Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گگو میاں

سعید لخت

گگو میاں

سعید لخت

MORE BYسعید لخت

    آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی، کوئی اکا دکا، بوند بھی پڑ جاتی۔ گگو میاں گھبرائے ہوئے کمرے میں آئے اور امی سے بولے، ’’امی جان! چھتری کہاں ہے؟ برآمدے میں رکھی تھی۔‘‘

    امی بولیں، ’’بیٹے، چھتری تو فریدہ لے گئی ہے۔ کہہ رہی تھی، شکیلہ کے گھر جا رہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی۔‘‘

    گگو میاں اچھل کر بولے، ’’ہائے غضب! اب کیا ہوگا؟ وہ چھتری کھولے گی تو تو میں جاکر اسے پکڑتا ہوں۔ ابھی راستے ہی میں ہوگی۔‘‘

    امی روکتی ہی رہ گئیں اور گگو میاں گھر سے نکل، یہ جا اور وہ جا۔ ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ راستے میں ڈاکیہ ملا۔ گگو میاں رک گئے اور بولے، ’’کیوں حاجی صاحب! آپ نے میری بہن فرو کو دیکھا ہے؟ ابھی ابھی ادھر کو گئی ہے۔‘‘

    ڈاکیہ بولا، ’’ارے میاں برخوردار! یہ کہاں کی تمیز ہے؟ نہ سلام، نہ دعا۔ جھٹ سے سوال کر دیا۔‘‘

    گگو میاں بولے، ’’سلام علیکم! سلام علیکم!

    اب یہ بتائیے کہ آپ نے میری بہن کو دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہے تو کیا اس کے ہاتھ میں چھتری تھی؟ اگر تھی تو کھلی ہوئی تھی پابند تھی؟‘‘

    ڈاکیہ بولا، ’’ارے رے رے! تم نے تو ایک ہی سانس میں اتنی ساری باتیں پوچھ ڈالیں۔ خیر تو ہے۔ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘

    گگو میاں نے کہا، ’’یہ پھر بتاؤں گا۔ پہلے آپ میری باتوں کا جواب دیجئے۔‘‘

    ڈاکیہ بولا، ’’فریدہ بی بی کو میں نے ابھی ابھی دیکھا تھا۔ ان کے ہاتھ میں چھتری تھی اور وہ بند تھی۔‘‘

    ’’شکریہ۔ شکریہ۔ بہت بہت شکریہ!‘‘

    گگو میاں نے کہا اور بےتحاشہ بھاگے۔

    سڑک کے پار ایک گلی تھی۔ گلی کے نکڑ پر خیر کنجڑے کی دکان تھی۔ خیرو نے گگو میاں کو دیکھا تو آواز دی، ’’ارے میاں! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟‘‘

    گگو میاں نے کہا، ’’یہ پھر بتاؤں گا۔ پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ نے میری بہن فرو کو دیکھا ہے؟‘‘

    ’’ہاں ہاں‘‘ خیرو بولا، ’’ابھی ابھی وہ مجھ سے ایک آنے کی گاجریں لے گئی ہیں۔ کہتی تھیں، اپنی سہیلی شکیلہ کی ساتھ کھاؤں گی۔‘‘

    ’’شکریہ، شکریہ‘‘ گگو میاں بولے، ’’اب یہ بتائیے کہ ان کے ہاتھ میں چھتری تھی؟ اگر تھی تو کھلی تھی یا بند؟‘‘

    خیرو بولا، ’’چھتری؟ ہاں ہاں! چھتری تھی تو، پر میاں، یہ یاد نہیں کہ کھلی تھی یا بند تھی۔‘‘

    گگو میاں نے خیرو کو سلام کیا اور گلی میں گھس گئے۔ ایکا ایکی، ایک سائیکل سوار آیا اور گگو میاں کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔

    یہ گگو میاں کے خالو جان تھے۔ خالو جان نے پوچھا، ’’ارے! گگو میاں! کہاں ابا جان بھی خیریت سے ہیں۔ امی جان بھی خیریت سے ہیں۔ میں بھی خیریت سے ہوں۔ فریدہ کا پتا نہیں۔ وہ مجھے ملتی ہی نہیں۔‘‘

    خالو جان بولے، ’’فریدہ تو ابھی ابھی مجھے ملی تھی۔ شکیلہ کے گھر جا رہی تھی۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘ گگو میاں اچھل کر بولے، ’’یہ بتائیے کہ اس کے ہاتھ میں چھتری تھی؟ اگر تھی تو کھلی تھی یا بند؟‘‘

    خالو جان نے کہا، ’’اس کے ہاتھ میں چھتری تھی اور وہ شاید بند تھی۔ آخر بات کیا ہے؟‘‘

    ’’یہ پھر بتاؤں گا۔ سلام علیکم‘‘ گگو میاں نے کہا اور بگٹٹ بھاگے۔

    اس گلی میں ایک اور گلی تھی اور اس گلی کے آخر میں شکیلہ کا گھر تھا۔ گگو میاں گلی میں گھسے ہی تھے کہ فریدہ دکھائی دی۔ وہ شکیلہ کے دروازے کے قریب پہنچ گئی تھی۔

    گگو میاں نے زور سے کہا، ’’فرو! فرو! ٹھہرو! چھتری مت کھولنا۔‘‘

    فریدہ ٹھہر گئی۔ گگو میاں بھاگتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور ہانپتے ہوئے بولے، ’’ہائے! اف! چھتری کھولی تو نہیں تھی تم نے؟‘‘

    ’’نہیں تو‘‘ فریدہ بولی، ’’کیوں؟ کیا بات ہے؟‘‘

    گگو میاں نے کہا، ’’اس میں بل بل بلی کا بچہ ہے۔‘‘

    ’’بلی کا بچہ؟‘‘ فریدہ نے حیرت سے کہا اور چھتری کھولی تو سچ مچ بلی کا ایک ننھا منا بچہ کود کر باہر نکلا اور گگو میاں کی ٹانگوں سے چمٹ کر خر خر کرنے لگا۔

    فریدہ بولی، ’’اے ہے! میں بھی تو کہوں کہ چھتری اتنی بھاری کیوں ہے! مگر یہ چھتری میں گھس کیسے گیا؟‘‘

    گگو میاں بولے، ’’میں نے رکھا تھا اسے۔ آج سفید بلی نے چھت پر بچے دیے تھے۔ دوسرے بچے تو وہ اپنے ساتھ لے گئی۔ یہ بےچارہ وہیں رہ گیا۔ اسے ایک موٹا سا بلا مار رہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے بچایا اور چھتری میں چھپا دیا۔ جب اس کی ماں آئےگی تو اسے دے دوں گا۔‘‘

    فریدہ بولی، ’’ہا ہا! یہ بھی خوب رہی۔ اسے اندر لے چلو۔ دودھ پلائیں گے۔ بھوکا ہے بےچارہ۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے