اسکول میں نہیں پڑھتے۔

    دانیال کی بس تھوڑی سی دور پر واقع چوڑی سڑک پر آکر رکتی ہے۔ دادا انہیں وہاں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔ گڑھی سے آنے والے لوگوں کی ساری رونق روز ان کی نظر کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ایک دن انہیں دو لڑکے دکھائی دیے۔ یہی کوئی سولہ سترہ برس کے انہیں دانیال نے ذرا دلچسپی سے دیکھا۔ ان کا رنگ عجیب سا تھا۔ نہ گورا نہ کالا۔ نہ سانولا۔ زردی مائل۔ پیلا پیلا سا۔ ان کی آنکھیں ترچھی تھیں۔ قد بہت کم تھا۔ دانیال نے ایسی شکل صورت کے لوگ پہلے نہیں دیکھے تھے۔

    ’’دادا، یہ لوگ کچھ عجیب سے نہیں ہیں‘‘ دانیال سے رہا نہ گیا۔ وہ دادا سے پوچھ ہی بیٹھے۔

    ’’شاید یہ نارتھ ایسٹ سے آئے ہیں۔ طالب علم معلوم ہوتے ہیں‘‘ دادا نے کہا۔ لیکن تم پلٹ پلٹ کر دیکھو مت۔ بری بات ہے۔

    ’’نارتھ ایسٹ مطلب؟‘‘

    تم نے اسکول میں ہندوستان کا نقشہ دیکھ کر سمجھا ہے نہ؟ شام کو اردو پڑھنے بیٹھو ’’تو اسے نکال لینا۔ نارتھ ایسٹ سمجھا دوں گا۔ ادھر کے لوگ اسی نسل کے ہوتے ہیں‘‘۔

    دانیال نے سر ہلایا۔ تب تک وہ لڑکے آگے بڑھ چکے تھے۔

    دو تین دن بعد وہ لڑکے پھر دکھائی دیے۔ اس مرتبہ دانیال پلٹے اور ان کی طرف دیکھ کر چلائے چنکی۔ نک چپٹے نک چپٹے۔ چنکی لڑکوں کے چہرے پر کچھ گھبرائے دکھائی دی اور کچھ غصہ بھی۔

    دادا نے خفگی سے دانیال کو دیکھا لیکن تب تک بس آ چکی تھی۔ دانیال لپک کر بس پر چڑھ گئے۔ تبھی دو لڑکوں نے بس کی کھڑکی سے منہ نکالا اور چلائے۔ پیلئے پیلئے ایک لڑکا بولا ’چیو‘ دلی میں کیا کر رہے ہو Go back to your jungles۔ شام کو دادا نے دانیال کا ہوم ورک کرایا۔ ایک صفحہ اردو کی کتاب پڑھائی۔ پھر ان کے ساتھ شام کی چائے پینے بیٹھے چائے کے ساتھ گرم گرم پکوڑے تھے اور سوجی کا حلوہ۔ دانیال کے لیے چائے کی جگہ ایک گلاس دودھ تھا۔ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے دادا نے کہا۔ ’’دانیال آج صبح آپ نے ان لڑکوں پر آوازے کسے تھے‘‘۔

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ آپ نے انہیں چڑایا تھا۔‘‘

    ’’کس کو دادا؟‘‘

    ’’وہی جن کے بارے میں ایک دن آپ کو بتایا تھا کہ وہ نارتھ ایسٹ کے ہوں گے‘‘۔

    ’’ارے وہ۔ انہیں چڑایا کہاں تھا۔ انہیں تو سب ہی نک چپٹا کہتے ہیں۔ دادا ان کی صورتیں عجیب سی نہیں ہوتیں؟ چمپا نزی جیسی۔ ’’دادا کے چہرے پر خفگی دیکھ کر وہ جلدی سے بولے۔‘ یہ ہم نہیں کہتے۔ یہ دوسرے کہتے ہیں۔‘‘

    ’’دانیال اگر کوئی غلط کام بہت سے لوگ کرنے لگیں تو وہ صحیح نہیں ہو جاتا اور کوئی عجیب سا بھی اس لیے نہیں ہو جاتا کہ وہ تم سے الگ طرح کا ہے‘‘۔

    دانیال چپ رہے۔

    دادا نے کہا: ’’آپ نے ملک محمد جائسی کا نام سنا ہے؟‘‘

    ’’نہیں دادا ۔‘‘ پھر جلدی سے بولے۔ ’’آپ کے دوست ہیں کیا؟‘‘

    دادا مسکرائے لیکن مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے بولے، ’’یہ ایک صوفی تھے۔ اودھی میں شاعری کرتے تھے۔ اب آپ پوچھیں گے صوفی کون اور اودھی کیا تو آپ کے پوچھنے سے پہلے بتا دیں۔ صوفی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بہت سادگی سے رہتے ہیں۔ یہ سب سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرے کو بھی محبت کرنا سکھاتے ہیں۔

    اور اودھی ایک بولی ہے۔ یہ یو پی کے اودھ کے علاقے میں آج بھی بولی جاتی ہے۔

    ملک محمد جائسی آپ کے دادا کے دوست نہیں ہیں وہ لگ بھگ پانچ سو برس پہلے گزرے ہیں۔ پانچ سو سمجھتے ہیں آپ؟‘‘

    ’’کم آن دادا۔ اب ہم پانچ سو نہیں سمجھیں گے۔ فائیو ہنڈرڈ۔ انہوں نے آنکھیں پھیلائیں۔ یہ تو بہت ہو گیا‘‘۔

    ’’ملک محمد بہت کالے تھے۔ ان کا چہرہ داغوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان کی ملاقات شیر شاہ سے ہوئی تو وہ ان کو دیکھ کر ہنس پڑا۔ پتہ ہے شیر شاہ کون تھا ہے‘‘۔

    ’’نہیں دادا‘‘۔

    ’’شیر شاہ اس وقت کا بادشاہ تھا۔ تب ہندوستان میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ آگے تم تاریخ میں پڑھوگے‘‘۔ اب دانیال دلچسپی سے سن رہے تھے۔

    پتہ ہے انہوں نے کیا کہا؟ انہوں نے اپنی اودھی زبان میں کہا، ’’موکو ہے سی کہ کوہر ہی‘‘۔

    ’’مطلب سمجھے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھ پر ہنس رہے ہو کہ مجھ کو بنانے والے کمہار پر۔ کمہار یعنی اللہ جس نے مجھے بنایا۔ بادشاہ کانپ اٹھا۔ اس نے گڑ گڑاکر معافی مانگی۔

    دانیال بت بنے سنتے رہے۔

    ’’اور پتہ ہے بیٹا، انہیں ملک محمد جائسی نے اللہ کے بارے میں کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا ہے!

    ’’بدھنا کے مارگ ہیں تے تے، سرگ نکھت تن روواں جے تے‘‘ یعنی اللہ تک پہچنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنے آسمان پر تارے۔ یا جسم پر روئیں۔ یہ بات کہنے کا طریقہ ہے مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اپنے طریقے سے ملک تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی تم سے الگ دکھائی دیتا ہے تو وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔ کوئی تم سے الگ طریقے سے عبادت کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کا بندہ ہے‘‘۔

    ’’پر، دادا۔ تھوڑا بہت چڑانا اتنی بری بات تو نہیں‘‘۔

    ’’اگر آپ کھیل کھیل میں کسی دوست کو چڑائیں تو بیشک نہیں لیکن کسی کو کم تر سمجھ کر چڑائیں تو بری ہی نہیں، بہت بری بات ہے۔ یاد رکھیے معمولی چڑ کبھی کبھی گہری نفرت میں بدل جاتی ہے‘‘۔

    ’’آئی ایم ساری، دادا‘‘ دانیال نے دھیرے سے کہا۔

    سوری آپ ان لڑکوں سے کہیےگا جب وہ اگلی بار ملیں

    ’’جی دادا اور ہم ملک محمد جائسی کی شاعری بھی پڑھیں گے‘‘۔

    جب آپ کچھ اور بڑے ہو جائیں گے تو ہم خود آپ کو پڑھائیں گے اور اودھی کے ایک اور عظیم شاعر تلسی داس کو بھی۔ یاد رکھیے آپ بڑے ہو کر کچھ بنیں، زبان اور ادب سے ضرور جڑے رہیےگا۔ ادب آپ کو انسان سے جوڑےگا‘‘۔

    ’’اور ہاں۔ دادا نے ہنس کر کہا۔ ذرا دودھ پی لیجئے۔ غچہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ممی سے ڈانٹ کھانے کا ارادہ ہے کیا؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے