Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوستی کا حق

وکیل نجیب

دوستی کا حق

وکیل نجیب

MORE BYوکیل نجیب

    میں اسکول سے چھٹی لے کر اپنے ماما کی شادی میں گاؤں گیا تھا۔ ایک ہفتہ اسکول سے غائب رہنے کے بعد اسکول آیا تو مجھے کلاس میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔ دراصل میرے سامنے بیٹھنے والا شہزاد اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھا۔ درمیانی چھٹی میں میں نے اپنے دوست کیلاش سے پوچھا، ’’آج شہزاد اسکول نہیں آیا۔‘‘

    کیلاش نے کہا،’’وہ گزشتہ پانچ دنوں سے اسکول نہیں آ رہا ہے اور شاید اب آئےگا بھی نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟ کیا بات ہوئی؟‘‘

    ’’فٹبال کی پریکٹس کے وقت اس کارمیش سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے شہزاد کو بہت مارا۔ اس کا بستہ پھینک دیا اور کپڑے بھی پھاڑ دیے۔ اس کے پتاجی آئے تھے ہیڈ ماسٹر صاحب سے شکایت کی۔ انہوں نے شہزاد کے پتا جی کو سمجھا بجھا کر واپس کر دیا اور رمیش کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس لئے شہزاد کے پتاجی نے اسے گھر میں بٹھا لیا۔ اب بھی وہ اپنے پتا جی کے ساتھ سبزی کے ٹھیلے پر سبزیاں بیچنے جاتا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ارے یہ تو بہت برا ہوا غریب لڑکے کو اس طرح مارنا نہیں چاہئے تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی۔‘‘

    کیلاش نے کہا، ’’رمیش کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا اس کے داداجی اسکول کے صدر ہیں۔ ان کی نوکری خطرے میں پڑ جائےگی۔‘‘

    ’’لیکن ایک غریب اور ذہین بچے کی زندگی برباد ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘

    ’’تم کو تو معلوم ہے رمیش کیسا خطرناک لڑکا ہے کوئی اس سے دشمنی لینے کی ہمت نہیں کرتا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’میں ہمت کروں گا، ایک ذہین لڑکے کی تعلیم کا سلسلہ ختم نہ ہونے پائے اس کے لئے میں رمیش سے ٹکراؤں گا۔‘‘

    ’’تم کیا کروگے؟‘‘

    ’’میں اس کے دادا جی سے اس کی شکایت کروں گا، وہ اپنے دادا جی سے بہت ڈرتا ہے اور اس کے دادا جی بہت نیک آدمی ہیں۔‘‘

    کیلاش نے کہا، ’’اچھے سے سوچ لو۔ رمیش سے دشمنی مول لینا تمہارے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’میں ہر خطرے سے نمٹوں گا تاکہ ایک بچہ تعلیم حاصل کر سکے، کچھ بن سکے۔‘‘

    اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد میں گھر آیا اور شہزاد کی اچھائیاں، ذہانت اور کھیل کود میں اس کی عمدہ کارکردگی کو بیان کرتے ہوئے رمیش کی بری حرکتوں کی بابت ایک تفصیلی خط لکھا اور شام کے وقت رمیش کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس وقت اس کے دادا جی گھر میں ہی رہتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے جب رمیش فٹبال کی پریکٹس کرکے گھر آتا ہے۔

    میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو اس کے دادا جی سامنے بیٹھک کے کمرے میں بیٹھے ہوئے کوئی اخبار دیکھ رہے تھے۔ میں پرنام کر کے ان کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا۔ وہ حیرت سےمیری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کہا، ’’میرا نام شرد ہے میں اسکول میں رمیش کے ساتھ پڑھتا ہوں۔‘‘ اتناا کہہ کر میں نے وہ تفصیلی خط دادا جی کے ہاتھ میں دے دیا۔ جیسے جیسے وہ خط پڑھتے جا رہے تھے ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا جا رہا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے خط پڑھ کر ختم کیا بس اسی وقت رمیش گھر میں داخل ہوا۔ مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ دادا جی کے ہاتھ میں چٹھی موجود تھی اور غصے سے ان کا ہاتھ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ رمیش معاملے کو سمجھ نہیں پایا۔ دادا جی کو نمستے کہہ کر وہ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ دادا جی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے رمیش کے قریب گئے اور ایک زور دار طمانچہ اس کے گال پر مارا اور کہا، ’’اپنی طاقت اور دولت کا غلط استعمال کر رہے ہو تم! شہزاد کو تم نے کیوں مارا؟‘‘

    ’’دادا جی وہ مجھ سے منہ زوری کر رہا تھا۔‘‘

    ’’اچھا! کھیل کے دوران کچھ کم زیادہ ہو جائے تو تم اسے ماروگے؟ ایک غریب لڑکے کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہو تم۔ تم ابھی میرے ساتھ اس کے گھر چلو اور پیر پکڑ کر اس سے معافی مانگو۔ چلو میرے ساتھ۔ ’’اور پھر انہوں نے مجھ سے کہا، ’’تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔‘‘

    دادا جی نے اپنی کار نکلوائی اور ہم شہزاد کے گھر کی طرف چل دیے۔ جھونپڑپٹی کی حد شروع ہوئی، رات ہو چکی تھی میں نے ایک جگہ کار رکوائی اور چند گلیوں کو پار کر کے ہم ایک جھونپڑے کے سامنے رک گئے۔ دروازہ کھلا ہوا تھا اندر ایک بلب جل رہا تھا۔ ایک کونے میں کھانے پکانے کا سامان رکھا ہوا تھا، دوسرے کونے میں ایک عورت سلائی مشین پر کپڑے سی رہی تھی۔ قریب ہی ایک لڑکی چٹائی پر بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی، جھونپڑے کے باہر شہزاد اپنے پتا جی کے ساتھ ہاتھ ٹھیلے کے پاس کھڑا ہوا تھا اور ہاتھ ٹھیلے کی سبزیاں اندر رکھنے میں اپنے پتا جی کی مدد کر رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر شہزاد اور اس کے پتا جی دونوں بہت حیران ہوئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے رمیش کے دادا جی شہزاد کے پتاجی کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے شہزاد کے پتا جی کو مخاطب کر کے کہا، ’’بھائی جی۔ میں اس نالائق رمیش کا دادا ہوں اور اسکول کا صدر بھی ہوں۔ میرے پوتے نے تمہارے بیٹے کے ساتھ جو سلوک کیا ہے میں اس کے لئے تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے اور میرے پوتے کو معاف کر دو۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے رمیش کو اشارہ کیا۔ وہ آگے بڑھا اس نے شہزاد کو گلے لگا لیا اور رنجیدہ لہجے میں بولا، ’’شہزاد مجھے معاف کر دو، مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی اور بھگوان کے لئے اسکول آنا بند مت کرو۔ ہم سب کا مستقبل تعلیم سے ہی جڑا ہوا ہے۔ مجھے اپنی غلطی پر بہت افسوس ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ شہزاد کے پتاجی کے پیروں کو چھو کر بولا، ’’انکل جی اسے اسکول آنے سے مت روکئے۔ میں خود اس کی مدد کروں گا۔ میری غلط حرکت کے لئے مجھے بھی معاف کر دیجئے۔‘‘

    شہزاد کے پتا جی نے رمیش کو گلے سے لگا لیا اور کہا، ’’اتنے بڑے آدمی مجھ ایسے غریب آدمی کے گھر معافی مانگنے آئے ہیں اس سے بڑی بات میرے لئے اور کیا ہو سکتا ہے، بیٹا جاؤ۔ شہزاد کل سے روزانہ اسکول آئےگا۔‘‘

    رمیش نے شہزاد سے ہاتھ ملایا پھر مجھ سے ہاتھ ملا کر بولا شرد تم نے شہزاد سے اپنی دوستی کا حق ادا کیا اور مجھے بھی اپنی غلطیوں کا احساس دلا دیا ہے، بہت بہت شکریہ۔

    ہم لوگ کار میں بیٹھ کر وہاں سے واپس ہو گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے