کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کی مڈبھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوئی۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دوپہر ہو گئی دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ ہر ایک شخص اس انتظار میں تھا کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دسترخوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جاؤں۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔
بڑی دیر کے بعد بادل ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی اور جلدی سے پانی میں ڈبو کر روٹی کا ٹکڑا توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ پانی غٹاغٹ پی گیا۔ پھر سو رہا۔
اب دوسرے مائی کے لال کی باری تھی۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، روٹی نکالی اور اس انداز سے روٹی برتن کے اوپر پکڑی کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی سے پڑے۔ پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر اس شخص نے پانی پی لیا اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔
دونوں ایک دوسرے کا رویہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہمارے خیالات میں اتنی یکسانیت موجود ہے۔ جتنی دو بخیلوں کے خیالات میں ہو سکتی ہے۔ آپس میں تعارف ہوا، پھر سفر کا مقصد یہ نکل آیا کہ دونوں رشتہ کے تلاش میں نکلے ہیں، ایک اپنے بیٹے کے لئے اور دوسرا اپنی بیٹی کی خاطر۔ دونوں نے خودبخود فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہم دونوں کے درمیان رشتہ بڑا مثالی رہےگا۔ چنانچہ ان میں سے ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک مکھی چوس کی بیٹی سے ہو گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.