Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گولک

MORE BYمختار احمد

    نویدچودہ پندرہ سال کا لڑکا تھا۔وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا تھا۔ اس کا باپ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا جہاں سے اسے رہنے کو ایک چھوٹا سا گھر بھی ملا ہوا تھا۔

    نوید کا باپ اس شہر میں آنے سے پہلے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔گاؤں کی زندگی میں دو چیزیں بہت خراب ہوتی ہیں۔ ایک تو وہاں سرکاری اسکول بہت کم ہوتے ہیں یا پھر بالکل بھی نہیں ہوتے۔ دوسرے گاؤں کے ماحول کی وجہ سے بہت کم بچے تعلیم کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے بچوں کے باپوں کو دن بھر یا تو دوسروں کی زمینوں پر کام کرنا پڑتا ہے یا پھر وہ کوئی اور محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ۔ ان کی مائیں کنوؤں سے پانی بھر کر لاتی ہیں، جنگل سے لکڑیاں کاٹتی ہیں اور گھر کے دوسرے کاموں میں لگی رہتی ہیں، اس لیے ماں باپ کی بچوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی۔بچوں کو اگر ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ تعلیم سے بھاگنے لگتے ہیں۔ ان کا بچپن تو ہنسی خوشی کھیل کود میں گزر جاتا ہے مگر باقی ماندہ زندگی میں انھیں بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں۔

    نوید کے باپ کی بھی یہ ہی کہانی تھی۔ گاؤں کے اسی ماحول کی وجہ سے وہ لکھ پڑھ نہ سکا۔وہ جوان ہو ا تو چھوٹے موٹے کام کر کے کچھ کمانے لگا مگر یہ ہوائی روزی ہوتی تھی، کبھی لگی کبھی نہ لگی۔ وہ تو بھلا ہو اس کے ایک رشتے دار کا کہ اس کی کوششوں سے اس کو ڈاک کے محکمے میں مالی کی نوکری مل گئی۔ انسان کو عقل اکثر نقصان اٹھانے کے بعد ہی آتی ہے۔ اس کے باپ کو احساس ہو گیا تھا کہ بچپن کے کھیل کود نے اس کی آئندہ پہاڑ جیسی زندگی عذاب بنا دی ہے۔اس کو چلچلاتی دھوپ میں صبح سے شام تک پودوں کی نگہبانی کرنا پڑتی تھی۔کیاریوں میں گوڈی کرنا، ان کی صفائی ستھرائی اور گھاس کے بڑے بڑے لانوں کی دیکھ بھال کرتے کرتے وہ تھک جاتا تھا۔اس بات پر وہ سخت ملول ہوتا تھا کہ کاش وہ پڑھ لکھ گیا ہوتا تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس کی تنخواہ بھی اتنی کم تھی کہ بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔

    گاؤں میں اس کی ایک خالہ تھی اور خالہ کی ایک لڑکی بھی تھی۔ جب اس کی سرکاری نوکری لگی اور محکمے کی طرف سے اس کی پوسٹنگ شہر میں کر دی گئی تو اس کی ماں نے اپنی بھتیجی سے اس کی شادی کردی تاکہ شہر جاکر اسے اکیلا نہ رہنا پڑے اور کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

    جب اس کے گھر نوید کی پیدائش ہوئی تو اس نے دل میں عہد کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ ہر حال میں اپنے بیٹے کو پڑھائے لکھائے گا۔علم حاصل نہ کر کے وہ جس عذاب سے گزرا ہے اپنے بیٹے کو نہیں گزرنے دے گا۔

    نوید جیسے ہی کچھ سمجھدار ہوا، اس کے باپ نے اس کو مدرسے میں داخل کروا دیا ۔اس کی بیوی اگرچہ گاؤں میں پلی بڑھی تھی مگر پانچ جماعت تک پڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے شوہر کے احساسات سے بخوبی واقف تھی اور اس کی بھی کوشش یہ ہی تھی کہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ جائے۔

    ماں باپ کی توجہ اور پیار میسر ہو تو بچے بھی اچھے کاموں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ نوید کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے اسکول جانے سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوتے ہیں تو اس میں ایک عجیب طرح کا احساس ذمہ داری پیدا ہو گیا۔ وہ پوری کوشش کرتا تھا کہ اسکول سے ناغہ نہ ہو۔ پابندی سے اسکول جانے اور اپنی پڑھائی سے دلچسپی کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ اپنی کلاس میں اول آنے لگا۔اس نے نویں کلاس کا امتحان دیا تو پورے صوبے میں اول آیا ۔اس کے اسکول کےاستاد اس کی کارکردگی سے بہت خوش تھے کیوں کہ نوید کی کامیابی کی وجہ سے محکمہ تعلیم کے ایک بڑے افسر نے اسکول کو ایک تعریفی خط بھیجا تھا جس میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان کے اسکول کا معیار تعلیم بہت اچھا ہے۔

    اب نوید دسویں جماعت میں آ گیا تھا۔ وہ ایک حساس لڑکا تھا اور اسے اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس کے ماں باپ بہت تکلیفیں اٹھا کر اس کی تعلیم کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ اس کو اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اس کی کامیابی سے اس کے شہر اور اسکول کا نام روشن ہوا تھا۔

    جہاں کامیابی سے خوش ہونے والے ہوتے ہیں، وہیں کچھ لوگ اس بات سے حسد بھی کرنے لگتے ہیں۔ نوید کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کی جماعت کے کچھ لڑکے جو خود بھی پڑھائی میں تیز تھے، مگر نوید کی طرح اول نہ آسکے تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ ٹیچرز سمیت پورا اسکول نوید کو سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہے تو وہ لوگ جل گئے اور منصوبہ بنانے لگے کہ ایسا کیا کریں کہ نوید کو منہ کی کھانا پڑے۔نوید سیدھا سادھا لڑکا تھا۔گھر کے ماحول کی وجہ سے وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اس لیے اس کو پتہ بھی نہیں چل سکا کہ ان جلنے کڑھنے والے لڑکوں کے دل میں کیا ہے۔

    ایک روز وہ دسویں جماعت کی کتابیں اپنے باپ کے ساتھ لینے بازار گیا۔پرانے وقتوں کی پڑھائی تو آسان تھی مگر اب دنیا بہت آگے بڑھ گئی تھی ۔ وقت بدلا تو اسکول کی تدریسی کتابوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں ہو گئی تھیں۔ موٹی موٹی کتابیں دیکھ کر لمحہ بھر کو تو وہ پریشان ہو گیا۔اس کو احساس ہو گیا تھا کہ کامیابی کے لیے اس کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔

    اس کے باپ نے بھی اس کی پریشانی بھانپ لی تھی۔ اس کی ہمت بڑھانے کو بولا۔ ’’نوید بیٹا۔ پریشان مت ہو۔ تمہارے پاس پورا سال پڑا ہے۔ آرام سے پڑھتے رہنا۔تم کوئی اچھا سا ٹیوشن سینٹر دیکھ کر رکھنا، میں تمہیں وہاں داخلہ بھی دلوا دوں گا۔ وہاں سے بھی تمہیں بہت مدد مل جائے گی مجھے چند کوٹھیوں میں پودوں کی دیکھ بھال کا کام بھی مل گیا ہے ٹیوشن کی کی فیس کا اس سے انتظام ہو جائے گا “۔

    نوید نے کہا۔ ’’ابّا جان۔ میری پڑھائی پر آپ کے بہت اخراجات ہو رہے ہیں۔کتنے سال ہو گئے ہیں آپ نے اور امی نے اپنے نئے کپڑے تک نہیں بنوائے ہیں۔ آپ ایک ہی جوتوں کا جوڑا جانے کب سے پہنے جا رہے ہیں۔ اس روز امی کو بخار ہوگیا تھا، میں نے کہا کہ چلیں ڈاکٹر صاحب کے پاس چلتے ہیں تو کہنے لگیں نہیں میں ویسے ہی ٹھیک ہو جاؤں گی‘‘۔

    اس کے باپ نے ہنس کر کہا۔ ’’تم بڑے ہوجاؤ گے تو پتہ چلے گا کہ ماں باپ اولاد کو کتنی تکلیفوں سے پالتے ہیں۔ ان کی بس یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کسی قابل ہو جائیں اور ہنسی خوشی زندگی گزاریں‘‘۔

    ’’اگر میں دسویں جماعت میں صوبے میں اول آگیا تو مجھے وظیفہ بھی ملے گا اور میری آئندہ کی پڑھائی کا خرچ حکومت اٹھائے گی۔ اس سے آپ کا بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا۔ بس مجھے یہ پریشانی ہوگئی ہے کہ اگر میں اول نہ آ سکا تو کیا ہوگا؟‘‘۔نوید نے فکرمند لہجے میں کہا۔

    اس کے باپ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا۔’’یہ باتیں تمہارے سوچنے کی نہیں ہیں۔ تم تو بس کوشش کیے جاؤ اور نتیجہ الله پر چھوڑ دو‘‘۔

    مگر یہ بات نوید کے ذہن پر سوار ہو گئی تھی۔وہ ہر دم یہ ہی سوچتا رہتا تھا کہ اگر وہ صوبے بھر میں اول نہیں آیا تو اسے وظیفہ نہیں ملے گا۔ وظیفہ نہیں ملا تو اس کے ماں باپ کو اس کی آگے کی تعلیم کے لیے بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑیں گی۔ یہ خوف اس کے ذہن پر سوار ہو گیا تھا۔وہ لڑکے جو اس کی تعلیم میں اچھی کارکردگی پر اس سے جلنے لگے تھے، ان کو بھی اس کے اس خوف کا پتہ چل گیا تھا۔سیدھے سادھے نوید کے مقابلے میں وہ لوگ تیز و طرار تھے۔ وہ مختلف طریقوں سے اس کے اس خوف کو مزید بڑھاوا دینے لگے۔

    ان میں سے کوئی نوید سے کہتا۔ ’’نوید۔ دسویں جماعت میں تمہیں بہت محنت کی ضرورت ہے تاکہ تم اول آ کر وظیفہ حاصل کرو۔ وظیفہ مل جائے گا تو تمہارے والد صاحب کو اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ وہ سرکاری محکمے میں مالی ہیں اور ایک مالی کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے۔تمہارے ماں باپ نے تمہارے لیے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ہماری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں، تمہیں اگر وظیفہ مل گیا تو سمجھو تمہارے ماں باپ کی ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور خدا نخواستہ یہ نہ ملا تو ان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔دوسرے لڑکے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور خود بھی اسی طرح کی ایک آدھ بات کردیتے۔یہ باتیں کرتے ہوئے ان کے چہروں پر سنجیدگی ہوتی تھی اور یوں معلوم دیتا تھا کہ جیسے وہ نوید کے بہت ہمدرد ہیں۔

    نوید ان نیک خواہشات کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کرتا اور اس بات پر الله کا شکر ادا کرتا کہ اس کے اتنے اچھے دوست ہیں جو اس کی طرف سے فکر مند رہتے ہیں۔

    مگر ان کی یہ باتیں اس کے خوف کو مزید بڑھا دیتی تھیں کہ اگر وظیفہ نہیں ملا تو کیا ہوگا۔اس خیال کی وجہ سے اس کا ذہن بھی متاثر ہوا تھا۔ پہلے کی طرح اب اس کو سبق بھی یاد نہیں ہوتا تھا۔اس خوف کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسکول میں جب ماہانہ ٹیسٹ ہوئے تو ہر مضمون میں اس کے نمبر انتہائی کم تھے۔ اس کے اساتذہ حیران رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نوید جیسے قابل طالب علم کو کیا ہو گیا ہے۔

    اس کا خراب رزلٹ دیکھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے اپنے آفس میں طلب کیا اور اس سلسلے میں اس سے بات کی۔ انہوں نے کہا” بیٹے۔ ہمیں تو تم سے بہت امیدیں ہو چلی تھیں کہ تم وظیفہ لے کر اسکول کا نام روشن کرو گے۔ یہ کیا ہے؟‘‘۔ انہوں نے ماہانہ رپورٹ کارڈ اس کے سامنے ڈال دیا۔

    ان کی بات سن کر نوید رو پڑا۔”سر میں نے تو بہت کوشش کی تھی کہ میرے اچھے مارکس آئیں۔ مگر پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے‘‘۔

    ہیڈ ماسٹر صاحب کسی سوچ میں گم ہوگئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں اس سے چند سوالات بھی کیے اور پھر کچھ نصیحتیں کرنے کے بعد انہوں نے نوید کو جانے کی اجازت دے دی۔ہیڈ ماسٹر صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ نوید ذہنی دباؤ میں ہے۔اس کے ابّا شام کو اپنے محکمے سے چھٹی کے بعد ان کی کوٹھی میں بھی پودوں کی دیکھ بھال کے لیے آتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے فیصلہ کرلیا کہ وہ آج اس بارے میں اس کے ابّا سے بھی بات کریں گے۔ شام کو انہوں نے اس کے ابّا کو اپنے پاس بٹھایا اور اس کی کمتر کارکردگی کے بارے میں انھیں آگاہ کیا۔

    اس کے ابا نے انھیں صاف صاف بتا دیا کہ نوید اپنی پڑھائی کے سلسلسے میں ہونے والے اخراجات سے فکر مند رہتا ہے۔ اس کے ماں باپ اس کی تعلیم کی وجہ سے جو تکلیفیں جھیل رہے ہیں، ان کا اسے بہت احساس ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اسے وظیفہ مل جائے تاکہ اس کے تعلیمی اخراجات میں کمی آجائے۔اس کے دماغ میں یہ بات بھی ہے کہ اگر وظیفہ نہیں ملا تو کیا ہوگا۔ اسی سوچ کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں آگیا ہے اور یوں اس کی پڑھائی متاثر ہوئی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب یہ سن کر کسی سوچ میں گم ہوگئے۔

    یہ اگلے روز کا ذکر ہے۔ نوید اسکول سے گھر آیا تو گھر میں گھستے ہی اس کی نظر امی پر پڑی۔ اسے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھوں میں تھامی ہوئی کوئی چیز اپنی اوڑھنی میں چھپا لی۔نوید یہ دیکھ کر جلدی سے ان کے قریب آیا۔”امی آپ کے ہاتھوں میں کیا ہے۔آپ کیا چھپا رہی ہیں؟‘‘۔اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    اس کی امی نے کہا۔ ’’کچھ نہیں‘‘۔یہ کہہ کر وہ جلدی سے اندر کمرے میں چلی گئیں۔ نوید نے جھانک کر دیکھا، وہ اپنی اوڑھنی میں سے وہ ہی چیز نکال کر صندوق میں رکھ رہی تھیں۔ باوجود کوشش کے نوید نہیں دیکھ سکا کہ وہ کیا چیز تھی۔ اسے صندوق میں رکھ کر انہوں نے اس میں تالا لگایا اور کمرے سے باہر نکل آئیں۔

    نوید کو اپنی امی سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس سے کچھ چھپائیں گی۔ اس نے خاموشی سے کھانا کھایا اور پھر اسکول کا کام کرنے بیٹھ گیا لیکن اس کا دل اسی چیز میں لگا ہوا تھا جو اس کی امی نے صندوق میں چھپائی تھی۔

    شام کو وہ اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ باورچی خانے میں تھیں۔”امی بتا دیں نا وہ کیا چیز تھی؟‘‘۔ اس نے بڑی خوشامد سے کہا۔

    اس کی امی جھنجلا گئیں۔ ’’توبہ ہے۔ تم تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہو۔ آؤ میں تمہیں وہ چیز دکھا ہی دوں۔ لیکن پہلے یہ وعدہ کرو کہ تم یہ بات اپنے باپ کو نہیں بتاؤ گے “۔

    نوید نے جلدی سے وعدہ کر لیا۔اس کی امی اس کو کمرے میں لائیں، چابی سے صندوق کا تالا کھولا اور اندر سے ایک بڑی سی گولک نکال کر اس کو پکڑا دی۔”لو دیکھ لو۔ اسی کو دیکھنے کے لیے تم اتنے بے چین تھے نا‘‘۔ انہوں نے قدرے خفگی سے کہا۔

    گولک دیکھ کر نوید کو بڑی مایوسی ہوئی، وہ تو سمجھ رہا تھا کہ امی نے جو چیز چھپائی ہے کوئی عجیب و غریب شے ہوگی یہ تو گولک نکلی، مٹی کی، جس پر رنگ برنگے بیل بوٹے بنے ہوےٴ تھے۔ وہ خاموشی سے کمرے سے باہر آگیا۔

    رات کو نوید جلدی سو جاتا تھا ، جلدی سونے کی وجہ سے وہ صبح بڑی آسانی سے خود ہی اٹھ جایا کرتا تھا۔ وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس کی امی کسی کام سے اس کے کمرے میں آئیں۔ انھیں دیکھ کر اسے گولک یاد آگئی، وہ بولا ’’اچھا امی۔ یہ تو بتا دیں کہ آپ اس گولک کو اتنا چھپا کر کیوں رکھ رہی تھیں؟‘‘۔

    اس کی بات سن کر اس کی امی اس کے بستر پر بیٹھ گئیں۔ پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور بولیں۔ ’’بیٹا۔ ہمارے پاس ایک سال کا ٹائم ہے۔ تمہارے ابّا یہ گولک پیسے جمع کرنے کے لیے لے کر آئے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ ایک سال بعد تمہارا سالانہ امتحان ہوگا اور الله کی مہربانی سے تم اس میں کامیاب ہوجاؤ گے۔وہ چاہتے ہیں کہ تمہاری کامیابی پر گاؤں کے رشتے داروں کو بہت بڑی دعوت دیں۔انشا الله تم ہمارے خاندان کے پہلے لڑکے ہوگے جس نے دس جماعتیں پاس کی ہونگی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کوٹھیوں میں کام کرنے سے جو پیسے ملیں گے وہ اس میں جمع کریں گے۔ میں بھی سلائی کڑھائی کا کام شروع کرنے والی ہوں۔ سال کے بعد ہمارے پاس بہت بڑی رقم جمع ہو جائے گی اور تمہارے پاس ہونے پر ہم بڑی آسانی سے دعوت کا انتظام کر لیں گے، پورے خاندان میں ہماری واہ واہ ہو جائے گی۔ میں ایک بار پھر تم سے کہہ رہی ہوں کہ اپنے باپ کو یہ باتیں نہیں بتانا۔ وہ مجھ پر ناراض ہوں گے‘‘۔

    یہ کہہ کر اس کی امی تو کمرے سے چلی گئیں مگر نوید کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ اس کی امی اور ابّا کو اس پر کتنا اعتماد تھا، انھیں اس بات کا پکّا یقین تھا کہ وہ امتحان میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ اس کو نیند تو آئ مگر بہت دیر سے۔ وظیفہ حاصل کرنے کا خوف اس کے دل سے دور ہوچکا تھا، اس کی جگہ اب ایک دوسرے خیال نے لے لی تھی اور وہ خیال یہ تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، اسے ہر قیمت پر اپنی امی ابّا کی امیدوں پر پورا اترنا ہے اور امتحان میں پاس ہو کر دکھانا ہے۔

    وظیفے کے ملنے اور نہ ملنے کے خوف سے نجات ملی تو نوید کے ذہن نے پھر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ پھر پہلے جیسا نوید بن گیا تھا۔اس کے استاد جو کچھ بھی پڑھاتے تھے، اس کو فوراً یاد ہوجاتا تھا۔ماہانہ ٹیسٹوں میں بھی اس کے سب سے زیادہ مارکس آنے لگے تھے۔اس کی یہ کارکردگی دیکھ کر اس سے حسد کرنے والے لڑکے بھی حیران رہ گئے۔

    آخر سالانہ امتحانات کا وقت بھی آ گیا۔اس کے تمام پرچے بہت اچھے ہوئے تھے۔رزلٹ آیا تو وہ صوبے بھر میں اول آیا تھا۔اس خوشی میں اس کے ابّا بہت سی مٹھائی محلے میں تقسیم کرنے کے لیے لائے

    شام کو مٹھائی کا ایک ڈبہ لے کر اس کے ابّا نے نوید کو ساتھ لیا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ نوید کی کامیابی کا سن کر ہیڈ ماسٹر صاحب بھی بہت خوش تھے۔ انہوں نے ایک ہزار روپے نوید کو انعام میں دیے اور ان کی بیٹی نے اپنے موبائل سے نوید کی، اس کے ابّا کی اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی تصویریں بھی بنائیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے بچے بھی نوید سے گھل مل گئے تھے۔

    جب سب بچے دور بیٹھے ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول تھے تو نوید کے ابّا نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہا۔ ’’جناب میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔آپ کی گولک والی ترکیب نے نوید کو بالکل تبدیل کر دیا تھا‘‘۔

    ہیڈ ماسٹر صاحب مسکرا کر بولے۔ ’’مجید صاحب۔ میں نے نفسیات پڑھ رکھی ہے اور اس میں ماسٹر کیا ہے۔ اگر ہم کسی کو یہ یقین دلا دیں کہ ہمیں اس پر کتنا اعتماد ہے تو وہ ضرور ہمارے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ ہی نوید نے کیا۔ پہلے اس کے ذہن میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ اگر وظیفہ نہیں ملا تو کیا ہوگا، مگر جب اسے پتا چلا کہ اس کے امی ابّا چپکے چپکے اس دعوت کی تیاری کر رہے ہیں جو وہ اس کے پاس ہونے پر خاندان والوں کو دیں گے تو وظیفے کا خیال اس کے ذہن سے نکل گیا۔ اب اس کے دل میں عزم پیدا ہوگیا کہ وہ کامیابی حاصل کر کے اپنے والدین کی توقع پر پورا اترے گا، وظیفہ نہ بھی ملے تو کوئی بات نہیں۔اس کے لیے اس نے بہت لگن سے خوب تیاری کی اور کامیاب ہوگیا‘‘۔

    ہیڈ ماسٹر صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوےٴ اور پھر بولے۔”ہمارے بچے بہت اچھے اور ہونہار ہیں۔ہمیں ان کو یقین دلاتے رہنا چاہیے کہ وہ بہت ذہین ہیں اور ہم ان پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ اس یقین سے بچوں میں خود اعتمادی بھی آتی ہے اور کچھ اچھا کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔

    نوید کے ابّا نے سر ہلا کر ان کی بات کی تائید کی۔ پھر تھوڑی دیر بعد نوید اور اس کے ابّا ہیڈ ماسٹر صاحب سے اجازت لے کر خوش خوش اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے