Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو چھوٹوں کا بڑا کام

مختار احمد

دو چھوٹوں کا بڑا کام

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    قمر کی امی کی طبیعت کئی روز سے خراب تھی۔ ان کو فکریں بھی تو بہت تھیں۔ اس کے ابّا روزگار کی غرض سے سعودی عرب میں کسی تیل کی کمپنی میں ملازم تھے۔ وہاں کی شدید گرمی تو بہت مشہور ہے اور پھر ان کا تو کام ہی ایسا تھا کہ انھیں ریگستانوں میں کام کرنا پڑتا تھا اور ریگستانوں میں تو اور بھی زیادہ گرمی ہوتی ہے۔ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں کام کرنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ گھر اور گھر والوں سے دوری کی بھی اپنی پریشانی ہوتی ہے۔اس کا اظہار وہ فون پر کرتے رہتے تھے۔

    ان کی تکلیفوں کے متعلق سوچ سوچ کر قمر کی امی ہر دم فکر مند رہتی تھیں۔ ان کے تین بچے تھے۔ احمر بھائی، قمر اور گڑیا۔ ان تینوں کی اچھی تعلیم اور گھریلو اخراجات کو اچھی طرح سے پورا کرنے کی وجہ سے ہی ان کے ابّا پردیس گئے تھے اور وہاں کی صعبوتیں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔

    احمر بھائی قمر اور گڑیا سے بڑے تھے اور ان کی عمر بائیس سال کی تھی۔ قمر بارہ سال کا اور گڑیا دس سال کی تھی۔ احمر بھائی نے کمپیوٹر سائنس میں بی ای کی ڈگری حاصل کر لی تھی۔ وہ آگے بھی پڑھنا چاہ رہے تھے مگر گھر کے حالات دیکھ کر انہوں نے سوچا کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کوئی نوکری بھی کرلیں۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ جیسے ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے، ابّا جان سے کہیں گے کہ اب وہاں سے نوکری چھوڑ کر پاکستان آجائیں۔ ادھر انھیں ڈگری ملی ادھر وہ نوکری کی تلاش میں لگ گئے۔

    وہ روز کہیں نہ کہیں درخواست بھیجتے رہتے تھے۔ قمر کی امی ہر دم دعا کرتی تھیں کہ انھیں اچھی سی نوکری مل جائے۔ اسی دوران انھیں ٹیسٹوں اور انٹرویو دینے کے لیے مختلف اداروں میں جانا پڑتا تھا۔ بہت سی درخواستیں بھیجنے اور انٹرویو دیتے دیتے انھیں ایک روز امید کی کرن نظر آئی۔

    انہوں نے کمپیوٹر کے کاروبار سے منسلک کسی بڑی پرائیویٹ کمپنی میں درخواست بھیجی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا اور ہر کلاس میں انہوں نے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی ہوئی تھی۔ وہاں ان کا ٹیسٹ بھی ہوا تھا جسے انہوں نے بہترین طریقے سے پاس کرلیا تھا اور پھر ایک روز اسی کمپنی سے ان کے فائنل انٹرویو کا لیٹر بھی آگیا۔

    احمر بھائی بہت خوش تھے۔ انھیں پورا یقین تھا کہ انھیں منتخب کرلیا جائے گا۔ انٹرویو سے ایک روز پہلے انہوں نے ساری تیاری مکمل کرلی تھی۔ شام کو اچانک قمر کی امی کا بخار تیز ہوگیا اور انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑ گیا۔ ان کا بخار کئی روز سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس بات نے ڈاکٹر صاحب کو بھی فکرمند کردیا تھا۔ انہوں نے ان کی کچھ دوائیں تبدیل کیں اور امید ظاہر کی کہ اب وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔

    اگلے روز اتوار تھا مگر کمپنی والوں نے تمام امیدواروں کو اسی روز انٹرویو کے لیے بلایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے واپس گھر آ کر امی نے ہمت کی اور رات کے کھانے کا انتظام کیا۔ تینوں بہن بھائیوں نے کھانا بنانے میں ان کی مدد کی۔ رات کے نو بجے بچوں نے کھانا کھالیا تو وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ خود انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بخار کی وجہ سے کچھ کھانے کو ان کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ جلدی سوئیں گی تو صبح جلدی بیدار ہوجائیں گی تاکہ احمر بھائی ٹھیک وقت پر انٹرویو دینے کے لیے گھر سے نکل جائیں۔

    تینوں بچوں کو اس بات کی تشویش تھی کہ امی بغیر کچھ کھائے پیے سونے کے لیے چلی گئی تھیں۔ بخار کی وجہ سے ڈاکٹر نے انھیں روٹی کھانے کو منع کردیا تھا اس لیے تینوں بہن بھائیوں نے مل کر ان کے لیے دلیہ بنایا۔ دلیے کے ساتھ دودھ کا گلاس اور ایک سیب کا چھلکا اتار کر اس کی باریک باریک قاشیں بھی کاٹ کر ان کے سامنے رکھیں۔ وہ بہت خوش ہوئیں، ان کا کچھ کھانے کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا مگر اپنے بچوں کی محبّت اور خلوص دیکھ کر انھیں کھانا پڑا۔ کھانے سے فارغ ہوئیں تو احمر بھائی نے نسخہ دیکھ کر انھیں دوائیں کھلائیں اور پھر انھیں بستر میں لٹا کر یہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔

    یہ اگلے روز کا واقعہ ہے۔ قمر کی امی کی آنکھ کھلی تو سب سے پہلے ان کی نظر گھڑی پر پڑی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ بری طرح گھبرا گئیں۔

    غضب ہوگیا۔ اس وقت گیارہ بج رہے ہیں۔ رات میری دوا میں شائد نیند کی گولیاں بھی تھیں۔ ان گولیوں کی وجہ سے میری آنکھ ہی نہیں کھل سکی۔ میرے احمر کا انٹرویو رہ گیا۔ کتنی مشکلوں کے بعد یہ موقع آیا تھا”۔ یہ کہتے کہتے وہ نقاہت کے عالم میں بستر سے اتریں اور دھیرے دھیرے قدموں سے چلتے ہوئے کمرے سے باہر آئیں۔ اس دوران ان کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔ انھیں اس بات کا بہت افسوس ہو رہا تھا کہ ان کے سویرے نہ اٹھنے کی وجہ سے احمر انٹرویو دینے نہ جا سکا ہوگا۔ ان کے برابر والا کمرہ قمر اور گڑیا کا تھا۔ انہوں نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ قمر اور گڑیا دونوں کرسیوں پر بیٹھے کہانیوں کی کتابیں پڑھ رہے تھے۔ امی کو دیکھا تو دونوں کھڑے ہوگئے۔

    ’’امی۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ بخار میں کچھ کمی ہوئی؟‘‘۔ قمر نے پوچھا۔

    ’’دوا میں شائد نیند کی گولیاں بھی تھیں۔ میری آنکھ ہی نہیں کھل سکی۔ احمر کا انٹرویو رہ گیا‘‘۔ انہوں نے افسوس سے کہا اور دوپٹے سے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو صاف کرنے لگیں۔

    قمر تیزی سے ان کے پاس پہنچا اور محبّت سے ان کا ہاتھ تھام کر بولا۔ ’’امی۔ آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔ مجھے اور گڑیا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بخار کی وجہ سے آپ کو صبح اٹھنے میں دشواری ہوگی۔ احمر بھائی کا انٹرویو بھی اہم تھا۔ یہ خیال آیا تو میں نے اور گڑیا نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم رات بھر نہیں سوئیں گے تاکہ صبح ٹھیک وقت پر احمر بھائی کو جگا دیں۔ ہم جاگتے رہے، جاگتے رہے۔ اس دوران ہم آپ کو بھی دیکھتے رہے تھے کہ آپ کو پانی وغیرہ تو نہیں چاہیے۔ گڑیا نے آپ کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر آپ کے بخار کو بھی چیک کیا۔ شکر ہے کہ وہ اتر گیا تھا جس کی وجہ سے آپ بہت مزے سے گہری نیند سو رہی تھیں۔ رات بہت جلدی گزر گئی۔ نماز کے وقت ہم نے احمر بھائی کو بھی اٹھا دیا تھا۔ ہم نے نماز میں آپ کی صحت اور احمر بھائی کی کامیابی کی دعا بھی کی۔ جب دن نکل آیا تو احمر بھائی مارکیٹ سے حلوہ پوری کا ناشتہ لے آئے۔ ہم تینوں نے مزے سے ناشتہ کیا۔ آٹھ بجے تیار ہو کر احمر بھائی گھر سے نکل چکے تھے۔ ان کے انٹرویو کا وقت نو بجے تھا‘‘۔

    امی بے یقینی سے کبھی قمر کو اور کبھی گڑیا کو دیکھے جا رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر کچھ دیر پہلے جو پریشانی تھی وہ ختم ہوچکی تھی۔ تھوڑی دیر تک انھیں یوں ہی دیکھتے دیکھتے یکا یک وہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور بولیں۔’’ جیتے رہو میرے بچو۔ تم نے تو میرا دل خوش کردیا۔ مجھے پتہ تھا کہ تم لوگ بہت ذمے دار ہو مگر اتنے ذمے دار ہوگے یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا‘‘۔

    قمر نے کہا۔’’امی جان۔ دوسرے ماں باپوں کی طرح آپ نے اور ابّا جان نے بھی ہماری پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنی پوری زندگی صرف کر دی ہے۔ ہماری خوشیوں کے لیے آپ دونوں انتھک محنت کرتے ہیں۔ اپنی تمام ضروریات کو ایک طرف رکھ کر ہماری خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ خود تکلیفیں اٹھا کر ہمارے لیے آرام مہیا کرتے ہیں۔ ہماری خاطر ابّا جان کتنے عرصے سے پردیس میں ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ یہاں آپ صبح سے رات تک ہمارے ہی کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ کیا یہ ہمارا فرض نہیں بنتا کہ وقت پڑنے پر ہم آپ کی خدمت کریں اور آپ کے کام آئیں؟‘‘۔

    ’’مجھے تو یہ بھی پتہ ہے امی جان کہ اگر اولاد زندگی بھر چوبیس گھنٹے بھی اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی رہے تو پھر بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ ماں باپ کی خدمت کرو تو اس بات سے الله میاں بھی بہت خوش ہوتے ہیں‘‘۔ گڑیا کو کسی کتاب میں پڑھی ہوئی یہ بات یاد آگئی تھی اس لیے موقع کی مناسبت سے اس نے اسے دوہرادیا۔

    امی نے دونوں بچوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ اسی وقت باہر کا دروازہ کھلا اور احمر بھائی کی چہکتی ہوئی آواز ان کے کانوں میں آئی۔ ’’امی جان۔ مبارک ہو۔ آپ کی اور ابّا جان کی دعاؤں سے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ مجھے سوفٹ ویر انجنیئر کا تقرری نامہ مل گیا ہے۔ کل سے میں اپنی ڈیوٹی جوائن کرلوں گا۔ اب ابّا جان کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ پردیس کی تکلیفیں جھیلیں۔ انشا الله اب وہ بھی بہت جلد ہمارے ساتھ ہوں گے‘‘۔ یہ کہتے کہتے احمر بھائی وہاں آگئے۔ ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔

    ان کی بات سن کر امی نے خدا کا شکر ادا کیا اور بولیں۔ ’’تمھاری اس کامیابی میں قمر اور گڑیا کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ دونوں اگرچہ چھوٹے ہیں مگر انہوں نے کام بہت بڑا کیا ہے کیوں کہ اگر دونوں رات بھر جاگ کر تمہیں صبح نہیں اٹھاتے تو پھر کیا ہوتا۔ تمہارا انٹرویو تو رہ جاتا۔ تم خود بھی ایسے ہو کہ بغیر کسی کے اٹھائے اٹھتے نہیں ہو۔ ادھر میں بھی سوتی کی سوتی رہ گئی تھی‘‘۔

    ’’امی اسی لیے تو کہتے ہیں کہ اگر گھر کے تمام لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو سارے کام بخیر و خوبی انجام پا جاتے ہیں۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اگر قمر اور گڑیا مجھے نہ اٹھاتے تو میں بھی سوتا رہتا اور اس طرح میرا انٹرویو بھی نہ ہوتا۔ یہ دونوں چھوٹے ہیں مگر ان میں احساس ذمہ داری اور دوسروں کا بغیر کہے خیال رکھنے کی بہت اچھی عادت موجود ہے‘‘۔

    ’’گڑیا۔ جب اتنی تعریف ہو رہی ہو تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم شرما جائیں‘‘۔ قمر نے یہ کہتے ہوئے امی کے دوپٹے میں اپنا منہ چھپا لیا۔ اس کی اس حرکت پر سب بے ساختہ ہنس پڑے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے