گمشدہ گھڑی
سلیم نے پانچویں جماعت پاس کی تو اس خوشی میں اس کی امی نے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں زیادہ لوگوں کو تو نہیں بلایا گیا تھا، صرف بہت ہی قریبی رشتے داروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سلیم کی امی خیال تھا کہ اس تقریب کی وجہ سے سلیم کی حوصلہ افزائی بھی ہو جائے گی اور وہ خوش بھی ہوجائے گا۔
مہمانوں میں اس کی خالہ خالو ، ممانی ماموں اور ان کے بچے، اس کی نانی، دادی اور ایک چچا شامل تھے۔ خالہ، ممانی اور ماموں نے اسے تحفے بھی دیے تھے۔ ان تحفوں میں کپڑے تھے، کہانیوں کی کتابیں تھیں اور ہاتھ پر باندھنے والی ایک گھڑی تھی۔ یہ گھڑی اس کے چچا نے دی تھی اور نہایت خوبصورت اور قیمتی تھی۔ یہ گھڑی ایک چھوٹی سی سرخ مخمل کی ڈبیہ میں رکھی ہوئی تھی۔
سلیم کو یہ گھڑی بہت پسند آئ۔ اس نے اپنے چچا سے کہا کہ وہ اس گھڑی کو ابھی نہیں پہنے گا، جب چھٹیوں کے بعد اسکول کھلیں گے تو وہ اسے ہاتھ پر باندھ کر جائے گا اور اپنے سب دوستوں کودکھائے گا۔ وہ اس خوبصورت ڈبیہ کو ہاتھ میں لیے لیے پھر رہا تھا اور ہر ایک کو دکھا رہا تھا۔ اس کے چچا بہت خوش تھے کیونکہ ان کا دیا ہوا تحفہ سلیم کو بے حد پسند آیا تھا۔
اس تقریب میں بہت مزہ آیا تھا۔ بس تھوڑی سی بدمزگی اس وقت ہوگئی تھی جب خالہ کی سب سے چھوٹی بیٹی جس کی عمر تین چار سال تھی، اس نے سلیم کے صاف ستھرے کرتے پر سالن کے داغ لگادیے تھے۔ یہ اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا، اس کے دونوں ہاتھ سالن کے ہورہے تھے، وہ کرسی سے اترنے کی کوشش کر رہی تھی کہ توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ اسے گرنے سے بچانے کے لیے سلیم جلدی سے آگے بڑھا تو اس نے سلیم کو پکڑ لیا اور اس کے دونوں ہاتھوں پر لگا سالن سلیم کے کرتے پر بھی لگ گیا۔ اگر سلیم لپک کر اسے تھام نہ لیتا تو وہ کرسی پر سے گرجاتی اور اسے چوٹ لگ جاتی۔ کرتے پر لگے داغ دیکھ کر سلیم ذرا بھی پریشان نہیں ہوا بلکہ اپنی امی کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ’’اس طرح کے کاموں سے کپڑوں پر داغ لگ جائیں تو وہ اچھے ہوتے ہیں۔‘‘
اس کی امی مسکرا کر بولیں۔ ’’چلو تم نے ٹی وی سے کوئی اچھی بات تو سیکھی۔‘‘ پھر انہوں نے جلدی سے سلیم کو دوسرے کپڑے نکال کر دئیے تاکہ وہ انھیں پہن لے۔
رات کو سلیم سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو اس نے خالہ کی دی ہوئی کتابوں کا پیکٹ کھولا۔ اس میں سے بہت اچھی اچھی کہانیوں کی کتابیں نکلیں۔ کتابوں کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ اسے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کہانیوں سے اسے طرح طرح کی معلومات بھی ملتی تھیں اور سبق بھی۔ اس نے ایک کتاب کھولی۔ بہت دلچسپ کہانی تھی، وہ پڑھتے پڑھتے سو گیا۔
چند دنوں بعد اس کے اسکول کھل گئے۔ اس روز وہ صبح ہی صبح بیدار ہوگیا۔ نئی جماعت میں جانے کی اپنی ہی ایک خوشی ہوتی ہے۔ بستہ، کتابیں، یونیفارم اور جوتے سب کچھ ہی نیا ہوتا ہے۔ اس کی امی نے اس کی تمام چیزیں تیار کر کے رکھ دی تھیں۔ اس نے نہا دھو کر یونیفارم پہنی اور ناشتے کی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔
اس کے ابو اسے دیکھ کر مسکرائے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے۔ ’’ماشااللہ۔ ہمارا سلیم چھٹی کلاس میں پہنچ گیا ہے۔ شاباش بیٹا یوں ہی دل لگا کر پڑھتے رہو۔ ہم بھی جب نئی کلاس میں جاتے تھے تو ہمیں بھی اتنی ہی خوشی ہوتی تھی جتنی کہ اس وقت تم محسوس کر رہے ہو۔ ‘‘
ان کی بات سن کر سلیم مسکرانے لگا اور بولا۔ ’’اس نئی جماعت میں میرے سارے پرانے دوست ہونگے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری کلاس کے سارے بچے پاس ہوگئے ہیں۔ لیکن ہماری مس دوسری ہونگی۔ پہلے والی مس اسی کلاس کو پڑھائیں گی۔ ‘‘
’’بھئی ہم تو یہ دعا کر رہے ہیں کہ یہ نئی مس غصے والی نہ ہوں۔‘‘ اس کے ابو نے انڈے کی پلیٹ اس کی طرف کھسکاتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔
’’ہمارے اسکول کی کوئی بھی مس غصہ نہیں کرتی ہیں۔‘‘ سلیم نے بتایا ۔ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے دل لگا کر پڑھتے ہیں اور کوئی بدتمیزی بھی نہیں کرتے۔ تمام بچے ان کا کہا مانتے ہیں۔ ‘‘
’’یہ بات تو بہت اچھی ہے۔ ایسے ماحول میں پڑھائی بھی اچھی ہوتی ہے اور اسکول میں دل بھی لگا رہتا ہے۔‘‘ اس کے ابو خوش ہو کر بولے۔
اچانک سلیم کو کچھ یاد آگیا۔ ’’میں نے گھڑی تو باندھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور ناشتہ چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پریشان شکل بنا کر امی کے پاس پہنچا۔
’’امی میری گھڑی نہیں مل رہی جو مجھے اس روز چچا جان نے دی تھی۔‘‘ اس نے نہایت مایوسی سے کہا۔ ’’میں نے ہر جگہ دیکھ لی ہے۔‘‘
’’اس روز تم نے اسے کہاں رکھا تھا؟۔‘‘ اس کی امی نے سوال کیا۔
’’اس روز........ ۔‘‘ سلیم نے یاد کرنے کی کوشش کی مگر اسے کچھ یاد نہ آسکا۔ اس نے بے بسی سے نفی میں سر ہلا دیا اور امی کو دیکھنے لگا۔
’’میں دیکھتی ہوں۔ تم جلدی سے ناشتہ کر لو۔ ایسا نہ ہو کہ اسکول کی گاڑی آجائے۔ ‘‘
امی کی بات سن کر سلیم دوبارہ ناشتے کی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا مگر اس کا دھیان ناشتے کی طرف نہیں تھا، وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے گھڑی کہاں رکھی تھی مگر اسے یاد نہیں آ سکا۔
اس کے ابو ناشتے سے فارغ ہو گئے تھے۔ امی انھیں رخصت کرنے دروازے تک گئیں تو سلیم انتظار کرنے لگا کہ وہ جلدی سے ابو کو خدا حافظ کہہ کر آئیں اور گھڑی ڈھونڈ کر دے دیں تاکہ وہ اسے پہن کر اسکول جائے اور اپنے دوستوں کو بتائے کہ یہ گھڑی اسے چچا جان نے تحفے میں دی ہے۔
اس کی امی ابو کو خدا حافظ کہہ کر لوٹیں تو سلیم کو اپنی طرف دیکھتے پا کر انھیں یاد آگیا کہ اس کی گھڑی تلاش کرنا ہے۔ وہ جلدی سے اس کے کمرے کی طرف بڑھیں لیکن اتنے میں باہر سے اسکول کی وین کے ہارن کی آواز آئ۔
انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں سلیم سے کہا – ’’سلیم بیٹا۔ اس وقت تو تم اسکول جاؤ۔ میں گھڑی ڈھونڈ کر رکھوں گی۔ ‘‘
یہ سن کر سلیم تھوڑا سا اداس ہو گیا مگر مجبوری تھی۔ اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے امی۔ آپ اس کو ڈھونڈ کر رکھیے گا۔ خدا حافظ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بستہ اٹھا کر باہر نکل گیا۔
اس کی امی کو افسوس ہو رہا تھا کہ وہ گھڑی باندھ کر نہیں گیا تھا۔ سلیم کے جانے کے بعد انہوں نے سارے کام چھوڑے اور اس کی گھڑی تلاش کرنے میں لگ گئیں۔ انہوں نے اس کا پورا کمرہ دیکھ لیا مگر گھڑی نہیں ملی۔ انھیں سلیم کی عادت کا اچھی طرح پتہ تھا۔ وہ اپنی چیزیں اپنے کمرے میں ہی رکھتا تھا۔ جب گھڑی اس کے کمرے سے نہ ملی تو انہوں نے بیٹھک، اپنا کمرہ اور گھر کی تمام الماریاں بھی دیکھ لیں مگر گھڑی نے نہ ملنا تھا نہ ملی۔
اس تلاش میں ان کا کافی وقت صرف ہوگیا تھا اور گھر کے دوسرے کام رہ گئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب اسے کہاں دیکھیں۔ تھک ہار کر انہوں نے گھڑی کی تلاش چھوڑی اور دوسرے کاموں میں لگ گئیں۔ لیکن ان کا ذہن گھڑی کی طرف ہی لگا ہوا تھا۔ انھیں سلیم کی اس روز کی بات یاد آئ جب تقریب کے دوران اس نے یہ کہا تھا کہ وہ اس گھڑی کو ابھی نہیں پہنے گا، جب اسکول کھلیں گے اس روز اس کو پہن کر اسکول جائے گا اور اپنے دوستوں کو دکھا کر بتائے گا کہ پاس ہونے پر اس کے چچا جان نے یہ گھڑی اسے انعام میں دی تھی۔ یہ سوچ کر وہ کچھ اداس بھی ہوگئیں۔
سلیم جب اسکول سے واپس آیا تو اس نے بستہ رکھ کر سب سے پہلا سوال یہ ہی کیا کہ اس کی گھڑی ملی یا نہیں۔
امی نے کہا۔ ’’سلیم میں نے پورا گھر چھان مارا مگر وہ نہیں ملی۔ تم سکون سے کھانا کھالو پھر اطمینان سے بیٹھ کر سوچنا کہ تم نے اسے کہاں رکھا تھا۔ ‘‘
سلیم کو بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اس کو حالانکہ امی نے کہا تھا کہ کھانا کھانے کے بعد سوچنا کہ گھڑی کہاں رکھی تھی، مگر وہ کھانا کھانے کے دوران ہی سوچتا رہا کہ اس روز اس نے گھڑی کہاں رکھی تھی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ وہ پارٹی کا بچا کھچا کھانا پرندوں کو ڈالنے کے لیے چھت پر بھی گیا تھا۔ شاید گھڑی کی ڈبیہ ان کے کھانے اور پانی کے تسلوں کے قریب ہی کہیں رکھ دی ہو۔ اس نے کھانا ختم کر لیا تھا، جلدی سے دو گھونٹ پانی کے پیے، واش بیسن پر جا کر کلّی کی اور ہاتھ دھوئے اور چھت پر جانے کے لیے سیڑھیوں کی جانب بھاگا۔
جب وہ اوپر پہنچا تو گھڑی کی ڈبیہ وہاں بھی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ ضرور میں نے اس ڈبیہ کو یہیں کہیں رکھا ہوگا، وہ سرخ رنگ کی مخملی ڈبیہ تھی، کوئی کوا اسے گوشت کا ٹکڑا سمجھ کر چونچ میں دبا کر لے گیا ہوگا اور اسے لے جا کر اس نے اپنے گھونسلے میں رکھ دیا ہوگا۔
اس نے یہ بات جا کر اپنی امی کو بتائی تو وہ ہنسنے لگیں اور بولیں۔ ”چلو اچھا ہوا کّوے کے بچے اس سے کھیل رہے ہونگے۔ تم فکر مت کرو، میں تمہیں دوسری گھڑی دلوا دوں گی، بالکل ویسی ہی”۔
ان کی یہ بات سن کر سلیم کو ذرا خوشی نہیں ہوئی۔ اسے تو وہ ہی گھڑی چاہیے تھی جو چچا جان نے اسے دی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اتوار کو جب اسکول کی چھٹی ہوگی تو وہ ابو کے ساتھ جا کر قریب کے پارک میں لگے بڑے بڑے درختوں کا جائزہ لے گا۔ اسے پتہ تھا کہ ان درختوں پر بہت سارے پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں، شاید کسی گھونسلے میں اس کی گھڑی بھی رکھی ہو۔
چونکہ اسکول میں چھٹیوں کے بعد آج پہلا دن تھا اس لیے اسے گھر کا کام نہیں ملا تھا۔ وہ بیٹھ کر کارٹون دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بیل بجی۔ اس کی امی کسی کام میں مشغول تھیں اس لیے وہ اٹھ کر دروازے پر گیا۔ باہر ان کا دھوبی اپنی گدھا گاڑی پر بہت سے کپڑوں کے گٹھر لادے کھڑا تھا۔
سلیم نے اندر جا کر امی کو بتایا کہ کپڑے دھونے والے انکل آئے ہیں۔ اس کی امی فوراً باہر آئیں۔ وہ برسوں سے اس دھوبی سے کپڑے دھلوارہی تھیں۔ دھوبی سے کپڑے دھلوانے کی وجہ یہ تھی کہ جس علاقے میں ان کا گھر تھا وہاں بڑی مشکلوں سے پانی ملتا تھا۔ سرکاری نل تو سوکھے ہی پڑے رہتے تھے۔ گھر کے استعمال کے لیے ٹینکر سے پانی بھروانا پڑتا تھا اور بہت پیسوں کا آتا تھا اس لیے اسے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا تھا، پینے کے لیے صاف پانی بنانے والی ایک کمپنی کی گاڑی ہر دوسرے روز ایک بڑی بوتل پانی کی دے جاتی تھی۔ چونکہ کپڑے دھونے میں پانی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اس لیے وہ اسی دھوبی سے کپڑے دھلواتی تھیں۔
وہ ہر دوسرے تیسرے دن اپنے گاہکوں کے گھروں کا چکر لگاتا تھا، میلے کچیلے کپڑے لے جاتا تھا اور دھلے ہوۓ کپڑے دھو کر اور استری کر کے گھر پر ہی دے جاتا تھا۔ یہ کپڑے وہ ایک ندی پر دھوتا تھا جو وہاں سے کافی فاصلے پر تھی۔ اس کا گھر بھی اسی ندی کے قریب ایک کچی بستی میں تھا۔
سلیم کی امی کو دیکھ کر اس نے سلام کیا اور دھلے ہوۓ کپڑوں کی ایک گٹھری ان کے سامنے رکھ دی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک پرچی بھی انھیں تھما دی۔ اس پرچی میں کپڑوں کی تفصیل اور اس کی اجرت درج تھی۔
سلیم وہیں کھڑا تھا۔ اس نے کپڑوں کی گٹھری اٹھا کر اندر رکھی۔ امی نے مزید میلے کپڑے بھی جمع کرکے رکھے ہوۓ تھے، وہ لا کر اس نے دھوبی کو دیے۔ دھوبی نے ان کپڑوں کا اندراج ایک رسید میں کیا اور وہ رسید سلیم کے حوالے کر دی۔ اتنی دیر میں اس کی امی دھوبی کو دینے کے لیے اپنے پرس میں سے پیسے نکال کر لے آئ تھیں۔
انہوں نے دیکھا کہ دھوبی کے پاس چمڑے کا ایک پرانا سا بیگ ہے اور وہ اس میں سے کچھ تلاش کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اس میں سے سرخ رنگ کی مخمل کی ایک ڈبیہ نکال کر سلیم کی امی کے حوالے کی اور بولا۔ ’’باجی۔ کپڑوں کو دھونے سے پہلے میری بیٹی تمام کپڑوں کی جیبوں کی اچھی طرح سے تلاشی لیتی ہے۔ یہ ڈبیہ اسے آپ کے صاحبزادے کے کرتے کی جیب سے ملی تھی۔ ‘‘
اس کی بات سن کر امی تو حیران رہ گئیں مگر سلیم خوشی سے اچھل پڑا۔ وہ اس ڈبیہ کو پہچان گیا تھا۔ امی کے ہاتھ سے لے کر اس نے ڈبیہ کھولی تو اندر اس کی پیاری گھڑی جگمگا رہی تھی۔ اسے ایک دم سے یاد آگیا تھا کہ تقریب والے روز جب اس کی خالہ زاد بہن نے اس کے کرتے پر سالن والے ہاتھ لگا دئیے تھے تو اس نے کرتا اتار کر میلے کپڑوں میں ڈال دیا تھا اور اس وقت گھڑی کی ڈبیہ اس کی جیب میں تھی۔
’’بھائی تمہارا بہت بہت شکریہ۔ یہ گھڑی سلیم کے چچا جان نے اسے تحفے میں دی تھی۔ ہم تو اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تنگ آگئے تھے۔‘‘ سلیم کی امی نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔ بھول چوک میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ میرا تو یہ بیگ ہی ان چیزوں سے بھرا ہوا ہے۔ میری بیٹی کپڑوں سے ملنے والی تمام چیزیں اکھٹا کرتی رہتی ہے، پھر جو نمبر کپڑوں پر لگے ہوتے ہیں، وہ ہی نمبر ایک پرچی پر لکھ کر ان چیزوں پر چپکا دیتی ہے۔ جب میں کپڑے واپس کرنے جاتا ہوں تو نمبر دیکھ کر ان چیزوں کو بھی واپس کردیتا ہوں۔ میری بیٹی بہت ہوشیار ہے۔ وہ اسکول میں بھی پڑھنے جاتی ہے اور میرے کاموں میں مدد بھی کرتی ہے۔ پہلے مجھے بھی لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا مگر اس نے میرے پیچھے لگ لگ کر مجھے بھی تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سکھا دیا ہے جس کی وجہ سے اب میں اس قابل ہوگیا ہوں کہ کپڑوں کی پرچی خود ہی بنا لیتا ہوں۔ اس سے مجھے بہت آسانی ہوگئی ہے۔ ‘‘
سلیم اس کی باتیں بڑی حیرانی سے سن رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نےاپنی امی سے کہا ۔ ’’امی کپڑے دھونے والے انکل حالانکہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں مگر وہ اور ان کی بیٹی کتنے ایماندار ہیں۔ وہ چاہتے تو میری اس قیمتی گھڑی کو اپنے پاس بھی رکھ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ‘‘
اس کی امی نے کہا۔ ’’بیٹا ایمانداری اور اسی طرح کی دوسری اچھی باتوں کا تعلق انسان کے اچھے کردار سے ہوتا ہے۔ وہ بےچارہ حالانکہ ایک غریب آدمی ہے مگر ہے کتنا ایماندار۔ اس کی بیٹی بھی کتنی اچھی اور ذمہ دار ہے۔ اچھے لوگوں کے دلوں میں ذرا سا بھی لالچ اور بے ایمانی نہیں ہوتی، چاہیے وہ پڑھے لکھے ہوں یا پڑھے لکھے نہ ہوں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بنتی ہے۔ ایسے اچھے لوگوں کے قصے ہم آئے دن اخباروں میں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’امی میں تو بہت خوش ہوں۔ میری گھڑی مجھے مل گئی ہے۔ میں نے فضول میں ہی بے چارے کّوے پر شک کیا تھا۔‘‘ سلیم نے ہنس کر کہا۔
’’فکر مت کرو۔ تمہارے اس شک کا کّوے کو پتہ بھی نہیں چلا ہوگا۔ اور ہاں۔ اب اگلی دفعہ جب ہمارا دھوبی کپڑے لے کر آئے گا تو میں اس کے ہاتھ اس کی بیٹی کے لیے بہت اچھی اچھی چیزیں بھجواؤں گی۔ وہ بہت نیک بچی ہے۔ وہ نہ صرف اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو ان کی گمشدہ چیزیں بھی مل جاتی ہیں جو وہ میلے کپڑوں کی جیبوں میں بھول جاتے ہیں۔ ‘‘
’’وہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔ ان کی وجہ سے میری کھوئی ہوئی گھڑی دوبارہ مجھے مل گئی ہے۔‘‘ سلیم نے کہا اور خوشی خوشی گھڑی کو اپنی میز کی دراز میں رکھنے چلا گیا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.