غلطی ہماری ہے
ثاقب صاحب آفس سے گھر آئے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی بیوی کا موڈ کچھ خراب ہے۔انھیں دیکھ کر نہ تو وہ مسکرائیں اور نہ ہی اس خوشی کا اظہار کیا جو روز ان کے آفس سے آنے پر کرتی تھیں۔وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے تو بیوی نے خاموشی سے چائے کا کپ ان کے سامنے رکھ دیا اور سامنے صوفے پر بیٹھ کر دوپٹے سے منہ کا پسینہ خشک کرنے لگیں۔
“بیگم۔آج تو تم غصے میں دکھائی دے رہی ہو۔اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ میں کچھ جلدی گھر آگیا ہوں۔” ثاقب صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر مزاحیہ انداز میں کہا۔
ان کی بات سن کر ان کی بیوی بولیں۔ “آپ کو تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔آپ نے تین مصیبتیں میرے پیچھے لگا دی ہیں۔ان میں سے کوئی ایک بھی میری بات نہیں سنتا۔میں کہتی رہ جاتی ہوں کہ یہ کردو، وہ کردو۔مجال ہے جو ان کے کانوں پر جوں رینگ جائے۔ہر وقت موبائل لیے کونے کھدروں میں دبکے رہتے ہیں۔میں عدنان سے کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں کہ وہ مجھے مارکیٹ سے کچھ سودا لادے۔ ہر مرتبہ وہ یہ ہی کہہ دیتا ہے کہ ابھی لاتا ہوں۔مگر جب سے موبائل پر گیم ہی کھیلے جا رہا ہے”۔
“شکر ہے تم بچوں کی وجہ سے ناراض ہو۔میں تو ڈر گیا تھا کہ تمہاری ناراضگی مجھ سے ہے۔” ثاقب صاحب نے خوش دلی سے مسکرا کر کہا۔
ان کی اس بات پر ان کی بیوی بھی مسکرا دیں اور شکایتی لہجے میں بولیں۔“آپ انھیں کچھ سمجھاتے کیوں نہیں ہیں۔ہر چیز کی زیادتی بھی بری ہوتی ہے”۔
ثاقب صاحب ایک دم سے سنجیدہ ہوگئے اور خاموشی سے کچھ سوچتے ہوئے چائے پینے لگے۔تھوڑی دیر بعد بولے۔ “معاملہ واقعی بہت اہم ہے۔اس کا حل نکالنا ہی پڑے گا”۔
ان کی آمد کی خبر تینوں بچوں عدنان، کامران اور گڑیا کو ہو گئی تھی۔وہ تینوں اپنے پاپا کے پاس آئے اور انھیں سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گئے –
ثاقب صاحب نے عدنان سے کہا۔ “بیٹا۔کتنی بری بات ہے۔تم اپنی امی کی بات نہیں سنتے ہو۔انھیں کچھ چیزیں منگوانا تھیں۔وہ تم نے اب تک لاکر نہیں دیں”۔
عدنان نے شکایتی نگاہوں سے امی کو دیکھا اور بولا۔ “سوری۔امی بتائیے آپ کو کیا منگوانا ہے”۔
امی نے بھی بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا اور اسے ایک پرچہ تھما کر بولیں۔ “یہ چیزیں لے لینا اور جلدی آجانا۔مجھے کھانا پکانے کو دیر ہو رہی ہے”۔
عدنان کے جانے کے بعد، کامران اور گڑیا تھوڑی دیر تک پاپا کے پاس بیٹھے رہے۔اس دوران ثاقب صاحب نے ان سے کچھ باتیں کیں۔ یہ بھی پوچھا کہ آج اسکول میں کیا کیا ہوا تھا۔اس مختصر سی گفتگو کے بعد دونوں بچے اٹھ کر پھر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
انھیں جاتا دیکھا تو ان کی امی سمجھ گئیں کہ اب یہ پھر موبائل لے کر بیٹھ جائیں گے۔ مگر کچھ سوچ کر وہ خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں۔
ان کے تینوں بچے بارہ سالہ عدنان، دس سالہ کامران اور آٹھ سالہ گڑیا نہایت تمیز دار تھے۔وہ پڑھنے لکھنے میں بھی تیز تھے اور ادب آداب میں بھی اچھے تھے۔مگر ان میں یہ بری بات پیدا ہوگئی تھی کہ اپنے اسکول وغیرہ کا کام ختم کرکے وہ موبائل لے کر بیٹھ جاتے تھے۔
اس عادت نے انھیں ان کھیلوں سے دور کردیا تھا جو جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں بڑھاتے ہیں۔عدنان اور کامران نہ تو کرکٹ، ہاکی، بیڈ منٹن اور فٹ بال کھیلنے باہر میدان میں جاتے تھے اور نہ ہی گھر میں گڑیا کے ساتھ لوڈو، کیرم اور اسی طرح کے دوسرے گیم کھیلتے تھے۔اور تو اور ان کی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کی عادت بھی نہیں رہی تھی۔ان سب خرابیوں کی وجہ موبائلوں میں ان کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی تھی۔
امی کو ان کے پاپا سے شکایت کیے چند روز ہوگئے تھے کہ ایک روز رات کے کھانے پر ثاقب صاحب نے بچوں سے کہا۔ “تین روز بعد اتوار کی چھٹی آنے والی ہے۔ہم لوگ شاداب نگر کے جنگل چلیں گے اور وہاں پر پکنک منائیں گے۔یہ جنگل ہمارے گھر سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر کی دوری پر پہاڑوں کے نزدیک ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پر ہے۔وہاں ایک دریا بھی بہتا ہے جس کا پانی بہت ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔وہاں ہم ایک بہت ہی مزے کا کھیل بھی کھیلیں گے”۔
“پاپا وہ کھیل کون سا ہوگا؟” گڑیا نے دلچسپی سے پوچھا۔
میں جنگل میں کسی جگہ ایک بڑا سا بیگ چھپا دوں گا۔اس بیگ میں بہت اچھی اچھی چیزیں ہوں گی۔تمہیں اس بیگ کو ڈھونڈنا ہوگا۔مجھے یقین ہے کہ تم اس کھیل سے بہت لطف اندوز ہوگے”۔
تینوں بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔گڑیا بولی۔ “لیکن پاپا جنگل تو بہت بڑا ہوتا ہے کیا اس بیگ کے لیے ہمیں پورے جنگل کی تلاشی لینا پڑے گی؟”۔
اس کا سوال سن کر ثاقب صاحب مسکرائے اور بولے۔ “شاباش تم نے ایک بہت اچھا سوال کیا ہے۔پورے جنگل کی تلاشی لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جہاں ہم بیٹھیں گے اس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں وہ بیگ موجود ہوگا”۔
ان کی بیوی بھی یہ بات سن کر خوش ہوگئیں۔کہنے لگیں۔“میں بھی گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آگئی ہوں۔اچھا ہے میری بھی سیر و تفریح ہوجائے گی”۔
عدنان نے پوچھا۔ “اور پاپا کیا امی بھی اس کھیل میں حصہ لیں گی؟”۔
“میں تو اس کھیل سے باز آئی۔ہوسکتا ہے تمہارے پاپا وہ بیگ کسی پرندے کے گھونسلے میں رکھیں۔ درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلوں میں جھانکتی کیا میں اچھی لگوں گی؟”۔ان کی امی نے مسکرا کر کہا۔
ان کی بات سن کر تینوں بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔کامران نے کہا۔ “تو کیا پاپا آپ اس بیگ کو کسی گھونسلے میں چھپائیں گے؟ گڑیا درختوں پر تو چڑھ نہیں سکتی۔وہ اسے کیسے ڈھونڈے گی۔”۔
“اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ہوسکتا ہے میں اسے گھونسلے میں نہ چھپاؤں”۔ثاقب صاحب نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔بچے ان کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے اور اسی بارے میں اظہار خیال کرنے لگے۔انھیں اس بات کا تجسس ہوگیا تھا کہ پاپا اس بیگ کو کہاں چھپائیں گے۔انہوں نے مختلف جگہوں کے بارے میں سوچا مگر کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
وہ اسی ادھیڑ بن میں لگے رہے اور اس دوران ان کا دھیان اپنے موبائلوں کی طرف بھی نہیں گیا۔ان کا ذہن اس بات میں الجھا ہوا تھا کہ بیگ کہاں رکھا ہوگا۔جب وہ سونے کے لیے بستروں پر گئے اور ان کی امی انھیں دیکھنے کے لیے ان کے کمرے میں آئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ کسی بچے کے پاس بھی موبائل نہیں تھا۔وہ اپنے اپنے بستروں میں لیٹے پکنک اور اس بیگ کے بارے میں ہی باتیں کررہے تھے۔
انہوں نے مسکرا کر انھیں شب خیر کہا اور واپس جا کر ثاقب صاحب کو یہ خبر سنائی کہ آج پہلی دفعہ انھیں بچوں سے یہ نہیں کہنا پڑا کہ بچو۔اپنے اپنے موبائل رکھ کر اب سوجاؤ۔
ثاقب صاحب یہ سن کر مسکرانے لگے۔
اتوار والے دن تینوں بچے خلاف توقع جلد سو کر اٹھ گئے۔ورنہ عموماً چھٹی والے دن وہ دیر تک سوتے تھے۔سب نے نہا دھو کر کپڑے پہنے۔جلدی جلدی ناشتہ کیا اور ثاقب صاحب کا انتظار کرنے لگے کہ وہ کب انھیں گاڑی میں بیٹھنے کا کہتے ہیں۔ثاقب صاحب ان کی امی کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں پیک کروا رہے تھے۔ان کی امی نے بریانی، کباب اور فروٹ کسٹرڈ بنایا تھا۔کھانے کے ساتھ پھل تھے اور مشروبات کے ٹن تھے۔پھل اور مشروبات کے ٹن پلاسٹک کے تھیلوں میں رکھے ہوئے تھے۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں اور وہ گھر کو لاک کر کے اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔تینوں بچوں کے چہروں پر جوش کے اثرات نمایاں تھے۔وہ جلد سے جلد وہاں پہنچ کر اس بیگ کو ڈھونڈنے کے لیے بے چین تھے۔ان کی بے چینی کو محسوس کرکے ثاقب صاحب مسکرا رہے تھے۔
حالانکہ گرمی کا موسم تھا اور سورج پوری آب و تاب سے آسمان پر چمک رہا تھا۔مگر جب وہ جنگل کے قریب پہنچے تو انھیں ٹھنڈک کا احساس ہوا۔چاروں طرف ایک پرسکون سناٹا طاری تھا، ایسے میں کبھی کبھار کسی پرندے کی تیز آواز فضا میں گونجتی اور کانوں کو بڑی بھلی محسوس ہوتی تھی۔
ایک صاف ستھری جگہ منتخب کر کے انہوں نے وہاں گاڑی روکی اور گاڑی سے کچھ دور پڑاؤ ڈال دیا۔قریب ہی دریا تھا اور اس کا صاف ستھرا پانی سورج کی روشنی میں چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔بچوں نے پلاسٹک کی چٹائی بچھا کر ساتھ لایا ہوا کھانے پینے کا سامان گاڑی میں سے نکال کر اس پر رکھ دیا۔
ثاقب صاحب نے پھلوں اور مشروبات کے تھیلوں میں لمبی ڈوریاں باندھ کر انھیں دریا کے ٹھنڈے پانی میں ڈالا اور ڈوریوں کے سرے کو ایک درخت سے باندھ دیا اور بچوں سے بولے۔ “اب تھیلوں میں موجود چیزیں دریا کے پانی کی وجہ سے ٹھنڈی رہیں گی۔”
یہ ترکیب بچوں کے لیے نئی تھی۔ گڑیا نے فخر سے دونوں بھائیوں کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ اس کے پاپا کو کیسی کیسی باتیں پتاہیں۔
ثاقب صاحب اور ان کی بیوی چٹائی پر آرام سے بیٹھ گئے۔عدنان نے کہا۔ “لو بھئی۔میں تو چلا اس بیگ کو تلاش کرنے کے لیے۔اگر میں نے اسے ڈھونڈ لیا تو تم دونوں کو بھی اس میں سے چیزیں دوں گا۔”
وہ دریا کی جانب چل پڑا۔اس کے ذہن میں ایک بات آئی تھی۔اس نے سوچا کہ کہیں اس کے پاپا نے رسی باندھ کر اس بیگ کو بھی دریا میں نہ ڈال دیا ہو، جیسے پھل اور مشروبات کے تھیلوں کو ڈالا تھا۔وہ دریا کے کنارے کنارے چلتا رہا۔اسے کسی رسی کی تلاش تھی جس کا ایک سرا درخت سے بندھا ہو اور اس کے دوسرے سرے پر بندھا چیزوں کا بیگ دریا میں پڑا ہو۔وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا کافی آگے نکل آیا مگر بیگ نہ ملا۔
اس کے چھوٹے بھائی کامران کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ بیگ کسی درخت پر ٹنگا ہوگا۔وہ سر اٹھائے اونچے اونچے درختوں کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔اس نے بہت سارے درخت دیکھ لیے مگر وہ بیگ اسے بھی نہ مل سکا۔
ثاقب صاحب اور ان کی بیوی بڑی دلچسپی سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ان کی بیوی نے پوچھا۔ “آپ کا کیا خیال ہے۔یہ لوگ اس بیگ کو ڈھونڈ بھی لیں گے یا نہیں؟”
ثاقب صاحب ہنسے اور بولے۔ “مجھے تو مشکل ہی نظر آتا ہے۔وہ بیگ میں نے چھپایا ہے۔اتنی آسانی سے تو ملنے سے رہا”۔
گڑیا ان کے نزدیک ہی بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے بھائیوں کو دیکھ رہی تھی جو اب کافی دور نکل گئے تھے۔
“تم اسے کیوں نہیں ڈھونڈ رہیں؟”۔اس کی امی نے سوال کیا۔
“میں بھی ڈھونڈنے جاؤں گی۔ابھی میں ذرا سوچ رہی ہوں کہ وہ کہاں ہوگا”۔گڑیا نے جواب دیا۔
اس کی امی پھر ثاقب صاحب کی طرف متوجہ ہوگئیں۔وہ بولیں۔ “آپ نے پکنک کے لیے جگہ کا انتخاب خوب کیا ہے۔یہاں بہت سکون اور خنکی ہے۔بڑا مزہ آرہا ہے۔آپ پہلے بھی کبھی یہاں آئے تھے؟”
“نہیں۔اس جگہ کے بارے میں میرے دوستوں نے مجھے بتایا تھا۔میں بھی یہاں پہلی مرتبہ آیا ہوں”۔یہ کہہ کر ثاقب صاحب نے بچوں کی طرف دیکھا اور بولے۔ “دونوں بڑی احتیاط سے ہر جگہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔تم تو ان بے چاروں سے خواہ مخواہ شاکی رہتی تھیں۔بھلا دیکھو تو سہی، کل رات سے اب تک انہوں نے موبائلوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہے۔اس مہم کو سر کرنے کے شوق میں وہ انھیں اپنے ساتھ بھی لے کر نہیں آئے، گھر ہی چھوڑ آئے ہیں”۔
“یہ تو ہے”۔ ان کی بیوی نے حیرت سے کہا۔ “اس طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔یہ لوگ تو اپنے موبائلوں کو بالکل بھول ہی گئے ہیں”۔
“بس تمہیں اس بات کا احساس دلانے کے لیے ہی میں نے یہ منصوبہ بنایا تھا”۔ ثاقب صاحب نے کہا۔ “ہمارے بچے اور دوسرے تمام بچے بہت اچھے ہیں۔یہ ہماری ہی غلطی ہے کہ اپنی آسانی کے لیے ہم بچوں کو ٹی وی کے کارٹون اور موبائلوں میں لگا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ان چیزوں میں مصروف رہیں گے تو ہمیں ڈسٹرب نہیں کریں گے”۔
ان کی بیوی شرمندگی سے بولیں۔ “یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی ہے۔جب ہمارے تینوں بچے ایک ایک سال کے تھے تو آپ کے آفس چلے جانے کے بعد مجھے بہت تنگ کرتے تھے۔میں ڈھنگ سے گھر کا کوئی کام بھی نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کوئی ٹی وی ڈرامہ دیکھ سکتی تھی۔پھر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔میں چھوٹے ٹی وی پر کارٹون لگا کر انھیں ان کی ڈائننگ چیئر پر بیٹھا دیتی تھی، وہیں انہیں دودھ کی بوتل بھی دے دی، یہ گھنٹوں مجھے تنگ نہیں کرتے تھے۔کارٹونوں میں ہی لگے رہتے تھے۔مجھے بڑا آرام ہوگیا تھا”۔
“اور پھر جب یہ بڑے ہوئے تو تم نے اور میں نے ان کی سالگراہوں اور امتحانوں میں پاس ہونے کی خوشی میں بڑے بڑے موبائل دلا دیے۔میں بھی اس کا قصور وار ہوں۔آفس سے آنے کے بعد یہ مجھے نہ تو خبریں دیکھنے دیتے تھے اور نہ ہی اخبار پڑھنے دیتے تھے۔یہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتے تھے، میرے ساتھ باہر گھومنے پھرنے کے لیے جانا چاہتے تھے، یہ چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ کھیلوں۔مگر میں نے بھی یہ کوشش کی کہ یہ کسی مشغلے میں لگ جائیں اور میں آرام اور سکون سے ٹی وی دیکھوں اور اخبار پڑھوں۔ان کے پاس موبائل آئے تو یہ ان میں مگن رہنے لگے اور یہ میری کم عقلی کہ میں خوش ہوگیا کہ اب یہ لوگ مجھے تنگ نہیں کرتے۔اس طرح خود ہم نے اپنے بچوں کو اپنے سے دور کردیا تھا۔موبائلوں میں لگ کر انہوں نے اپنے کھیل کود اور میدانوں اور پارکوں میں جانا بند کردیا۔اسکول میں کورس کی کتابیں تو پڑھتے تھے مگر وہ غیر درسی کتابیں جن سے دنیا بھر کی معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی۔تم خود دیکھو۔جب ہم نے ان کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لیا ہے تو یہ کتنا خوش ہیں اور کتنا مگن ہیں۔انہیں اپنے موبائل بھی یاد نہیں رہے”۔ ثاقب صاحب نے کہا۔
ان کی بیوی ان کی باتیں سن کر شرمندہ نظر آنے لگیں۔انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔ “مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔میں نے اپنی آسانی اور آرام کے لیے اپنے بچوں کو خود سے دور کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ موبائلوں میں گم رہنے لگے تھے۔اب تو میں نے سوچ لیا ہے کہ ان کو بہت سارا وقت دیا کروں گی۔گھر کا کام ہوتا ہے تو ہو، نہیں ہوتا ہے تو نہ ہو۔میں ٹی وی ڈرامے دیکھنا بھی بند کردوں گی۔میں ان سے باتیں کیا کروں گی، ان کے ساتھ ان ڈور گیمز کھیلا کروں گی اور ان کو ساتھ بٹھا کر خود بھی کہانیوں کی کتابیں پڑھا کروں گی اور انہیں بھی پڑھایا کرونگی۔میں انہیں بہت سا وقت دیا کروں گی”۔
“میں بھی عدنان اور کامران سے کہوں گا کہ اب وہ روز شام کو میدان میں کھیلنے جایا کریں۔رات کو میں ان تینوں کے ساتھ کیرم، لوڈو اور تعلیمی تاش بھی کھیلا کروں گا”۔ ثاقب صاحب نے کہا۔
عدنان اور کامران کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔گڑیا کچھ دور ایک جھاڑیوں میں سے بیر توڑ رہی تھی اور ان کو ایک مخملی تھیلی میں رکھتی جا رہی تھی۔ثاقب صاحب نے بچوں کو آواز دی کیوں کہ کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔وہ تینوں آگئے۔عدنان اور کامران کے چہروں پر مایوسی کے آثار تھے۔
کامران بولا۔ “پاپا ہم نے تو چپہ چپہ چھان مارا ہے۔سارے درخت اور جھاڑیاں دیکھ لیں۔ دریا کے کنارے کنارے دور تک دیکھ لیا۔وہ بیگ تو ہمیں کہیں نہیں ملا”۔
“وہ بیگ اسی جنگل میں ہے۔کھانے کے بعد پھر ڈھونڈنے کی کوشش کرنا۔اور گڑیا لگتا ہے تم نے ہمت ہار دی ہے۔تم وہ بیگ نہیں ڈھونڈ رہی ہو”۔ثاقب صاحب نے گڑیا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“پاپا۔وہ بیگ میں اس لیے نہیں ڈھونڈ رہی کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے”۔ گڑیا نے اٹھلا کر کہا۔
اس کی بات سن کر سب چونک گئے۔اس کی امی جو پلیٹوں میں کھانا نکال رہی تھیں بے یقینی سے اسے دیکھنے لگیں۔
“بھلا بتاؤ تو سہی کہاں ہے وہ بیگ؟” ۔ثاقب صاحب کو بھی اس کی بات کا یقین نہیں آیا تھا۔
“وہ بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا ہوا ہے۔آپ ٹھیک کہہ رہے تھے کہ بیگ جنگل میں ہے۔گاڑی بھی تو جنگل میں ہی ہے”۔گڑیا نے بڑے مزے سے کہا۔
اس کی بات سن کر ثاقب صاحب کی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔انہوں نے گڑیا کو گلے سے لگا لیا۔اس کے دونوں بھائی بھاگتے ہوئے گاڑی تک گئے۔اس کی ڈگی کھولی اس میں ایک بہت بڑا بیگ رکھا ہوا تھا۔وہ اسے اٹھا کر لائے۔ثاقب صاحب نے اس کی زپ کھولی، اس بیگ میں ایک کرکٹ کا بلا، وکٹیں، ربڑ کی گیندیں، چار بیڈ منٹن، ان کی شٹل کاکس کا ڈبہ، ایک لوڈو، اردو اور انگریزی کے تعلیمی تاش اور بہت سی کہانیوں کی کتابیں موجود تھیں۔
“گڑیا۔تم واقعی ایک عقلمند لڑکی ہو۔مگر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ بیگ ڈگی میں رکھا ہوا ہے”۔ثاقب صاحب نے پوچھا۔
“میں کبھی کبھی بچوں کی جاسوسی کہانیاں بھی پڑھتی رہتی ہوں۔مجھے بھی تھوڑی بہت جاسوسی آگئی ہے۔جب آپ امی سے کہہ رہ تھے کہ آپ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں تو میں چپکے چپکے یہ بات سن رہی تھی۔مجھے پتہ چل گیا کہ جب آپ پہلے کبھی اس جگہ آئے ہی نہیں تھے تو یقیناً آپ نے بیگ جنگل میں نہیں گاڑی میں ہی چھپایا ہوگا”۔ گڑیا نے ہنستے ہوئے بتایا۔
اس کی اس جاسوسی پر سب نے اسے خوب شاباش دی۔
کامران بولا۔ “پاپا آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ نے ہمیں اتنی بہت سی چیزیں لاکر دیں۔اب ہم لوگ روز اپنے دوستوں کے ساتھ ان سے کھیلا کریں گے۔مجھے یہ احساس بھی ہوگیا ہے کسی بھی چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔یہ ہماری غلطی تھی کہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ہم موبائلوں پر صرف کرنے لگے تھے۔اس وجہ سے ہمیں کھیلنے کودنے اور گھر کے دوسرے کام کرنے کا ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔ہم موبائل بھی استعمال کیا کریں گے مگر ایک حد میں رہ کر اور اس کا بھی ایک وقت مخصوص کرلیں گے”۔
“تمہارا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے”۔ اس کی امی نے خوش ہو کر کہا پھر وہ گڑیا سے مخاطب ہوئیں۔ “گڑیا۔تم نے تو بھئی کمال کر دکھایا ہے۔واقعی میری بیٹی بہت ذہین ہے”۔
گڑیا نے اس تعریف پر خوش ہو کر ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.