Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک شکل کے دو شہزادے

مختار احمد

ایک شکل کے دو شہزادے

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئی تھی۔ ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی بھیجا کہ وہ زیادہ دنوں کے لیے نہیں تو ایک آدھ دن کے لیے ہی ملنے کے لیے آجائے تو اس نے جواب میں کہلوایا کہ وہ ابھی تک شادی کی ضیافتوں میں مصروف ہے، جیسے ہی فرصت ملے گی ضرور ملنے آئے گی۔

    بادشاہ اس طرح کے معاملوں میں دخل نہیں دیتا تھا۔ مگر شہزادی کا جواب سن کر اس نے ہنس کر کہا ۔ “جو لڑکیاں سسرال میں خوش رہتی ہیں، اپنی ماں کے گھر کم ہی آتی ہیں۔ ملکہ آپ بھی تو ایسی ہی تھیں۔ اپنی امی حضور سے ملنے کم کم ہی جاتی تھیں”۔

    “میں تو یہ سوچ کر گھر نہیں جاتی تھی کہ میرے بعد آپ کا خیال کون رکھے گا”۔ ملکہ نے شرما کر کہا۔

    بادشاہ ہنس پڑا۔ “بس اسی وجہ سے ہماری بیٹی بھی نہیں آرہی۔ وہ بھی یہ ہی سوچ رہی ہوگی کہ اگر یہاں آگئی تو اس کے شوہر کی دیکھ بھال کون کرے گا”۔

    شہزادی انجمن شہزادہ ارجمند کی چھوٹی بہن تھی۔ دونوں بہن بھائیوں میں مثالی محبت تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہتے تھے۔ مگر لڑکیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں، ایک دن تو سب کو اپنے گھر جانا پڑتا ہے اور ایک روز شہزادے کی بہن بھی بیاہ کر پردیس چلی گئی۔

    بہن کی شادی ہوئی تو شہزادہ ارجمند کو کئی دنوں تک کوئی چیز اچھی نہیں لگی۔ مگر مجبوری تھی۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس وقت بھی وہ بہن کی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ ملکہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے دیکھ کر شہزادہ ارجمند کھڑا ہوگیا اور ادب سے بولا۔ “امی حضور۔ آپ نے تکلیف کیوں کی، مجھے طلب کر لیا ہوتا”۔

    “کوئی بات نہیں شہزادے۔ ہم اس لیے آئے تھے کہ آپ سے ایک کام پڑ گیا ہے۔ آپ کے ابّا حضور شہزادی انجمن کے لیے دوسرے ملکوں سے جو تحفے تحائف لے کر آئے ہیں وہ ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ اسے تو ابھی یہاں آنے کی فرصت نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تم اس کے پاس ایک چکر لگا لو، اس سے مل بھی لینا اور وہ چیزیں بھی اس کو دے دینا”۔

    “جی اچھا امی حضور”۔ شہزادہ ارجمند نے کہا۔

    اگلے روز شہزادہ ارجمند ملکہ کا دیا ہوا سارا سامان لے کر اپنے محافظ سپاہیوں اور خادموں کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا۔ دو دن کے بعد وہ لوگ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ شہزادی انجمن اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اس کی اور اس کے ساتھ آئے ہوئے تمام لوگوں کی بہت خاطر مدارات کی۔

    شہزادے نے بہن کو بتایا کہ ملکہ اس کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہے۔ شہزادی نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اس سے ملنے آئے گی۔ ایک دو روز تک بہن کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر شہزادہ ارجمند واپسی کے سفر پر روانہ ہوا۔ جب انہوں نے رخت سفر باندھ لیا تو شہزادی نے بھائی کے ساتھ آئے ہوئے تمام خدمات گاروں اور سپاہیوں کو بیش قیمت تحفے بھی دیے۔

    وہ لوگ صبح ہی صبح سفر پر روانہ ہو گئے تھے۔ سہہ پہر تک انہوں نے کافی راستہ طے کرلیا تھا۔ مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے سب لوگوں کو بہت تھکن ہوگئی تھی اور بھوک بھی ستانے لگی تھی۔ اس لیے انہوں نے راستے میں ایک جنگل کے قریب پڑاؤ ڈال لیا۔ خادموں نے وہاں خیمے گاڑے اور کھانا پکانے کی تیاری شروع ہوگئی۔ ارادہ یہ ہی تھا کہ رات بھی اسی جگہ بسر کی جائے گی۔ ادھر تو سب لوگ کاموں میں مصروف تھے، ادھر شہزادے ارجمند کی دل میں آئی کہ ذرا آس پاس کا علاقہ تو گهوم پھر کر دیکھے، پتہ نہیں پھر دوبارہ آنا ہو کہ نہیں۔

    وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ساتھیوں سے بولا کہ وہ آس پاس کا ایک چکر لگا کر آرہا ہے۔ اس کے سپاہیوں نے بھی ساتھ جانا چاہا مگر اس نے منع کر دیا اور اکیلا ہی وہاں سے روانہ ہوگیا۔

    جنگل بہت سرسبز اور گھنا تھا۔ شہزادہ ارجمند ایک بہادر لڑکا تھا۔ اس کو یہ خوف نہیں تھا کہ کوئی جنگلی جانور اس پر حملہ کردے گا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اپنے خنجر اور تلوار سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

    ویسے تو شہزادہ اپنی سلطنت میں ہر جگہ خوب گھوما پھرا تھا مگر اس جگہ پہلی مرتبہ آیا تھا۔ یہاں کی خوبصورتی دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ان نظاروں میں گم رہنے کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہے۔

    اس نے واپسی کا سوچا مگر وہ راستہ بھول گیا تھا۔ ابھی وہ اسی شش و پنچ میں تھا کہ کس راستے پر جائے کہ اچانک اس کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں آئیں۔ وہ چوکنا ہو گیا اور اس نے اپنی تلوار میان سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی۔ لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ بہت سارے ڈاکوؤں نے یکلخت اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، ان کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں جن پر تیر چڑھے ہوئے تھے اور ان کا رخ شہزادے کی جانب تھا۔ سب سے آگے ڈاکوؤں کا سردار تھا۔ اس نے پہلے تو ایک گھن گرج قہقہہ لگایا پھر بولا ۔ “شکل سے تو کسی اچھے گھرانے کے لگ رہے ہو، مال تو بہت ہوگا۔ لاؤ نکالو”۔

    شہزادے نے بےرخی سے کہا ۔ “مال تو بہت ہے مگر میں اسے ساتھ لیے لیے نہیں پھرتا”۔

    ڈاکوؤں کے سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا “اس نوجوان کے کپڑے، تلوار، خنجر اور گھوڑا بہت قیمتی ہیں۔ خنجر اور تلوار پر ہیرے جڑے ہوئے ہیں، گھوڑا عربی نسل کا ہے۔ لباس بھی شاہانہ ہے۔ ان سب کو لے لو۔ اور اسے معمولی کپڑے پہنا کر رخصت کرو”۔

    شہزادہ ارجمند سمجھ گیا تھا کہ اس کا مزاحمت کرنا بے کار ثابت ہوگا اور مفت میں جان خطرے میں ڈالنے والی بات ہوگی۔ ڈاکوؤں نے اس سے تمام چیزیں چھین لیں۔ شہزادے نے دل میں تہیہ کر لیا کہ محل پہنچتے ہی ان ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر یلغار کرے گا اور انہیں قید کروائے گا، ان لوگوں نے جانے کتنے لوگوں کو لوٹا ہوگا۔

    اس کی تمام چیزیں لینے کے بعد ڈاکوؤں نے شہزادے کو پرانے سے کپڑے پہننے کے لیے دیے اور پھر اسے جنگل سے باہر چھوڑ آئے۔ شہزادہ ارجمند کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ جگہ جہاں اس کے ساتھیوں نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے کدھر ہے۔

    شام ہوگئی تھی اور کچھ دیر میں رات ہونے والی تھی۔ اس نے سوچا کہ پہلے سر چھپانے کا کوئ ٹھکانہ ڈھونڈے دوسری باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ اس کو بھوک بھی لگنے لگی تھی۔

    جنگل سے نکل کر وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ اسے ایک بستی کے آثار نظر آئے۔ وہ اسی طرف چل پڑا۔ کچھ دیر کی مسافت کے بعد وہ بستی میں داخل ہوگیا۔ چونکہ ابھی تک پوری طرح رات نہیں ہوئی تھی اس لیے بستی میں کافی چہل پہل نظر آرہی تھی۔

    چلتے چلتے وہ ایک گلی میں داخل ہوا جہاں آمنے سامنے قطار در قطار مٹی کے کچے گھر بنے ہوئے تھے۔ وہ ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا سامنے سے بھاگتا ہوا آیا، شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولا۔ “انور بھائی۔ آپ شہر سے کب آئے؟”۔ پھر اس نے شہزادے کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور قریبی ایک گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر چلانے لگا۔ “خالہ۔ خالہ۔ جلدی آؤ۔ انور بھائی شہر سے واپس آگئے ہیں”۔ چھوٹا لڑکا یہ اطلاع دے کر بھاگ گیا۔ وہ شائد جلدی میں تھا۔

    اس کی آواز سن کر ایک ادھیڑ عمر کی خوش شکل عورت جلدی سے دروازے پر آئی۔ شہزادے پر نظر پڑی تو حیرت سے بولی ۔ “انور تو کب آیا؟۔ بھوک لگ رہی ہوگی، چل پہلے جلدی سے کھانا کھالے۔ تیری کہانی میں بعد میں سن لوں گی۔ تیرا باپ صبح سے دریا پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے گیا ہوا ہے۔ ابھی تک نہیں آیا ہے”۔

    یہ کہہ کر اس عورت نے اس کا باتھ پکڑا اور زبردستی گھر میں لے آئی۔ شہزادہ ارجمند شش و پنچ میں پڑ گیا۔ وہ عورت اسے اپنا بیٹا سمجھ رہی تھی۔ اس نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہا ۔ “مگر میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں”۔

    اس کی بات سنی تو اس عورت کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ “انور میں نے تجھے دریا والی بات اس لیے تو نہیں بتائی تھی کہ تو ایسی باتیں کرنے لگے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تجھے بچپن میں ڈوبتے ہوئے میرے شوہر نے دریا میں سے نکالا تھا۔ مگر تجھے پالا تو ہم نے ہی ہے۔ اب ہم ہی تیرے ماں باپ ہوئے کہ نہیں؟”۔

    اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے ملکہ نے بتا رکھا تھا کہ اس کا ایک اور جڑواں بھائی بھی تھا۔ ایک روز جب وہ بہت چھوٹے تھے تو بادشاہ کے ساتھ دریا کی سیر کو گئے۔ دریا کا بہاؤ تیز تھا جس کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔ بادشاہ کو تیرنا آتا تھا، اس نے ارجمند کو تو ڈوبنے سے بچا لیا مگر دوسرا بھائی بہتا بہتا جانے کہاں نکل گیا۔ بعد میں اسے بہت ڈھونڈا گیا مگر وہ نہیں ملا۔ ملکہ اپنے اس بیٹے کو یاد کر کے اب بھی روتی رہتی تھی۔

    اب شہزادے نے جو اس عورت کی باتیں سنیں تو اسے یقین ہوگیا کہ انور ہی اس کا بچھڑا ہوا بھائی ہے جسے اس عورت نے ماں بن کر پالا ہے۔ اس نے اس عورت کا محبّت سے ہاتھ پکڑا اور بولا ۔ “نیک خاتون۔ رنجیدہ مت ہوئیے۔ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ میں انور نہیں ہوں۔ میرا نام تو ارجمند ہے۔ میں اس ملک کا شہزادہ ہوں۔

    پھر اس نے اپنی پوری داستان اس عورت کو سنا ڈالی۔ اس نے اسے اپنے کھوئے ہوئے بھائی کے متعلق بھی وہ سب کچھ بتا دیا جو اس نے ملکہ کے منہ سے سن رکھا تھا۔

    اس عورت کو جب پتا چلا کہ وہ ایک شہزادہ ہے اور وہ لڑکا جسے انہوں نے دریا میں سے نکال کر پالا تھا شہزادے کا جڑواں بھائی ہے تو وہ گھبرا گئی۔

    شہزادے نے اسے تسلی دی اور کہا۔ “اماں۔ آپ نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ہم ساری زندگی بھی اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکیں گے۔ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کے شوہر نے میرے بھائی کو ڈوبنے سے بچایا اور آپ دونوں نے اس کی پرورش کی۔ ابّا حضور اور امی حضور تو بہت ہی خوش ہونگے اور آپ کے احسان مند ہونگے۔ آپ لوگ بہت اچھے ہیں”۔

    پھر اس عورت نے اسے عزت سے بٹھا کر اس کے سامنے کھانا رکھا۔ شہزادے کو تو بھوک بھی بہت لگ رہی تھی۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔

    ابھی وہ کھانے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مچھیرا اپنا جال اور چند بڑی بڑی مچھلیاں لے کر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے شہزادے کو دیکھا تو خوشی سے بولا۔ “انور تو کب آیا؟۔ بس اب بستی چھوڑ کر کہیں مت جانا۔ شہر میں دولت کی بارش تھوڑا ہوتی ہے۔ شہر والے بڑے سیانے ہوتے ہیں، دس آدمیوں کا کام ایک آدمی سے لیتے ہیں اور پیسے بھی رلا رلا کر دیتے ہیں۔ گاؤں میں ہی رہ کر محنت کرے گا تو الله بہت دے گا۔ کل سے میرے ساتھ تو بھی مچھلیاں پکڑنے چلا کر۔ اور انور کی ماں۔ تو بھی اس کو کہیں مت جانے دینا۔ اب اس کی شادی کی تیاری کر تاکہ اس کے پاؤں میں بھی ذمہ داریوں کی بیڑی پڑ جائے”۔

    مچھیرا تو اپنی دھن میں یہ سب باتیں کیے جا رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر شہزادہ مسکرا رہا تھا مگر مچھیرے کی بیوی گھبرا کر اس کے پاس آئی اور دھیرے سے بولی ۔ “بس بھی کرو۔ جو منہ میں آ رہا ہے کہے جا رہے ہو۔ یہ ہمارا انور نہیں بلکہ اس کا جڑواں بھائی ہے۔ یہ بادشاہ کا بیٹا ہے۔ ہمار انور بھی معمولی لڑکا نہیں ہے ۔ اس ملک کا شہزادہ ہے”۔

    اس کے بعد اس نے مچھیرے کو پوری داستان سنا دی۔ مچھیرے نے یہ باتیں سنیں تو حیران رہ گیا۔ شہزادہ ارجمند نے کہا ۔ “آپ دونوں نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمارے بھائی کو اپنا بیٹا سمجھ کر پالا۔ آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ امی حضور تو بہت ہی خوش ہوں گی۔ انھیں امید تھی کہ ایک روز ان کا گمشدہ بیٹا ضرور مل جائے گا”۔

    مچھیرے نے سر کھجا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور بولا۔ “مجھے یاد ہے میں نے انور کی حرکتوں پر دو ایک دفعہ اس کو سزا بھی دی تھی۔ مجھے ڈر ہے وہ محل جا کر ملکہ سے میری شکایت نہ کردے”۔

    اس کی بات سن کر شہزادہ ارجمند کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ “آپ نے بہت اچھا کیا جو اس کو سزا دی۔ آپ نے اسے باپ بن کر پالا تھا۔ اگر آپ نے اسے سزا دی بھی ہوگی تو اس کے ہی بھلے کے لیے دی ہوگی۔ ماں باپ اپنے بچوں پر سختی کرتے ہیں تو اس میں بچوں کی ہی بہتری ہوتی ہے”۔ اس کی بات سن کر مچھیرا خوش ہوگیا۔

    شہزادے کے پوچھنے پر مچھیرے نے بتایا کہ انور کو دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنے کا کام پسند نہیں تھا۔ وہ کچھ اور کرنا چاہتا تھا اس لیے کام کی تلاش میں شہر کی جانب نکل گیا۔ اس کو گئے ہوئے دو ڈھائی ماہ ہوگئے تھے۔ جب بستی کا خلیل نامی ہرکارہ شہر جاتا تھا تو وہ واپسی پر اس کے ہاتھ اپنی ماں باپ کو پیسے بھی بھجوادیا کرتا تھا۔ یہ ہی باتیں کرتے کرتے کافی رات بیت گئی۔ سب کو نیند آنے لگی تھی اس لیے وہ سو گئے۔

    صبح شور شرابے سے شہزادے کی آنکھ کھل گئی۔ مچھیرے کی بیوی پہلے ہی جاگ گئی تھی اور ناشتہ بنا رہی تھی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ شور کیسا ہے، شہزادہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے نزدیک آیا اور گلی میں دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے گھوڑوں پر سوار اپنے سپاہیوں کو دیکھا، وہ اس کی تلاش میں اس بستی تک پہنچ گئے تھے۔

    شہزادہ باہر نکلا اور انھیں اپنی موجودگی سے آگاہ کیا۔ شہزادے کو پاکر وہ لوگ بہت خوش ہوےٴ ورنہ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ اگر شہزادہ نہ ملا تو بادشاہ کو کیا جواب دیں گے۔ شہزادے نے ان سے کہا کہ فی الحال وہ اسی گھر میں ٹہرے گا۔ اس کی واپسی ایک دو روز میں ہوگی۔

    پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جنگل میں چاروں طرف پھیل جائیں اور ان ڈاکوؤں کو تلاش کرکے گرفتار کریں جنہوں نے کل اسے لوٹا تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ نہ جانے کتنے معصوموں کو لوٹ چکے ہونگے۔

    سپاہی چلے گئے تو شہزادہ ارجمند نے مچھیرے سے کہا کہ اب کسی طریقے سے انور کو جلد سے جلد بلوایا جائے۔ مچھیرا فوراً خلیل ہرکارے کے پاس پہنچا۔ پچاس دمڑیاں اس کے ہاتھ پر رکھیں اور بولا ۔ “خلیل بھائی۔ تم ابھی شہر روانہ ہوجاؤ اور اپنے ساتھ انور کو لے آؤ”۔

    خلیل کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس نے خوشی خوشی اپنے گھوڑے کو تیار کیا اور شہر روانہ ہوگیا۔ سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے وہ انور کے ساتھ واپس آگیا۔

    انور حیران تھا کہ اس کے باپ نے اسے اتنی جلدی میں کیوں بلایا ہے۔ جب یہ ہی بات اس نے خلیل ہرکارے سے کی تو وہ بولا۔ “میں کیا بتا سکتا ہوں۔ ہوسکتا ہے تمھاری شادی وادی کی بات چل رہی ہو”۔

    جب انور گھر پہنچا تو وہ شہزادہ جنید کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ شکل و صورت میں بالکل اس جیسا ہی تھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے مچھیرے کو دیکھنے لگا۔ پھر اس کی نظر مچھیرے کی بیوی پر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ جلدی سے اس کے پاس گیا ۔ “ماں آپ کیوں رو رہی ہیں۔ یہ میرا ہمشکل کون ہے؟”۔ اس نے پوچھا۔

    مچھیرن بولی۔ “بیٹا تو اب ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔ تو ایک شہزادہ ہے۔ تیرا بھائی تجھے لینے آیا ہے”۔

    مچھیرن یہ بات تو اس کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ وہ انھیں دریا میں سے ملا تھا مگر یہ بات انور کو ابھی پتہ چلی تھی کہ وہ ایک شہزادہ ہے۔

    وہ اپنے بھائی سے گلے ملا اور مچھیرن سے بولا۔ “آپ اداس کیوں ہوتی ہیں۔ اگر میں گیا تو اکیلا تھوڑی جاؤں گا۔ آپ دونوں بھی میرے ساتھ چلیں گے”۔

    اگلے روز شاہی سپاہی پورے جنگل میں پھیل گئے۔ انہوں نے جنگل کا چپہ چپہ چھان مارا اور آخر کار ڈاکوؤں کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر ایک مقابلے کے بعد وہ تمام ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ زنجیروں میں جکڑے تمام ڈاکو ان کے ہمراہ تھے۔ اس کامیابی کے بعد وہ شہزادہ ارجمند کے پاس آئے۔

    ڈاکوؤں کو دیکھ کر شہزادہ ارجمند بہت خوش ہوا اور ان کے سردار سے بولا ۔ “تم لوگوں نے مخلوق خدا پر بہت ظلم ڈھائے ہیں۔ اب قاضی تمہارا فیصلہ کرے گا”۔ پھر اس نے روانگی کا حکم دیا اور سب محل کی طرف روانہ ہو گئے۔ مچھیرا اور مچھیرن بھی ان کے ساتھ تھے۔

    وہ لوگ محل پہنچے تو شہزادہ ارجمند پیچھے رہ گیا تھا اور انور آگے تھا۔ اتفاق کی بعد کہ کچھ دیر پہلے اس کی بہن شہزادی انجمن بھی اپنے شوہر کے ساتھ محل پہنچی تھی۔ وہ اپنی ماں سے ملنے آئی تھی کیوں کہ جب شہزادہ ارجمند اس سے ملنے گیا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ ملکہ اس کو بہت یاد کرتی ہے۔ اس نے جو انور کو دیکھا تو دوڑ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔

    انور گھبرا گیا۔ اس نے کہا۔ “شہزادی دور ہٹو۔ میں تو انور ہوں۔ شہزادہ ارجمند پیچھے آرہا ہے”۔

    اس کی بات سن کر شہزادی ابھی حیران ہونے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں شہزادہ ارجمند بھی وہاں پہنچ گیا۔ اسے دیکھا تو شہزادی نے حیرت سے ایک چیخ ماری۔ وہ کبھی انور کو دیکھتی اور کبھی شہزادہ ارجمند کو۔ اس کی چیخ کی آواز سن کر بادشاہ، ملکہ اور اس کا شوہر سب دوڑے آئے۔

    انہوں نے جو ان دونوں کو دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ شہزادہ ارجمند نے ان لوگوں کو جلدی جلدی سارا قصہ سنا دیا۔ اس کی بات ختم ہوئی تو ملکہ نے آگے بڑھ کر اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور روتے ہوئے بولی۔ “مجھے یقین تھا کہ ایک روز میرا بیٹا ضرور مجھے مل جائے گا”۔

    یہ منظر دیکھ کر وہاں کھڑے سب لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ بادشاہ نے بھی آگے بڑھ کر انور کو گلے سے لگایا۔

    بادشاہ اور ملکہ نے مچھیرے اور مچھیرن کا بہت شکریہ ادا کیا اور انھیں بہت سارے انعامات سے نوازا۔ تھوڑی دیر بعد مچھیرن نے مچھیرے کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی جانب جانے لگی۔ یہ دیکھ کر انور نے کہا۔ “اماں۔ ابّا کو لے کر کہاں چلیں”۔

    “بیٹے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ گھر اکیلا پڑا ہے۔ صبح تیرے باپ کو ........میرا مطلب ہے ان کومچھلیاں پکڑنے دریا پر بھی جانا ہے ”۔ مچھیرن نے کہا۔

    “اب آپ ہمارے ساتھ ہی محل میں رہیں گی۔ آپ یہاں نہیں رہیں گی تو میں بھی نہیں رہوں گا۔ آپ کے ساتھ ہی چلا جاؤں گا”۔ انور نے مچھیرن کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔ اس کو تو مچھیرے اور مچھیرن نے ماں باپ بن کر پالا تھا اور وہ ان کو اپنی ماں اور باپ ہی سمجھتا تھا۔

    اس کی بات سن کر مچھیرے نے بہانہ بنایا ۔ “بیٹا اگر ہم یہاں رہ گئے تو پھر مچھلیاں کون پکڑے گا؟”۔

    اس پر بادشاہ نے بیچ میں مداخلت کی ۔ “مچھلیاں کوئی اور پکڑ لے گا آپ اس کی فکر مت کریں۔ انور ٹھیک کہتا ہے۔ آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔ آپ نے اسے دریا سے نکال کر اس کی جان بچائی تھی اور ماں باپ بن کر پالا پوسا۔ ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دیں گے۔ آپ کے جانے سے ہمارا بیٹا اداس ہوجائے گا۔ یہ بات ہمیں منظور نہیں”۔

    بادشاہ کی بات سن کر دونوں میاں بیوی مجبور ہوگئے۔ ان کی رضامندی دیکھ کر انور نے خوشی سے مچھیرن کو گود میں اٹھا لیا اور بولا۔ “میری اماں کتنی اچھی ہیں”۔ اس کی محبّت دیکھ کر سب مسکرانے لگے۔

    انور کے اچانک مل جانے سے ہر جگہ خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے۔ خاص طور سے ملکہ تو بہت خوش تھی۔ اس کا برسوں کا بچھڑا ہوا بیٹا جو مل گیا تھا۔ خوش تو شہزادی انجمن بھی بہت تھی، جس کے اب دو بھائی ہوگئے تھے اور وہ بھی ایک ہی شکل کے۔

    جب ان تمام باتوں سے فرصت ملی تو جنگل کے ڈاکوؤں کا مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ قاضی نے اعلان کروایا کہ جن جن لوگوں کو بھی ان ڈاکوؤں نے لوٹا تھا وہ آ کر عدالت میں گواہی دیں۔ یہ ڈاکو نہات ظالم تھے، انہوں نے برسوں سے ان جنگلوں کو اپنی آماجگاہ بنا رکھا تھا اور سیدھے سادھے مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔

    قاضی کے اعلان کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں نے گواہی دی۔ گواہی دینے والوں میں شہزادہ ارجمند بھی شامل تھا۔ قاضی نے تمام ڈاکوؤں کو قید کی سزا سنا دی۔ ان کے قبضے سے جو لوٹ کا مال ملا تھا وہ ان کے مالکوں کو واپس کردیا گیا۔ شہزادہ ارجمند کو بھی اس کا خنجر، تلوار، پوشاک اور گھوڑا واپس مل گیا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے