Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غریب شہزادہ

مختار احمد

غریب شہزادہ

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    شہزادہ عالم زیب ایک نہایت خوب صورت اور نیک دل شہزادہ تھا۔ بادشاہ اور ملکہ نے شروع ہی سے اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔ اسی لیے جب وہ بڑا ہوا تو ذہین بھی تھا اور تلواربازی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ بادشاہ کو امید تھی کہ وہ جب اس کے بعد تخت سنبھالے گا تو ایک بہترین حکمران ثابت ہوگا۔

    ایک روز اس نے شہزادہ عالم زیب کو طلب کیا اور بولا۔ “شہزادے۔ ہمارے بعد تم نے ہی یہ تخت سنبھالنا ہے۔ لیکن ہماری خواہش ہے کہ تخت سنبھالنے سے پہلے تم دنیا کو گھوم پھر کر دیکھ لو۔ اس سے تمہیں بہت سی باتیں پتہ چلیں گی اور تجربہ بھی حاصل ہوگا۔ یہ تجربہ بعد میں تمھارے بہت کام آئے گا۔ بس اب تم اپنے سفر کی تیاری شروع کردو۔ یہ یاد رکھنا کہ تم ایک عام اور غریب آدمی کی حیثیت سے اپنے سفر پر روانہ ہو گے۔ محل سے نکلتے ہوئے نہ تو تمھارے پاس کوئی رقم ہوگی اور نہ ہی سواری کے لیے گھوڑا۔ اپنے اخراجات کے لیے تمہیں محنت مزدوری کرناہوگی۔ اس سے تم یہ جان سکو گے کہ ہمارے ملک کے غریب لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں اور انھیں کیسی کیسی مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جب تم واپس محل میں آؤ تو تمھارے پاس ایک اچھی خاصی رقم ہونا چاہیے۔ یہ رقم تمہیں اپنی محنت،ایمانداری اور ذہانت سے حاصل کرنا ہوگی۔ اگر تم کامیاب ہوگئے توہم سمجھیں گے کہ ہمارا شہزادہ ہمارے بعد واقعی اس ملک کا بادشاہ بننے کے لائق ہے۔

    شہزادہ عالم زیب نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے کہے پر عمل کرے گا۔ پھر اس نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔

    اس کے جانے کی خبر ملکہ کو ہوئی تو وہ پریشان ہو گئی۔ اس کی پریشانی بھانپ کر شہزادے نے ماں کو تسلی دی اور کہا۔ “امی حضور۔ مجھے یہ اچھا موقع ملا ہے۔ میں دنیا میں گھوموں پھروں گا تو کچھ نہ کچھ سیکھوں گا ہی۔ یہ تجربہ بہت ضروری ہوتا ہے اور آئندہ زندگی میں بہت کام آتا ہے۔

    ملکہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوگئی۔ اگلے روز شہزادہ عالم زیب سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ اس کے جسم پر نہ تو شاہی لباس تھا اورنہ ہی اس کے ساتھ اس کا گھوڑا تھا۔ وہ عام کپڑے پہن کر محل سے نکلا اور ایک طرف روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق اس کی جیبوں میں ایک پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔

    وہ صبح کے وقت محل سے نکلا تھا اور اب دوپہر ہو گئی تھی۔ اس نے کافی فاصلہ طے کرلیا تھا۔ بہت سی بستیاں پیچھے رہ گئی تھیں اور اب اس کے سامنے چٹیل میدان تھا۔ موسم بہت خوش گوار تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اب اسے بھوک لگنے لگی تھی۔ کچھ دور آگے چلا تو اسے ایک جنگل نظر آیا۔ جنگل میں بہت سے پھلوں کے درخت تھے۔ اس نے درختوں سے پھل توڑے اور انہیں کھا کر بھوک مٹائی۔ وہاں بیروں کی جھاڑیاں بھی تھیں جن میں سرخ سرخ میٹھے بیر لگے تھے۔ اس نے ان بیروں کو توڑ کر اپنی جیبوں میں بھر لیا تاکہ پھر بھوک لگے توانہیں کھا سکے۔ قریب ہی ایک دریا بہہ رہا تھا۔ اس نے دریا سے پانی پیا اور دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ کسی آبادی میں پہنچ جائے تو پھر سوچے گا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔

    وہ اللہ کا نام لے کر آگے کی جانب چل پڑا۔ اسے چلتے ہوئے کافی دیرہو گئی تھی مگر وہ تھا کہ بغیر رکے چلا ہی جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کسی آبادی کے آثار نظر آئے۔ چھوٹے چھوٹے گھر اس کی نظروں کے سامنے تھے۔ وہ خوش ہوگیا اور اپنی رفتار مزید تیز کردی۔

    زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ اس آبادی میں پہنچ گیا۔ وہ ایک گاؤں تھا۔ جیسے ہی وہ گاؤں میں داخل ہوا ایک آدمی اس کی طرف آیا اوربولا۔ ’’تم اجنبی معلوم دیتے ہو۔ کیا کسی کام کی تلاش میں ہو؟۔‘‘

    شہزادہ عالم زیب نے کہا۔ ’’آپ نے ٹھیک کہا۔ میں کوئی کام کرناچاہتا ہوں تاکہ میرے پاس کچھ رقم جمع ہوجائے اور میں دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو سکوں۔ میں گھوم پھر کراپنا ملک دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔‘‘

    وہ آدمی یہ سن کر خوش ہوگیا اور اسے ساتھ لے کر اپنے گھر آیا۔ گھر میں اس کی بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے۔ وہ سب شہزادہ عالم زیب کو دیکھ کر بہت خوش ہوۓ۔ جنگل سے روانہ ہوتے ہوئے اس نے جو بیر اپنی جیبوں میں بھر لیے تھے، وہ بیر اس نے اس آدمی کے بچوں کو دےدئیے۔ دونوں بچے خوش ہوگئے۔

    تھوڑی دیر میں اس آدمی کی بیوی نے کھانا تیار کرلیا۔ جب وہ لوگ کھانا کھا چکے تو اس آدمی نے کہا۔ ’’میرا نام بہرام ہے۔ میں نے چندروز پہلے گاؤں میں کچھ زمین خریدی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اس پرکھیتی باڑی شروع کروں ۔ مگر وہ زمین بہت اونچی نیچی ہے۔ میں اس کو ہموار نہیں کرسکتا۔ اس کام کو تم کرو گے۔ جب زمین ہموارہوجائے گی اور اس میں بیج بو دیے جائیں گے تو تمہاری چھٹی ہوجائے گی۔ میں تمہاری محنت کے بدلے اتنی رقم دوں گا کہ تم مزے سے گھوم پھر سکو گے۔‘‘

    شہزادہ عالم زیب نے اس کام کو کرنے کی حامی بھر لی۔ اگلے روزوہ بہرام کے ساتھ اس کی زمین پر پہنچ گیا۔ زمین واقعی بہت اونچی نیچی تھی۔ شہزادہ عالم زیب نے کدال سنبھالی اور کام شروع کردیا۔ بہرام کو کوئی کام یاد آگیا تھا اس لیے وہ گھر چلا گیا۔

    اچانک شہزادہ عالم زیب کی کدال کسی دھاتی چیز سے ٹکرائی۔ اس نے وہاں کی مٹی کو ہاتھوں سے ہٹایا تو اسے پیتل کی ایک ہنڈیا نظرآئی۔ اس پر ایک ڈھکن ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے ڈھکن کو اٹھا کر اندرجھانکا تو ہنڈیا میں چمچماتی ہوئی سونے کی اشرفیاں نظر آئیں۔ وہ ان اشرفیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس ہنڈیا کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد وہ پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ دوپہر تک اس نے ساری زمین کو ہموار کردیا تھا۔ اس نے پوری زمین میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کم گہری نالیاں بھی بنا دی تھیں تاکہ ان میں بیجوں کو بویا جا سکے۔ یہ بہت مشقت کا کام تھا مگر وہ بڑی جانفشانی سے لگا رہا۔ اس قدر محنت کا کام کرنے کی وجہ سے شہزادہ عالم زیب کو تھکن سی محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔

    بہرام کو گئے ہوئے بہت دیر ہوگئی تھی۔ وہ جب گھر سے واپس آیا توشہزادہ عالم زیب اپنا کام ختم کر چکا تھا۔ اس کے کھیتوں کی زمین بالکل ہموار ہو چکی تھی۔ اس نے اس کی محنت اور کام کی بہت تعریف کی۔ بہرام اپنے ساتھ گھر سے کھانا بھی لایا تھا۔ دونوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ شہزادہ عالم زیب نے اسے ابھی تک اشرفیوں کی ہنڈیا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔

    دوسرے روز جب بیج ڈالنے کی باری آئی تو شہزادہ عالم زیب نے بہرام کو وہ ہنڈیا دکھائی۔ بہرام بہت خوش ہوا اور بولا۔ ’’تم تو بہت ایماندار لڑکے ہو۔ تم چاہتے تو اس ہنڈیا کو چپکے سے نکال کر چلے جاتے۔ میں تمہاری ایمانداری سے بہت خوش ہوا ہوں۔ میں اس میں موجود آدھی اشرفیاں تمہیں بھی دوں گا‘‘۔

    شہزادہ عالم زیب نے بہت منع کیا کہ وہ اشرفیاں نہیں لے گا مگر بہرام نہ مانا۔ ہنڈیا میں ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ بہرام نے پانچ سواشرفیاں اسے دے دیں۔ شہزادہ عالم زیب سوچنے لگا کہ ان اشرفیو ں کا کیا کرے۔ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اسی گاؤں میں پھل کے درختوں کا ایک بہت بڑا باغ تھا۔ اس کا مالک اسے فروخت کرنا چاہتاتھا۔ شہزادہ عالم زیب نے ان اشرفیوں سے وہ باغ خرید لیا۔ گاؤں میں بہت سارے لوگ ایسے تھے جو مزدوری کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس نے ان میں سے کچھ لوگوں کو باغ کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ملازم رکھ لیا۔ ان کے ذمے باغ کے درختوں کو پانی اور کھاد دینااور درختوں سے پھلوں کو توڑ کر جمع کرنا تھا۔

    شہزادہ عالم زیب کو گاؤں میں رہتے ہوئے کافی روز ہوگئے تھے۔ اس دوران وہ اپنے پھلوں کے باغ کی بھی دیکھ بھال کرتا تھا اوربہرام کے کھیتوں میں بھی کام کرتا تھا۔ بہرام کے کھیت بھی ہرے بھرے ہوگئے تھے۔

    ایک روز اس نے بہرام سے کہا۔ ’’اپنا ملک دیکھنے کا سفر تو ادھورا ہی رہ گیا ہے۔ اب مجھے چلنا چاہیے۔ آپ کی مہربانی ہوگی اگر آپ میری غیر موجودگی میں میرے پھلوں کے باغ کی نگرانی کرتے رہیں۔‘‘

    بہرام نے اس کام کی حامی بھر لی۔ شہزادہ عالم زیب دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ اس کے پاس اب پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ بہرام نے چلتے ہوئے اسے بہت سارے سونے کے سکے بھی دیے تھے جوکھیتوں میں کام کرنے کی مزدوری تھی۔ شہزادہ عالم زیب نے ایک بہترین قسم کا گھوڑا بھی خرید لیا تھا جس کی وجہ سے اسے بہت آسانی ہوگئی تھی۔

    چونکہ اس کے پاس بہت سی رقم تھی، اس لیے اب اسے کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کسی بھی گاؤں یاشہر کی سرائے میں قیام کرتا۔ چند روز وہاں ٹھہر کر آس پاس کاعلاقہ دیکھتا، وہاں کے لوگوں سے ملتا، ان کے مسائل کا مشاہدہ کرتااور پھر آگے چل پڑتا۔ اس سفر میں اسے بہت مزہ آیا تھا۔ اسے اس بات سے اچھی طرح واقفیت ہو گئی تھی کہ غریب لوگوں کو کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ محل جا کر بادشاہ سے کہہ کران سب کی مشکلات کا خاتمہ کروائے گا۔

    اسے محل سے نکلے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ اس کو اب بادشاہ اور ملکہ کی یاد ستانے لگی تھی۔ اس عرصے میں اس نے تقریباً پوراملک گھوم لیا تھا۔ اب اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ سب سے پہلے وہ بہرام کے گاؤں پہنچا۔ اسے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کا وہ باغ جو اس نے بہرام کی دی ہوئی اشرفیوں کے عیوض خریدا تھا،مختلف قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باغ کے نگرانوں نے بڑی محنت سے کام کیا تھا۔ بہرام نے اسے بتایا کہ اس کے باغ کے پھل بہت اچھی قیمت پر فروخت ہوجاتے ہیں۔ اس نے ایک اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی شہزادہ عالم زیب کے حوالے کی اور بولا۔ ’’باغ کے سارے اخراجات نکال کر یہ اشرفیاں بچی ہیں۔ انہیں سنبھال کر اپنے پاس رکھو۔‘‘

    شہزادہ عالم زیب نے اشرفیوں کی تھیلی لے کر اس کا شکریہ ادا کیااور بولا۔ ’’میری مشکل حل ہوگئی ہے۔ ابّا حضور نے یہ ہی حکم دیاتھا کہ میں واپس آؤں تو میرے پاس اچھی خاصی رقم بھی ہوناچاہیے۔‘‘

    پھر اس نے بہرام کو اپنی پوری کہانی سنا دی۔ بہرام کو جب پتہ چلاکہ وہ اس ملک کا شہزادہ ہے تو وہ پریشان ہوگیا اور بولا۔ ’’شہزادے صاحب۔ معاف فرمایے گا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ شہزادے ہیں۔ یہ بات اگر مجھے معلوم ہوتی تو میں کبھی آپ سے اپنے کھیتوں میں کام نہ کرواتا۔ مجھے معاف کردیجیے۔‘‘

    شہزادہ عالم زیب نے کہا۔ ’’مجھے شرمندہ نہ کیجیے۔ میں شہزادہ ضرور تھا مگر ایک غریب شہزادہ تھا۔ میں محل سے نکلا تھا تومیرے پاس ایک کوڑی تک نہ تھی۔ آپ نے تو مجھ پر احسان کیاتھا۔ آپ ہی کی وجہ سے تو میں اس قابل ہوا ہوں کہ اپنے ابّا جان کی نظروں میں سرخرو ہو سکوں۔‘‘

    اس کی بات سن کر بہرام کو کچھ اطمینان ہوا۔ شہزادہ عالم زیب نے پھر کہا۔ ’’اب میرے اس باغ کے مالک آپ ہیں۔ اس میں کام کرنے والوں کا بہت خیال رکھیے گا۔‘‘

    بہرام نے اس سے اس بات کا وعدہ کرلیا۔ اگلے روز شہزادہ عالم زیب اپنے محل میں آگیا۔ بادشاہ اور ملکہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس نے اپنے ساتھ لائی ہوئی اشرفیاں اور سونے کے سکے بادشاہ کو دکھائے اور بولا۔ ’’ابّا حضور۔ آپ کے حکم کے مطابق میں نے ایک غریب آدمی کے بھیس میں پورا ملک دیکھ لیا ہے۔ محل میں بیٹھ کر جو باتیں مجھے پتہ نہیں تھیں، میں اب ان سے واقف ہوگیا ہوں۔ ہمارے ملک کے بہت سارے لوگ بہت تکلیف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ سرکاری اہل کار اپنے کاموں کو ایمانداری اور محنت سے انجام نہیں دیتے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد انتہائی غریب ہے کیوں کہ ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ میں نے جگہ جگہ ایسے بچوں کودیکھا جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتبوں کا رخ نہیں کرتے۔ یہ بچے سارا سارا دن گلی محلوں میں کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں اور تعلیم سے دوری کی وجہ سے بڑے ہو کر اپنے ملک کے لیے قابل قدر کام انجام دینے کے قابل نہیں ہوتے۔ مجھے یہ بھی پتہ چلاہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کسی ہنر سے واقف نہیں ہے۔ بڑے ہو کر وہ صرف محنت مزدوری ہی کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں زیادہ پیسے نہیں ملتے اور وہ ہمیشہ غریب کے غریب ہی رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کوئی ہنر سیکھ لیں تو یہ بات ان کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی بہت افسوس ہوا کہ پانی کے کنویں بہت کم اور آبادیوں سے بہت دور ہیں۔ بے چاری عورتوں کو ایک طویل فاصلہ طے کر کے پانی لاناپڑتا ہے۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے تھے جو اپنے بار برداری کے جانورں پر بھی بہت ظلم کرتے ہیں۔ وہ نہ تو انھیں اچھا کھانادیتے ہیں اور نہ ہی ان کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘‘

    بادشاہ شہزادہ عالم زیب کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور بولا۔ ’’شہزادے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ تمام باتیں جاننے کے لیے تم نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ مگر ان باتوں سے ہماری بھی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ ہم کل ہی یہ حکم جاری کریں گے کہ ملک میں بہت سے مکتب اور مدرسے کھولے جائیں تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ سکے۔ ہر گاؤں اور دیہات میں جگہ جگہ کنویں کھودے جائیں تاکہ وہاں کے رہنے والوں کو آسانی سے پانی دستیاب ہو۔ ہم یہ حکم بھی دیں گے کہ پورے ملک میں بہت سے ایسے تربیتی مراکز بنائے جائیں جن میں ہنر سکھانے والے نوجوانوں کو مختلف ہنرسکھائیں۔ ہمارے ملک کے لوگ ہنر مند ہوں گے تو انھیں ان کے کام کے پیسے بھی زیادہ ملیں گے اور ان کے کام کی وجہ سے دنیا میں ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم یہ حکم بھی جاری کریں گے کہ اگر کسی شخص نے اپنے جانور کے ساتھ ٹھیک سلوک نہیں کیا تو اسے سخت سزا ملے گی۔ جانور بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ کسی کو ان سے برا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘

    پھر ایسا ہی ہوا۔ چند ہی روز میں بادشاہ کے احکامات کی تعمیل کردی گئی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس کے ملک کے لوگوں کے حالات ان اقدامات کی وجہ سے بہت بہتر ہوگئے۔ بادشاہ، ملکہ اور شہزادہ عالم زیب یہ سب دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے کیوں کہ ان کے ملک کے لوگ اب ایک اچھی اور خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے