Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غرور کا انجام

نامعلوم

غرور کا انجام

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب سے بات تک کرنا برا جانتا تھا۔ اس لیے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔

    ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔

    اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کی رکاب پکڑ لی۔ اس کسان کی شکل ہوبہو بادشاہ سے ملتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریبانہ تھی۔

    کسان نے عرض کی۔ بادشاہ سلامت! میں تین دن سے حضور کی ڈیوڑھی پر بھوکا پیاسا چلا رہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔‘‘

    بادشاہ نے غریب کے میلے کپڑے دیکھ کر جھٹ ایک کوڑا لگا کر سامنے سے ہٹا دیا۔ کہ چل دور ہو۔ ہم ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کر سکتے۔‘‘

    غریب کسان کوڑا کھا کر ہٹ تو گیا مگر پھر بھی آہستہ آہستہ گھوڑے کے پیچھے چلتا رہا یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔ باگ ڈور ایک درخت سے اٹکائی۔ تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اور نہانے کو تالاب میں اتر گیا۔

    یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے اولے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آ سکتا تھا۔ جب بادشاہ تالاب میں اتر چکا تو غریب کسان نے اپنے میلے کپڑے اتار دیے۔ بادشاہ کے کپڑے پہن کر تاج سر پر رکھ لیا۔ اور بادشاہی گھوڑے پر سوار فوراً رفو چکر ہو گیا۔

    کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے بادشاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجک شاہی محلوں میں جا پہنچا۔

    اصلی بادشاہ نہا کر تالاب سے باہر نکلا۔ تو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔ بہت گھبرایا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ ناچار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے جھیلنے اور بھولے بھٹکے پھرنے کے بعد شہر پہنچا۔ مگر اب اس کی یہ حالت ہوئی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا۔ اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔

    دو تین ہفتے اسی طرح گزر گئے اور بادشاہ سخت پریشان ہو گیا کہ اتنے میں اس پاگل کا قصہ بادشاہ بیگم نے بھی سنا اور جب بلوا کر اس کے کپڑے اتروائے تو سینے پر تل کا نشان دیکھ کر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔

    کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہا۔ ’’کیا تم وہی شخص ہو جو دولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریاد نہ سنتے تھے؟ اسی کی سزا دینے کو میں نے یہ سوانگ بھرا تھا۔ اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم و انصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج و تخت واپس دینے کو تیار ہوں۔ ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔‘‘

    یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔ اور کسان اسے تخت و تاج دے کر گھر کو چلا گیا۔ جس کے بعد بادشاہ نے اپنی عادتوں کی اصلا کر لی اور چند ہی دنوں میں نیک نام مشہور ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے