Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گمشدہ انگوٹھی

مختار احمد

گمشدہ انگوٹھی

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    ایک روز جب ملکہ نیلوفر کی ماں اس سے ملنے آئی تو یہ دیکھ کر اس کو بہت حیرت ہوئی کہ اس کی بیٹی پھول کر کپا ہوتی جا رہی ہے۔ اتنی موٹی بیٹی کو دیکھ کر اس نے حیرت سے کہا۔ ’’بیٹی تمہیں یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟‘‘

    ’’امی حضور ہم ٹھیک تو ہیں۔ آپ نے ہمیں بہت دنوں بعد دیکھا ہے اس لیے شائد ایسا کہہ رہی ہیں۔ بس تھوڑی سی کمزوری ہو گئی ہے، کھانے پینے کی طرف اور دھیان دیں گے تو ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

    ’’بہت دنوں بعد دیکھنے کی بات نہیں ہے‘‘۔ ملکہ کی ماں نے فکر مندی سے کہا ’’تم بہت موٹی ہوگئی ہو اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔‘‘

    ’’اس میں کیا بری بات ہے‘‘ ملکہ نے لاپرواہی سے کہا۔ ’’دنیا میں تو مجھ سے بھی زیادہ زیادہ موٹے لوگ پڑے ہیں۔ ہمارے وزیر خوراک تو اتنے موٹے ہیں کہ اس دن فرش پر گر پڑے تھے تو خود سے اٹھا بھی نہیں گیا۔ محافظوں نے اٹھاکر کھڑا کیا تھا۔‘‘

    ’’تمہیں ان لوگوں سے کیا مطلب؟ تم ایک ملکہ ہو۔ میں تو کہتی ہوں کہ سنجیدگی سے اس طرف دھیان دو۔ موٹا ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ پورے جسم میں چربی بڑھ جاتی ہے جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ اپنا نہیں تو اپنے دونوں شہزادوں کا ہی خیال کرو۔ کیا تم چاہتی ہو کہ وہ سوتیلی ماں کے سائے میں پرورش پائیں۔ یاد رکھو میری بات نہیں مانوگی تو پچھتاؤگی۔ ان بادشاہوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ دوسری شادی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ پھر بیٹھی رہنا آرام سے ایک کونے میں۔‘‘

    ملکہ اپنی ماں کی بات کا جواب دینے ہی والی تھی کہ بادشاہ اندر داخل ہوا۔ ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کر اس نے کہا ’’ہم معافی چاہتے ہیں کہ آپ کی باتوں میں مخل ہوئے۔‘‘ پھر وہ ملکہ سے مخاطب ہوا ’’پرسوں پڑوس کے بادشاہ ہمارے ملک میں تشریف لا رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ آپ کو بتا دیں تاکہ آپ تیار رہیں۔‘‘

    ’’پڑوس میں تو کئی ملک ہیں۔ آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ ملکہ نے پوچھا۔

    ’’وہ ہی ہمارے دوست بادشاہ جن کی ملکہ دبلی پتلی سی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ تو چلا گیا اور ملکہ کی ماں معنی خیز نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

    ملکہ کے بھی کان کھڑے ہو گئے تھے۔ ماں سے بولی۔ ’’بادشاہ سلامت اپنے دوست کا نام بھی لے سکتے تھے۔ انہوں نے دبلی پتلی والی نشانی کیوں بتائی‘‘

    ’’بیٹی میں ان مردوں کو خوب جانتی ہوں۔ ہر بات گھما پھرا کر کرتے ہیں۔‘‘ اس کی ماں نے جواب دیا۔ ملکہ سوچ میں پڑ گئی اور کچھ دیر بعد بولی۔ ’’امی حضور آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں غلطی پر تھی۔ اب میں اپنا خیال رکھوں گی اور پھر پہلے والی نیلوفر بن جاؤں گی۔ بادشاہ سلامت کے ارادے ٹھیک نظر نہیں آتے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی دو ملکائیں ہو جائیں، ایک موٹی اور ایک دبلی۔ مجھے یاد پڑ رہا ہے کہ چند دنوں پہلے جب میں ان کے پاس بیٹھی تھی اور قصہ گو انھیں کہانی سنانے آیا تو اس سے کہہ رہے تھے کہ بارہ من کی دھوبن والی کہانی سناؤ۔ میری کسی بات سے ناراض ہو گئے تھے تو بولے ملکہ تم سے بات کرنا بس ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں وہ بھی میرے موٹاپے سے خوش نہیں ہیں مگر ڈر کے مارے کچھ نہیں کہتے، البتہ گھما پھرا کے اشاروں اشاروں میں مجھے احساس دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘

    بیٹی کو قائل ہوتا دیکھ تو ملکہ کی ماں خوش ہو گئی۔ اپنی انگوٹھی اتار کر اس کو دی اور بولی۔ ’’اس انگوٹھی کو پہن لو۔ اس وقت تو یہ تمہاری انگلی میں مشکل سے ہی آئےگی، وجہ تم جانتی ہی ہو۔ مگر جیسے جیسے تم دبلی ہوتی جاؤگی یہ تمہاری نگلی میں ڈھیلی پڑتی جائےگی۔ بس تم سمجھ لینا کہ اب تم پھرسے پہلے والی نیلوفر بن گئی ہو۔ مگر بیٹی یاد رکھنا یہ انگوٹھی تمہارے ابا حضور نے ہمیں شادی کے موقع پر دی تھی۔ اس کو اپنی جان سے زیادہ سنبھال کر رکھنا۔ میں پھر کبھی آؤں گی تو واپس لے لوں گی۔‘‘

    ملکہ نیلوفر نے ماں سے انگوٹھی لے لی اور بڑی مشکلوں سے اسے ایک انگلی میں پہن لیا۔ انسان کوشش کرے تو ہر چیز ممکن ہے۔ ملکہ نیلوفر نے دبلا ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس نے پہلے کی طرح کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ پہلے اس کا دھیان ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی طرف لگا رہتا تھا اور وہ صبح، دوپہر اور رات کا انتظار صرف اس لیے کرتی تھی کہ خوب مزے سے طرح طرح کے کھانے کھائےگی۔ اب اس نے اپنی زیادہ کھانے والی عادت پر قابو پا لیا تھا۔ سب دسترخوان پر بیٹھتے تو مزے مزے کے کھانے کھا رہے ہوتے مگر ملکہ نیلوفر کچی سبزیاں اور پھل کھاتی۔

    شاہی طبیبہ بھی اس کے رابطے میں تھی۔ اس نے ملکہ کو پیدل چلنے کا مشور بھی دیا تھا اور دوسری مفید باتیں بھی بتائی تھیں۔ ملکہ روز محل کی چھت پر جاکر چہل قدمی کرتی۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ بادشاہ بھی چلا جاتا تھا۔ جس روز اس کے ساتھ بادشاہ نہ ہوتا تو وہ دوڑ بھی لگا لیتی تھی۔ بادشاہ کے سامنے دوڑنے سے اسے شرم آتی تھی کیونکہ اسے دوڑتا دیکھ کر وہ مذاق مذاق میں ضرور اس گائے کی مثال دیتا جو رسی تڑا کر بھاگ گئی تھی۔

    ملکہ کی کوششیں رنگ لا رہی تھیں اور وہ تیزی سے اپنی پہلی والی حالت کی طرف آنے لگی تھی، اتنی دبلی پتلی کہ اگر ناک پکڑ لو تو دم نکل جائے۔ ایک دن تو چھوٹے شہزادے نے بھی اپنے دل کی بات اس سے کہہ دی ’’امی حضور۔ اب تو ہمیں آپ سے ڈر بھی نہیں لگتا۔ آپ جب موٹی تھیں تب بہت ڈر لگتا تھا۔‘‘

    بادشاہ بھی اس تبدیلی سے خوش تھا۔ ایک روز بڑے پیار سے بولا: ’’ملکہ آپ شائد ہماری بات کا برا مان گئی تھیں۔‘‘

    ملکہ کو یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ بادشاہ کا اشارہ کس بات کی طرف ہے۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یاد نہیں ایک روز ہم نے اپنے دوست بادشاہ کی دبلی پتلی ملکہ کا حوالہ دیا تھا۔‘‘

    ملکہ نے کہا ’’آپ کی بات کا ہم نے برا نہیں منایا تھا۔ دبلا ہونے کا مشورہ تو ہمیں ہماری امی حضور نے دیا تھا۔‘‘

    بادشاہ سر ہلا کر خاموش ہو گیا۔ ایک روز بادشاہ، ملکہ اور دونوں شہزادے سیروتفریح کے لیے دریا کے کنارے پہنچے۔ وہاں وہ دیر تک گھومتے پھرتے رہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد جب ملکہ دریا کے پانی سے ہاتھ دھو رہی تھی تو انگوٹھی اس کی انگلی سے نکل کر دریا میں جا گری۔ ملکہ کو خیال ہی نہیں رہا تھا کہ اب اس کی انگلیاں پتلی پتلی ہو گئی ہیں پہلے جیسے نہیں رہیں۔

    انگوٹھی دریا میں گری تو ملکہ کو یوں لگا جیسے اس کی جان نکل گئی ہو۔ اس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی جسے اور کسی نے تو نہیں مگر بادشاہ نے سن لیا تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ملکہ کے پاس آیا اور اس کے چیخنے کا سبب معلوم کیا۔

    ملکہ روہانسی ہو گئی تھی، آنکھوں میں آنسو بھرکر بولی ’’ابا حضور نے امی حضور کو جو شادی والے روز دی تھی وہ دریا میں گر گئی ہے۔‘‘

    بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ سر کھجا کر بولا ’’ہائیں۔ آپ کی امی حضور دریا میں گر گئی ہیں، مگر وہ تو ہمارے ساتھ آئی ہی نہیں تھیں پھر کیسے گر پڑیں۔‘‘

    ’’آپ سمجھے نہیں۔ امی نے ہمیں جو انگوٹھی دی تھی ہم اس کی بات کر رہے ہیں۔ وہ ہماری انگلی سے پھسل کر دریا میں گر پڑی ہے۔‘‘ ملکہ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اور دوبارہ رونے والا منہ بنانے لگی۔ ملکہ کی ماں بادشاہ کی ساس تھی۔ انگوٹھی کے کھو جانے سے وہ غصہ کرتی۔ بادشاہ ساس کے غصے سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ ملکہ کی بات سن کر فکر مند ہو گیا۔

    قریب ہی مچھیروں کا ایک گاؤں تھا۔ بادشاہ نے اپنے ساتھ آئے ہوئے کچھ سپاہیوں کو وہاں بھیجا تاکہ وہ کسی ماہر غوطہ خور کو لائیں اور وہ انگوٹھی کو تلاش کرے۔ تھوڑی دیر میں بہت سے ماہی گیر وہاں آموجود ہوئے۔ معاملہ شاہی خاندان کا تھا اس لیے سب کو یہ لالچ تھا کہ اگر انگوٹھی مل گئی تو بادشاہ اتنا انعام دےگا کہ سارے دلددر دور ہو جائیں گے۔ بادشاہ نے ملکہ کو دور ایک درخت کے نیچے بیٹھا دیا تاکہ جب تک انگوٹھی نہ ملے وہ وہاں بیٹھ کر روتی رہے۔

    دونوں شہزادے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر حیرت اور دلچسپی سے غوطہ خوروں کو دیکھنے لگے۔ غوطہ خور ایک کے بعد ایک دریا میں کودتے رہے۔ جب کافی دیر بعد وہ پانی میں سے نکلے تو سب کے چہروں پر ناکامی کے اثرات تھے۔ انگوٹھی نہیں ملی تھی۔

    ان غوطہ خوروں میں حارث نام کا ایک سولہ سال کا لڑکا بھی تھی۔ وہ بچپن سے ہی مچھلیاں پکڑتا چلا آیا تھا اور بچپن سے اب تک اس کا سارا وقت دریا کے کنارے یا دریا کے اندر رہ کر گزرا تھا۔ اسے انعام کا لالچ نہیں تھا۔ وہ اپنے بادشاہ کو پسند کرتا تھا اس لیے اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دریا کی تہہ اچھی طرح کھنگالی تھی، مگر دوسروں کی طرح اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کو اس بات کا بہت افسوس تھا کہ وہ بادشاہ کے کسی کام نہ آ سکا۔

    کچھ دیر بعد شام ہو گئی اس لیے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے محل کی طرف روانگی ہو جائے تو بہتر ہے۔ ان کی روانگی کے بعد وہ سب بھی جو انگوٹھی کی تلاش میں آئے تھے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ حارث بھی گھر چلا گیا۔ ماں کے پوچھنے پر اس نے افسردگی سے ماں کو بتا یا کہ ملکہ کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس کی ماں بھی افسوس کر کے خاموش ہو گئی۔

    اگلے روز حارث اپنا جال لے کر دریا پر پہنچا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ انگوٹھی کسی مچھلی نے نگل لی ہوگی اور ہو سکتا ہے وہ مچھلی اس کے جال میں پھنس جائے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ آج جتنی بھی مچھلیاں پکڑےگا ان کو فروخت کرنے کے لیے بازار لے کر نہیں جائےگا۔ ان مچھلیوں کو وہ گھر میں بیٹھ کر کاٹےگا، اگر کسی مچھلی کے پیٹ میں وہ انگوٹھی موجود ہوئی تو بس سمجھو مزے آ جائیں گے۔

    اتفاق کی بات صبح سے دوپہر ہو گئی۔ اس کے جال میں ایک مچھلی بھی نہیں آئی۔ اس کو مایوسی تو بہت ہوئی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ ماں نے اس کو دوپہر کے لیے کھانا دیا تھا، اس نے وہ کھایا۔ تھوڑی دیر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کیا اس کے بعد اللہ کا نام لے کر جال کو پھر دریا میں پھینک دیا۔ جال کو باہر نکالا تو اس میں کوئی مچھلی نہیں تھی۔ شام تک یہ ہی ہوتا رہا، وہ جال پھینک کر اس کو نکالتا تو وہ خالی ہی ہوتا تھا۔ سورج ڈوبنے لگا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ غروب ہو جاتا اور اندھیرا پھیل جاتا۔ اس نے دل میں سوچا کہ بس اب وہ آخری مرتبہ جال پھینکےگا، کوئی مچھلی آئے یا نہ آئے اس کے بعد وہ گھر روانہ ہو جائےگا۔

    اس نے دریا میں جال پھینک کر تھوڑی دیر بعد اسے نکالا اور یہ دیکھ کر اسے بے انتہا خوشی ہوئی کہ دو چھوٹی چھوٹی مچھلیاں جال میں تڑپ رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس کو حیرت بھی ہوئی کہ ان میں سے ایک مچھلی سرخ رنگ کی تھی اور دوسری سبز۔ حارث نے اپنی پوری زندگی میں ایسی عجیب وغریب مچھلیاں نہیں دیکھی تھیں۔ اس نے مچھلیاں نکال کر اپنے ساتھ لائے ہوئے پانی کے لکڑی کے ڈول میں ڈالیں اور جال سمیٹنے لگا۔ اتنے میں اس کے کانوں میں کسی کی آواز آئی۔ ’’مچھیرے مچھیرے ہم پر ظلم نہ کرو۔ ہمیں آزاد کر دو۔‘‘

    حارث نے چونک کر ڈول کی طرف دیکھا، سرخ رنگ کی مچھلی پانی سے سر نکال کر اسے دیکھ رہی تھی۔ مچھلی کو باتیں کرتا دیکھ کر حارث حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے جال ایک طرف پھینکا اور زمین پر بیٹھ کر بولا: ’’پھر سے کہنا کیا کہہ رہی تھیں تم؟‘‘

    سرخ مچھلی نے پھر وہ ہی کہا جو وہ پہلے کہہ چکی تھی۔ حارث سوچ میں پڑ گیا۔ وہ مچھلی پھر بولی: ’’ہم سات رنگوں کی سات بہنیں ہیں، سرخ، نارنجی، پیلی، سبز، نیلی، جامنی اور گہرے نیلے رنگ کی۔ جب ہماری دوسرے رنگوں کی بہنیں ہم دونوں کو نہیں پائیں گی تو رو رو کر ہلکان ہو جائیں گی۔ ہماری نیلی بہن تو بات بات پر رونے لگتی ہے۔ ہم پر رحم کرو۔‘‘

    حارث نیک دل لڑکا تھا، بولا ’’تمہاری درخواست میں ضرور مانوں گا۔ میں تمہیں آزاد کر دوں گا، مگر تمہاری اس سبز رنگ کی بہن کو چھوڑنے کے لیے میری ایک شرط ہے، اگر تم وہ پوری کر دو گی تو میں اسے بھی چھوڑ دونگا۔‘‘

    ’’تم دولت چاہتے ہو۔ ہم ساتوں بہنیں دن بھر دریا میں گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔ ہم نے بہت سے قیمتی موتی جمع کر رکھے ہیں۔ وہ موتی اگر میں تمہارے حوالے کر دوں تو کیا تم میری سبز بہن کو چھوڑ دوگے؟۔‘‘ مچھلی نے پوچھا۔

    ’’ہرگز نہیں۔ مجھے دولت وغیرہ اور قیمتی موتیوں کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تم مجھے ملکہ کی انگوٹھی دریا میں سے ڈھونڈ کر لا دو۔ اب تو رات ہو گئی ہے۔ میں گھر چلتا ہوں۔ صبح پھر آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر حارث نے سرخ مچھلی کو ڈول میں سے نکال کر دریا میں چھوڑ دیا اور بولا “تم نے میری بات سن لی ہے نا، میں کل پھر آوں گا۔ تمہاری بہن کو میں اپنے ساتھ لئیے جا رہا ہوں۔ تم مجھے انگوٹھی لا کر دے دوگی تو میں اس کو بھی آزاد کر دوں گا۔

    ’’اس کا دھیان رکھنا۔ یہ باریک پسے ہوئے چاول شوق سے کھاتی ہے۔ میں کل صبح اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ انگوٹھی کی تلاش شروع کر دوں گی۔‘‘ سرخ مچھلی نے کہا۔

    حارث گھر آ گیا۔ ڈول کو اس نے احتیاط سے گھر کے اندر رکھ دیا اور تھوڑے سے چاول پیس کر ڈول کے پانی میں ڈال دئیے تاکہ مچھلی ان کو کھا لے۔اگلے روز وہ صبح ہی صبح اٹھ گیا۔ دریا پر پہنچا تو سرخ مچھلی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے پیچھے اس کی پانچوں رنگ برنگی بہنیں جھانک جھانک کر حارث کو دیکھ رہی تھیں۔ سرخ مچھلی نے اپنے منہ میں ملکہ کی انگوٹھی بھی دبا رکھی تھی۔ انگوٹھی دیکھ کر حارث خوش ہو گیا۔ اس نے انگوٹھی مچھلی کے منہ سے نکال لی اور سبز مچھلی کو پانی میں چھوڑ دیا۔ ان کی دوسری بہنیں خوشی سے ناچنے لگیں۔ حارث ان کے لیے بہت سے پسے ہوئے چاول بھی لایا تھا، وہ چاول اس نے پانی میں ڈال دئیے۔ مچھلیاں خوش ہو کر ان کو کھانے لگیں اور پھر وارث وہاں سے محل کی طرف چلدیا۔ ملکہ کی انگوٹھی کو اس نے احتیاط سے اپنے کپڑوں میں چھپا لیا تھا۔

    بادشاہ کے محل کے دروازے پر دربان کھڑے تھے۔ حارث نے کہا ’’میں بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کے پاس لے چلو۔‘‘

    اس کی بات سن کر پہلے تو دربان قہقہے لگاکر ہنستے رہے پھر ایک نے آگے بڑھ کر اس کا کان پکڑ لیا اور اسے مروڑتے ہوئے بولا ’’تجھے بادشاہ سے کیا کام ہے؟ ان سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔‘‘

    حارث کے کان میں درد ہونے لگا تھا۔ وہ بولا ’’میں نے کیا کیا ہے جو تم میرا کان مروڑ رہے ہو۔ میں بادشاہ سلامت سے کیوں ملنا چاہتا ہوں، ان ہی کو بتاؤں گا تمہیں نہیں۔۔‘‘

    دربان نے اس کی بات کو اپنی بےعزتی تصور کیا۔ اس نے حارث کو ایک دھکا دیا اور بولا ’’چل بھاگ۔ بڑا آیا۔‘‘

    حارث گرتے گرتے بچا تھا، اس نے کہا ’’تم لوگ پچھتاؤگے۔‘‘

    دربانوں نے اس کی ایک نہیں سنی اور اسے بھگا دیا۔ قریب سے شاہی مالی گزر رہا تھا۔ حارث نے کہا ’’دیکھو یہ دربان میرے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔‘‘

    مالی نے کہا: ’’یہ ہی کیا ساری دنیا ہی ایسی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ حارث بھی نا امید ہو کر وہاں سے چلا آیا۔ دربانوں کے اس رویے سے اس کا دل اداس ہو گیا تھا۔ ابھی وہ اپنے گھر کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اسے ایک قافلہ آتا نظر آیا۔ قافلے کو دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ جمع تھے۔ اس کے پوچھنے پر ایک شخص نے بتایا کہ یہ قافلہ ملکہ صاحبہ کی ماں کا ہے۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنے آ رہی ہیں۔ یہ سن کر حارث خوش ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس انگوٹھی کو ملکہ کی ماں کو دے دےگا۔ وہ اسے بحفاظت ملکہ صاحبہ تک پہنچا دیں گی۔

    اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سی ڈولی ہے، اس کو چار کہاروں نے اٹھا رکھا ہے اور ڈولی کے چاروں طرف گھوڑے پر سوار سپاہی ہیں۔ حارث سمجھ گیا کہ ملکہ کی ماں اسی ڈولی میں ہو گی۔ وہ ڈولی کے قریب گیا اور چلاکر بولا: ’’ملکہ صاحبہ کی امی۔ ملکہ صاحبہ کی امی۔‘‘

    ڈولی کا پردہ ہٹا اور ملکہ کی ماں نے باہر جھانکا۔ حارث اس کے قریب گیا اور انگوٹھی نکال کر اسے دیتے ہوئے بولا ’’آپ محل جا رہیں ہیں۔ یہ انگوٹھی ملکہ صاحبہ کے حوالے کر دیجئے گا۔‘‘

    انگوٹھی دیکھ کر ملکہ کی ماں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ’’ارے یہ تو میری شادی والی انگوٹھی ہے۔ میں اسی کو تو لینے آئی ہوں، لڑکے تمہیں یہ کہاں سے ملی؟‘‘

    حارث نے انھیں ساری داستان سنا دی۔ انہوں نے حارث کو بہت شاباش دی اور اپنا چمڑے کا تھیلا کھول کر مٹھی بھر کر سونے کی اشرفیاں اسے انعام کے طور پر دے کر بولیں “انہیں سنبھال کر رکھو۔ گھر جا کر اپنی ماں کو دے دینا۔‘‘

    پھر اس نے حارث کو بھی اپنے ساتھ بٹھایا اور اس کو محل میں لے آئیں۔ جب وہ لوگ محل کے صدر دروازے پر پہنچے تو حارث نے ڈولی کا پردہ ہٹا کر دربانوں سے کہا “تمہاری شکایت میں بادشاہ سلامت سے کروں گا۔‘‘

    دونوں دربانوں نے جب حارث کو ملکہ کی ماں کے ساتھ دیکھا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ جب وہ لوگ محل میں پہنچے تو اپنی ماں کو دیکھ کر ملکہ نیلوفر کے چہرے کا رنگ اڑگیا۔ وہ پریشان ہو گئی کہ اب انگوٹھی کے بارے میں کیا جواب دے گی۔ ملکہ کو اس کی شکل دیکھ کر ترس آ گیا۔ اس نے محبّت سے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی۔ ’’بیٹی پریشان مت ہو۔ انگوٹھی کو یہ لڑکا ڈھونڈ کر لے آیا ہے۔‘‘

    ملکہ کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اتنی دیر میں بادشاہ بھی وہاں آ گیا۔ اس کے کہنے پر حارث نے پوری کہانی سب کو سنائی۔ اس عجیب وغریب کہانی کو سن کر سب حیرت زدہ رہ گئے۔ بادشاہ نے حارث کی بہت تعریف کی اور کہا: ’’یہ لڑکا بہت ایماندار ہے۔ یہ اگر چاہتا تو اس قیمتی انگوٹھی کو بیچ کر ہزاروں اشرفیاں حاصل کر سکتا تھا۔ ہمیں اس بات پر بھی بہت خوشی ہے کہ گمشدہ انگوٹھی پاکر ہماری دبلی پتلی پیاری ملکہ پھر سے مسکرانے لگی ہیں۔‘‘

    اس کے بعد بادشاہ نے حارث کو بہت سی اشرفیاں انعام میں دیں اور شاہی بگھی میں بٹھاکر اس کے گھر بھیج دیا۔ حارث ایک نیک لڑکا تھا۔ اس نے بادشاہ سے دربانوں کے برے سلوک کا ذکر نہیں کیا تھا ورنہ انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھو نے پڑ جاتے۔ حارث کی ماں ایک غریب عورت تھی۔ اس نے ملکہ کی ماں اور بادشاہ کی دی ہوئی اتنی بہت سی اشرفیاں دیکھیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ تھوڑے دنوں کے بعد حارث نے کچھ اشرفیاں بیچ کر ایک اچھا سا گھر بنوا لیا اور کپڑے کا کاروبار کرنے لگا۔ اس کو جب بھی فرصت ملتی تھی، وہ تھوڑے سے پسے ہوئے چاول لے کر دریا پر پہنچ جاتا اور منہ سے سیٹی بجاتا۔ ساتوں کی ساتوں مچھلی بہنیں اس کی سیٹی کی آواز سن کر دریا کے کنارے پر آجاتیں اور مزے سے اپنی پسند کے چاول کھاتیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے