ایک پولیس والا اور ایک چور
عارف اور طارق دو نوں بھائی تھے۔ ایک روز جب ان کے ماموں سعودی عرب سے پاکستان آئے تو ان کے ہی گھر ٹہرے۔ وہ اپنے دونوں بھانجوں کے لیے جہاں کپڑے اور جوتے وغیرہ لائے، وہیں ان کے لیے بہت سے کھلونے بھی لے کر آئے تھے۔ ان کھلونوں میں ایک پولیس ٹوائے سیٹ بھی تھا جس میں سائرن والی پولیس کی گاڑی، ایک لکڑی کی بندوق، ایک میگا فون، پلاسٹک کی ہتھکڑیوں کا ایک جوڑا اور پیتل کی ایک سیٹی شامل تھی۔ دونوں بھائیوں کو اور تو کوئی کھلونا اتنا پسند آیا نہیں تھا جتنی یہ چیزیں پسند آئیں اور دونوں بھائی مل کر چور سپاہی کا کھیل کھیلنے لگے۔
سیٹی کی آواز بہت تیز تھی اور زیادہ زور سے بجاؤ تو کان سن ہوجاتے تھے۔ ان کی امی اس سیٹی کی وجہ سے بہت تنگ آگئی تھیں۔ ایک بار تو ان کے بار بار سیٹی بجانے سے وہ جھنجھلا بھی گئی تھیں اور انہوں نے عارف اور طارق کو منع بھی کیا تھا کہ وہ اسے اتنی زور سے نہ بجائیں۔ ان کے کان سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے تو دونوں بھائی محتاط ہوگئے اور سیٹی کی آواز ہلکی ہوگئی مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ سیٹی کو پھر زور زور سے بجانے لگے۔
جب عارف پورے زور سے سیٹی کو لگا تار تین دفعہ بجاتا تو اس کی آواز سنتے ہی طارق میگا فون پر زور سے چلاتا۔ پولیس۔ پولیس۔ بھاگو۔ بھاگو!”۔ پھر پورے گھر میں ان کی بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی۔
دوپہر کے کھانے پر جب وہ سب جمع ہوئے تو ان کی امی نے شکایتی لہجے میں اپنے بھائی سے کہا۔ “عامر۔ یہ تم نے بچوں کو کیا لا کر دے دیا ہے۔ میری ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے دونوں نے”۔
ان کے عامر ماموں مسکرا کر بولے۔ “آپی اپنا بچپن بھول گئیں۔ کوڑا جمال شاہی اور پہل دوج کھیلتے ہوئے کیسا اودھم مچاتی تھیں۔ مجال ہے جو امی کو دوپہر کو سکون سے سونے دیں۔ یہ بچے ہیں۔ کھیلیں گے تو ضرور”۔
“کھیلیں مگر کھیل بھی تو کوئی ڈھنگ کا ہو۔ یہ کیا کہ ایک پولیس والا بنا ہوا ہے اور دوسرا چور بن کر پورے گھر میں بھاگا بھاگا پھر رہا ہے”۔ ان کی امی کو اپنے بچپن کے ساتھ ساتھ اپنی امی بھی یاد آگئیں اس لیے وہ مسکرانے لگیں۔
عارف نے کہا۔ “امی بڑا ہو کر میں پولیس والا بنوں گا۔ سارے چوروں کو پکڑ پکڑ کر جیل میں بند کردوں گا”۔
“اور تم کیا بنو گے؟” امی نے طارق سے پوچھا۔ “عارف سیٹی بجاتا ہے تو تم چیخ چیخ کر پولیس پولیس بھاگو بھاگو کہہ کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتے ہو۔ ایسا تو چور ڈاکو کرتے ہیں”۔
طارق جلدی سے بولا۔ “میں بھی پولیس والا ہی بنوں گا۔ چور بننا اچھی بات نہیں ہے۔ وہ تو میں عارف کے ساتھ کھیلنے کے لیے جھوٹ موٹ کا چور بن جاتا ہوں”۔
“ٹھیک ہے۔ اب خاموشی سے کھانا کھا کر اسکول کا کام کرنے بیٹھ جاؤ۔ اگلے ہفتے سے تم لوگوں کے ماہانہ ٹیسٹ ہونگے۔ ان کی تیاری بھی کرنا ہے”۔
امی کی بات سن کر دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ شام ہوئی تو دونوں بھائی لان میں پھر اسی کھیل میں مصروف ہوگئے۔ ان کی امی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔ وہ اپنے بھائی عامر کی شادی کے متعلق بھی سوچ رہی تھیں جو ایک ہفتے بعد ہونا تھی۔ ان کا بھائی اپنی شادی کے سلسلے میں ہی یہاں آیا تھا۔ کل انھیں اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ دلہن کے زیورات خریدنے کے لیے بازار بھی جانا تھا۔ وہ ان ہی خیالوں میں گم تھیں کہ اچانک ان کے کانوں میں پھر سیٹی کی تیز آواز آئی۔ ہانڈی میں چلانے والا چمچہ ان کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا تھا۔ انہوں نے گھوم کر دیکھا۔ پولیس والا ہاتھ میں لکڑی کی گن تھامے اور منہ میں سیٹی لیے کھڑا تھا اور چور کچن کے دروازے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“ٹہرو تو ذرا ابھی مزہ بتاتی ہوں”۔ یہ کہہ کر وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچہ لے کر ان کی طرف بڑھیں، انھیں اس حالت میں اپنی طرف آتا دیکھ کر دونوں ہنستے ہوئے وہاں سے بھاگ گئے۔
یہ اسی رات کا ذکر ہے۔ عارف اور طارق سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ وہ لوگ رات نو بجے تک سوجایا کرتے تھے۔ اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ ان کی امی نے یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں، ان کے کمرے میں جھانکا۔ کمرے میں زیرو کی مدھم روشنی کا بلب جل رہا تھا اور دونوں بھائی اپنے بستر پر وہ ہی پولیس اور چور والے کھلونے لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی امی نے تیز آواز میں کہا۔ “گیارہ بج رہے ہیں۔ تم لوگ سوئے نہیں ابھی تک؟”
“امی نیند نہیں آرہی۔ بس ابھی تھوڑی دیر میں سوجائیں گے”۔ طارق نے خوشامد بھرے لہجے میں کہا۔ وہ غصے سے بڑبڑاتے ہوئے واپس چلی گئیں۔
عامر ماموں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ انھیں عارف کے ابو نے اپنے کمرے میں بلا لیا۔ وہ اٹھ کر گئے تو انہوں نے ان سے بیٹھنے کا کہا پھر بولے۔ “کل یہ لوگ تمھاری ہونے والی بیوی کا زیور لینے صرافہ بازار جائیں گے۔ میں تو آفس میں ہونگا۔ جلدی آنا مشکل ہوگا۔ تم ان کے ساتھ چلے جانا۔ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بدقماش لوگ ایسی جگہوں پر گھومتے رہتے ہیں۔ تم ساتھ ہوگے تو ذرا اطمینان رہے گا”۔
ابھی ان کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ان کی بیوی کے منہ سے ایک خوف بھری چیخ نکل گئی۔ ان کا منہ دروازے کی طرف ہی تھا۔ دونوں نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں ایک لمبا تڑنگا شخص ہاتھ میں پستول لیے دروازے میں کھڑا ہے۔ اس نے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا، سر پر کیپ تھی اور منہ پر وہ ماسک لگایا ہوا تھا جو لوگ الرجی کی وجہ سے لگا لیتے ہیں۔ شائد ڈرائنگ روم کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی جس میں سے گزر کر وہ گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔
“کون ہو تم۔ کیا چاہتے ہو؟” ان کے ابّو نے کڑک کر پوچھا۔
“پستول دیکھ کر بھی نہیں سمجھ سکتے کہ میں کون ہوں اور کیا چاہتا ہوں”۔ اس نے عجیب سی بھاری آواز میں کہا۔ پھر وہ عامر ماموں سے مخاطب ہوا۔ “سعودی عرب سے بہت پیسہ کما کر لائے ہو۔ جلدی سے سارا مال نکال دو ورنہ ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ میں بڑی مشکلوں سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ جگہ جگہ پولیس لگی ہوئی ہے۔ پولیس کی ایک گاڑی میں نے اس گلی کے نکڑ پر بھی دیکھی تھی مگر میں انھیں بھی جل دے کر آگیا ہوں۔ بس یہ سمجھ لو کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر آیا ہوں۔ ذرا سی بھی مزاحمت کی تو گولی مار دوں گا”۔
ان کی امی کا منہ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا۔ ان کے ابّو نے سوچا کہ اگر انہوں نے مزاحمت کی تو یہ ڈاکو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ وہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ عامر ماموں بولے۔ “آپی میری لائی ہوئی تمام رقم میرے سوٹ کیس میں موجود ہے۔ وہ اس کے حوالے کردیں”۔ پھر انہوں نے ڈاکو سے کہا۔ “ تم ساری رقم لے جاؤ۔ مگر جلدی یہاں سے چلے جاؤ”۔
کمرے کی تینوں بڑی کھڑکیاں اگرچہ کھلی ہوئی تھیں اور ان سے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اندر آ رہے تھے، اس کے باوجود ان کی امی اور ابّو کے چہرے پسینے میں ڈوب گئے تھے۔ ان کی امی لڑکھڑاتے ہوئے اٹھیں اور کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے بیڈ کے نیچے رکھا ہوا عامر ماموں کا سوٹ کیس گھیسٹ کر باہر نکالنے لگیں۔
“ساری رقم اور دوسری قیمتی چیزیں نکال کر اس تھیلے میں بھر دو۔ اگر کوئی چالاکی کی تو یاد رکھنا بہت برا ہوگا”۔ اس ڈاکو نے بڑے ہی خوفناک لہجے میں کہا اور ایک تھیلا جیب سے نکال کر ان کی طرف پھینک دیا۔
ادھر اس کی بات ختم ہوئی اور ادھر اچانک فضا میں پولیس کی گاڑی کا تیز سائرن گونجنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد زوردار سیٹیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے بعد میگا فون سے آواز ابھری۔ “پولیس۔ پولیس۔ بھاگو۔ بھاگو”۔
یہ آوازیں بالکل قریب سے ہی آرہی تھیں اور ایسا معلوم دیتا تھا جیسے پولیس ان کی کوٹھی میں گھس آئی ہے۔ ان آوازوں کو سن کر ڈاکو کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پستول جیب میں رکھ کر وہ کمرے کی کھڑکی کی طرف بھاگا اور باہر کود گیا۔ اس کے کودتے ہی اس کی ایک دلدوز چیخ بھی فضا میں گونجی تھی۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ ان تینوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا۔ وہ یہ تو سمجھ گئے تھے کہ سیٹی عارف نے بجائی تھی اور میگا فون پر پولیس پولیس طارق چلایا تھا مگر کیوں؟ کیا انھیں پتہ چل گیا تھا کہ ان کے گھر ڈاکو گھس آیا ہے۔ وہ تینوں جلدی سے ان کے کمرے کی طرف گئے۔
ان کے ابّو نے کمرے کا بند دروازہ کھولا۔ اندر بہت کم روشنی تھی۔ انہوں نے دیکھا دونوں بھائی بستر پر اپنے کھلونے بکھرائے بیٹھے ہیں۔ گاڑی کی لال نیلی روشنیاں جل بھج رہی تھیں اور پولیس کا سائرن مسلسل بج رہا تھا۔ عارف کے ہاتھ میں سیٹی تھی۔ اپنے ابّو کو
دیکھ کر دونوں گھبرا گئے اور جلدی سے لیٹتے ہوئے بولے۔ ابّو۔ ہم لوگ بس سونے ہی والے تھے”۔
“گھبراؤ نہیں”۔ ان کے ابّو بڑے پیار سے بولے۔ “تمہیں پتہ نہیں ہے کہ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے”۔
پھر انہوں نے اپنے موبائل پر پولیس اسٹیشن کے نمبر ملائے اور اس واردات کے متعلق بتایا اور درخواست کی کہ ان کے ایڈریس پر پولیس بھیج دی جائے تک ڈاکو کو گرفتار کیا جاسکے”۔
انہوں نے فون بند کر کے جیب میں رکھا تو عامر ماموں انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ “دولہا بھائی۔ ڈاکو تو فرار ہو چکا ہے۔ آپ نے بھی دیکھا تھا کہ وہ کھڑکی سے باہر کود گیا تھا” انہوں نے حیرت بھری آواز میں کہا۔
“وہ فرار نہیں ہو سکا ہے”۔ ان کے ابّو نے مسکرا کر کہا۔ “یہاں پانی کی بہت پریشانی رہتی ہے۔ ہم نے اس کھڑکی کے نیچے ایک بڑا پانی کا ٹینک بنوانے کے لیے پندرہ سولہ فٹ گہری زمین کھدوا رکھی ہے اور اس کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ ڈاکو کو یہ بات پتہ نہیں تھی، وہ کھڑکی سے کودا تو سیدھا اسی گڑھے میں جا گرا ہوگا جس کی وجہ سے اس کے منہ سے چیخ بھی نکلی تھی۔ ٹینک اتنا گہرا ہے کہ وہ کسی مدد کے بغیر باہر نہیں آسکتا”۔
سب لوگ جلدی سے ان کے کمرے میں آئے اور نیچے جھانک کر دیکھا۔ یہ گھر کا پچھلا حصہ تھا۔ باہر ایک ٹیوب لائٹ لگی تھی۔ اس کی روشنی میں انہوں نے دیکھا وہ ڈاکو اچھل اچھل کر اس گڑھے میں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
امی نے عارف اور طارق کو بہت شاباش دی اور بولیں۔ “اب تو میں تمہیں چور سپاہی کا کھیل کھیلنے سے کبھی منع نہیں کرونگی۔ چاہے تم لوگ کتنی ہی زور سے سیٹی کیوں نہ بجاؤ”۔
دونوں بھائی خوش ہوگئے۔ انھیں اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ ان کی وجہ سے ڈاکو پکڑا گیا تھا۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ علاقے کا انسپکٹر جیپ میں سوار اپنے سپاہیوں کے ساتھ آ موجود ہوا۔ ڈاکو بھی سمجھ گیا تھا کہ اب اس کا بچنا محال ہے۔ سپاہیوں کے کہنے پر اس نے اپنا پستول باہر پھینک دیا۔ سپاہیوں نے اسے رسیوں کی مدد سے باہر نکالا اور ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
انسپکٹر کو جب پتہ چلا کہ اس کارنامے کے ہیرو عارف اور طارق ہیں تو اس نے بھی انھیں بہت شاباش دی – عامر ماموں بھی بہت خوش تھے کہ ان کا ایک بڑا نقصان ہوتے ہوتے بچ گیا۔ اس طرح کھیل ہی کھیل میں دونوں بھائیوں نے ایک خطرناک ڈاکو کو گرفتار کروا دیا تھا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.