ایک تھے بادشاہ بہادر شاہ ظفر
پیارے بچو! آؤ پہلے تمھیں یہ بتائیں کہ میں کون ہوں؟ ٹھیک کہا تم نے ہاں میں دنیا کے تمام بچوں کا بابا سائیں ہوں۔ سب سے پہلے میری پیاری سی نواسی جوہی نے مجھے بابا سائیں کہا اور پھر سب بچےّ جو میرے گھر کے آس پاس رہتے ہیں مجھے بابا سائیں کہنے لگے۔ سچ پوچھو تو مجھے یہ نام بہت پسند ہے۔ جب بچے مجھے بابا سائیں کہتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ جانتے ہو اب بڑے لوگ میرے دوست احباب بھی مجھے بابا سائیں ہی کہتے ہیں۔ ’بابا’ کہتے ہیں بزرگ کو اور ’سائیں’ کہتے ہیں اللہ والے کو۔ بچوّں نے مجھے اللہ والا بابا بنا دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی، ہے نا؟ اب تم سب مجھے بابا سائیں ہی کہنا، میں اپنا فون نمبر لکھ رہا ہوں اور اپنا پتا بھی، کہانی پڑھ کر اپنی رائے ضرور دینا۔ تو لو سنو بابا سائیں کی پہلی کہانی۔
تم نے بہادر شاہ ظفر کا نام تو ضرور ہی سنا ہوگا، اپنے ملک ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ تھے، جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھیج دیا جہاں وہ بہت تکلیف میں رہے اور کچھ عرصہ بعد رنگون ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
یہ جو آخری مغل بادشاہ تھے بہادر شاہ ظفر، تمام لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ کہتے تھے ہندو میری ایک آنکھ ہے تو مسلمان دوسری آنکھ۔ دونوں شام غریبوں کو خوب کھانا کھلاتے تھے، عید، بقرعید، ہولی، دیوالی، راکھی بندھن سب تہوار لال قلعہ میں مناتے۔ خود ان تہواروں میں شریک ہوتے، محرّم کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھتے، چھٹی تاریخ کو چاندی کی زنجیر کمر میں ڈال کر گشت کرتے، ’ساتویں محرم’ کو مہندی اُٹھائی جاتی، آٹھویں محرّم کو سقائے حرم کی یاد میں لنگی باندھے، بہشتی بنتے اور شربت کی بھری ہوئی مشک کاندھے پر رکھ کر لوگوں کو شربت پلاتے، نویں اور دسویں کو فقیرانہ لباس پہنتے، سبز کپڑے کے ساتھ گلے میں ڈالنے کے لیے سبز جھول تیار ہوتی، دسویں تاریخ کو موتی مسجد میں عاشورہ کی نماز کے بعد ظہر کے وقت حاضری کے دستر خوان پر نیاز دیتے، اللہ سے دُعا کرتے ’’اے اللہ ہمارے ملک کے بچوں کو سلامت رکھیو، ہمارے بچوّں اور جوانوں کو حضرت علی مرتضی کی طاقت اور ان جیسی شجاعت دیجیو۔‘‘
اسی طرح جب ساون کا مہینہ آتا، چاندنی چوک اور جامع مسجد کے آس پاس ہر کوچے میں جھولے پڑتے اور بچیاں جھولوں پر ساون کا گیت گاتیں
اماں، میرے باوا کو بھیجو جی کہ ساون آیا
بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا
تو بہادر شاہ ظفر سلونو کا دن لال قلعہ میں دھوم دھام سے مناتے، جانے کتنی ہندو عورتیں اور بچیاں آتیں جو انھیں راکھی باندھ کر راکھی بہن بن جاتیں۔ بہادر شاہ ظفر ایک بھائی کی طرح اُنھیں بہت کچھ دیتے، ان ہی عورتوں میں ایک عورت تھی جو ہر سال بہادر شاہ کو بہت دور سے راکھی باندھنے آتی تھی، شہنشاہ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے، راکھی بندھن کے دن لال قلعے کے اندر جو جھُولے پڑتے ان میں ریشمی ڈوریاں ہوتیں، شام ہوتے ہی قلعے کے اندر اور باہر چراغاں کیا جاتا، جب وہ برہمن عورت آتی اور اپنے بھائی بہادر شاہ ظفر کو راکھی باندھتی تو شہنشاہ اسے زمرد کی آٹھ چوڑیاں دیتے، چاندی کے سکے دیتے اور مٹھائیاں کھلاتے۔ واقعہ یہ ہے بچّو کہ بہادر شاہ ظفر کے جو بڑے دادا حضور تھے نا حضرت عزیز الدین عالمگیر، وہ بھی اپنے وقت کے ایک انصاف پرور بادشاہ تھے، ان کا جو وزیر تھا غازی الدین خاں وہ یہ چاہتا تھا کہ بادشاہ کو ختم کر کے خود بادشاہ بن جائے۔ حضرت عزیز الدین عالمگیر درویشوں اور فقیروں کی صحبت پسند کرتے تھے، غازی الدین خاں نے ان سے کہا، ایک پہنچے ہوئے درویش آئے ہوئے ہیں، اگر حضور ان سے ملنا چاہتے ہیں تو میرے ہمراہ چلیں وہاں سپاہی نہ لے جائیں ورنہ درویش ناراض ہو جائیں گے۔ بادشاہ عزیز الدین راضی ہو گئے اور درویش سے ملنے وزیر کے ساتھ چلے گئے، وہاں کوئی درویش تھا ہی نہیں غازی الدین خاں نے کیا کیا بادشاہ کو قتل کر دیا اور واپس بھاگ آیا۔
صبح ہوئی تو ایک برہمن عورت اس راستے سے گزر رہی تھی اس کا نام رام کور تھا، اس نے بادشاہ کی لاش دیکھی اور روتی پیٹتی لال قلعہ کی جانب دوڑی۔ صبح سویرے انصاف کا وہ بڑا گھنٹہ بجایا کہ جو لال قلعے میں لگا ہوا تھا۔ اسی رام کور نے خبر دی کہ بادشاہ کا قتل ہو گیا ہے۔ تب سے بہادر شاہ ظفر کے والد نے اسے اپنی بہن بنا لیا، وہ ہر سال بادشاہ کو راکھی باندھنے آتی رہی، اب جب بہادر شاہ ظفر بادشاہ ہوئے تو رام کور کی بیٹی آنے لگی، وہ بھی ہر سال لال قلعہ آ کر بادشاہ یعنی بہادر شاہ ظفر کو راکھی باندھتی، بادشاہ اسے زمرد کے کڑے اور قیمتی لباس اور مٹھائیاں دیتے، ادھر ساون آیا، جھولے پڑے اور بچیوں کی آواز گونجی:
اماں میرے ’باوا’ کو بھیجو جی کہ ساون آیا
اماں میرے بھائی کو بھیجو جی کہ ساون آیا
اور ادھر لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر کی راکھی بہن پالکی سے اتری اور بہادر شاہ ظفر کا چہرہ اپنی بہن کو دیکھ کر خوشی سے دمک اٹھا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.