Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم کہاں کھلیں؟

مختار احمد

ہم کہاں کھلیں؟

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    ساجد جس محلّےمیں رہتا تھا اس میں آمنے سامنے کل بیس گھر تھے۔ اس کا گھر کونے والا تھا جس میں وہ اپنی امی، ابّو اور ایک چھوٹی بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ محلّےمیں اس کے بہت سے دوست تھے جن کے ساتھ وہ گلی میں مختلف کھیل کھیلا کرتا تھا۔

    بچپن بہت مزے کا ہوتا ہے۔ سارا دھیان دوسری چیزوں سے زیادہ کھیلوں میں ہی لگا ہوتا ہے۔ کھیل بھی بہت سارے اور موسموں کے لحاظ سے کھیلے جاتے تھے۔ لٹو، گولیاں، گلی ڈنڈا، پٹھو گرم، پتنگ بازی، کرکٹ یہ تمام کھیل پورے سال آگے پیچھے چلا کرتے تھے۔

    آج کل بارشوں کا موسم تھا اور پٹھو گرم اور کرکٹ کے کھیل زوروں پر تھے۔ ایک روز جب بچے گلی میں وکٹ لگا کر گیند بلّا کھیل رہے تھے تو انہوں نے ایک بہت بڑا سا ٹرک دیکھا۔ ان کے محلّےمیں ساجد کی طرف سے تیسرا گھر خالی پڑا تھا۔ وہ ٹرک وہاں آ کر رک گیا۔ ٹرک میں موجود سامان نئے کرایہ داروں کا تھا جو اس گھر میں آئے تھے۔

    سارے بچے خوش ہوگئے اور کھیل چھوڑ کر ٹرک کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے۔ انھیں امید تھی کہ ان کرائے داروں کے کچھ بچے بھی ہونگے اور وہ ان سے دوستی کرلیں گے۔ ٹرک کے پیچھے ایک کار بھی تھی۔ کار میں سے ایک عمر رسیدہ خاتون اتری۔ اس کے چہرے پر موٹے شیشوں کی ایک عینک تھی۔ اس کے ساتھ اس کی خادمہ بھی تھی جس نے اس کا بڑا سے پرس تھام رکھا تھا۔ اس عورت نے ایک نظر ٹرک کے پاس کھڑے بچوں پر ڈالی اور بڑے غصے سے بولی۔ “جاؤ جاکر اپنا کھیل کھیلو۔ یہاں کھڑے ہو کر کیا دیکھ رہے ہو۔ تمہیں کوئی اور کام دھندہ نہیں ہے؟”

    اس عورت کے غصے سے سب بچے ڈر گئے اور ادھر ادھر ہوگئے۔ مزدور ٹرک سے سامان اتار اتار کر اندر پہنچانے لگے۔ ساجد وہاں سے ہٹ کر اپنے گھر کے سامنے لڑکوں کے ساتھ کھیل میں مصروف ہوگیا۔

    جب رافیل نے ایک آسان سی بال پر شاٹ مارا اور گیند سیدھی ٹرک میں جا گری تو وہ عورت چیخ کر ان سے بولی۔ “کان کھول کر سن لو شیطانو۔ اگر تمھاری گیند میرے گھر میں آئی تو واپس نہیں ملے گی۔ اگر کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا تو اس کے پیسے میں تم سے ہی لوں گی۔ تم میدان میں جا کر کیوں نہیں کھیلتے۔ یہاں کیا ٹھک ٹھک لگا رکھی ہے”۔

    ساجد آگے بڑھ کر بولا۔ “ہم تو میدان میں ہی جا کر کھیلنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ دور بہت ہے۔ پھر بڑے لڑکے ہمیں وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم ان کی پچ خراب کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری امی بھی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم اتنی دور وہاں کھیلنے جائیں۔ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں پکڑ کر نہ لے جائے۔ اب آپ ہی بتایئے ہم کہاں کھیلیں؟”

    ساجد کی بات سن کر وہ بوڑھی عورت طیش میں آگئی۔ اس کے قریب آکر نہایت غصے سے بولی۔ جب اتنی ساری مشکلات ہیں تو پھر تمہیں کھیل کی کیا پڑی ہے۔ گھر میں بیٹھا کرو۔ محلّےوالوں کا سکون کیوں غارت کرتے ہو”۔

    “ٹھیک ہے آنٹی۔ آپ اگر کہتی ہیں تو ہم آپ کے گھر کے سامنے نہیں کھیلا کریں گے”۔ ساجد نے سر جھکا کر دھیرے سے کہا اور دوستوں کو لے کر اپنے گھر کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ وہ عورت گھور کر انھیں جاتا ہوا دیکھتی رہی پھر بڑبڑاتے ہوئے واپس ہوگئی۔

    تھوڑی دیر میں ٹرک سے سارا سامان گھر میں رکھ دیا گیا تھا۔ وہ عورت گھر میں چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا۔

    “لو بھئی گلی میں تو اپنا کھیلنا بند ہوگیا۔ اب ہم کہاں کھیلیں”۔ منیب نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ “اب تو ہمیں کرکٹ کے بجائے گیند سے کیچ کیچ ہی کھیلنا پڑا کرے گا اور وہ بھی صرف اپنے گھر کے سامنے”۔

    “وہ آنٹی تو بہت غصے والی لگ رہی تھیں۔ مجھے تو ان سے بہت ڈر لگ رہا تھا”۔ خلیل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ “میں تو سمجھ رہا تھا کہ اس گھر میں آنے والے کرائے دار بہت اچھے ہونگے۔ یہ تو مجھے کسی اسکول کی ہیڈ مسٹریس لگ رہی ہیں۔ اتنا غصہ تو وہ ہی کرتی ہیں”۔

    کچھ دیر اسی قسم کی باتیں کر کے سب بچے اداس چہرے لیے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ انھیں یہ بات بعد میں پتہ چلی تھی کہ پہلے یہ عورت کسی اور علاقے میں رہتی تھی۔ اس کا ایک بیٹا اور بہو بھی تھے۔ بیٹا کسی فضائی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اور بیوی کے ساتھ سعودی عرب میں رہتا تھا۔ اس سے پہلے یہ جس گھر میں رہتی تھی، بارشوں کا پانی گھر میں داخل ہو کر قالین وغیرہ خراب کر دیتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے گھر تبدیل کر لیا تھا۔ بارشوں کا موسم شروع ہوگیا تھا اور اس کا بیٹا سعید اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پاکستان آ رہا تھا۔ بوڑھی عورت نے اس وجہ سے گھر تبدیل کر لیا تھا کہ بارش کے پانی سے پریشانی نہ ہو۔ یہ عورت اپنی ایک خادمہ کے ساتھ یہاں آئی تھی۔

    یہ تیسرے روز کا واقعہ ہے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ پوری گلی سنسان پڑی تھی۔ ساجد کے دوست اس کے گھر کے باہر اپنے بیٹ اور بال لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے کے آگے ہلکے ہلکے گیند کرا کر کھیلیں گے، کوئی چوکا چھکا نہیں مارے گا۔ ساجد ٹینس کی گیند پر پلاسٹک کا ٹیپ لپیٹ رہا تھا۔ ٹیپ لپٹ گیا تو گیند اتنی ہی سخت ہوگئی جتنی کہ ہارڈ بال ہوتی ہے۔

    ابھی اس کا کام ختم ہوا ہی تھا کہ اس عورت کے گھر کے سامنے ایک ٹیکسی آ کر رکی۔ اس میں سے دھوپ کا چشمہ لگائے ایک نوجوان اترا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی اتری جس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ دبکا ہوا تھا۔ لڑکوں کی نظر ان پر پڑی تو ساجد کا ایک دوست بولا۔ “لو بھئی۔ آنٹی کا بیٹا سعید اور بہو بھی آگئے ہیں۔ اب ہم ہلکے ہلکے کھیلنے سے بھی گئے۔ ان کا بیٹا بھی ہمارے کھیلنے پر اعتراض کرے گا۔ جیسی غصے والی اس کی امی ہیں یہ بھی ویسا ہی ہوگا”۔

    ٹیکسی کا ڈرائیور چھت پر رکھے سوٹ کیس اتار کر زمین پر رکھ چکا تھا۔ سعید جیب سے اس کی اجرت کے پیسے نکال کر دینے لگا۔ پیسے لے کر ٹیکسی والا تو چلا گیا مگر عین اسی وقت ایک دوسری گاڑی وہاں آ کر رکی۔ سعید اور اس کی بیوی نے گاڑی کی طرف دیکھا۔

    گاڑی کا دروازہ کھلا اور اس میں سے لال لال آنکھوں اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک آدمی اتر کر ان کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کا خوفناک پستول دبا ہوا تھا۔ اس نے سعید سے کہا۔ “میں ایئر پورٹ سے تم لوگوں کے پیچھے لگا ہوا ہوں۔ دونوں سوٹ کیس گاڑی میں رکھ دو۔ ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو تینوں میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا”۔

    پھر اس نے جھپٹا مار کر سعید کی بیوی کا بڑا سا پرس بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہ بے چاری تو اس آفت کو دیکھ کر خوف سے پیلی پڑ گئی تھی اور تھر تھر کانپنے لگی تھی۔ سعید بھی اس صورت حال سے دہشت زدہ ہوگیا تھا۔ اس نے جلدی سے دونوں سوٹ کیس اس ڈاکو کی گاڑی میں رکھ دیے۔ سوٹ کیسوں میں بہت قیمتی اشیا رکھی تھیں اور اس کی بیوی کے تمام زیورات بھی ان ہی میں موجود تھے۔ اس بدمعاش ڈاکو نے سعید کے بچے کا پستول سے نشانہ لے رکھا تھا۔

    سوٹ کیس گاڑی میں منتقل ہوگئے تو اس نے سعید سے کہا۔ “اب اپنا پرس اور موبائل بھی گاڑی میں ڈال دو۔ جلدی کرو۔ تمہاری بیوی ، بچے اور خود تمھاری زندگی شدید خطرے میں ہے۔ میں ایسا ہوں کہ کچھ بھی کرسکتا ہوں”۔

    سعید نے بے بسی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی جیبیں خالی کر دیں۔ اس کی نظر کچھ فاصلے پر بیٹھے ساجد اور دوسرے بچوں پر بھی پڑی تھی مگر وہ دس دس بارہ بارہ سال کے چھوٹے بچے تھے۔ انھیں دیکھ کر سعید کے ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ سب چیزیں لینے کے بعد اس ڈاکو نے سعید کی جامہ تلاشی بھی لے لی تھی کہ اسے کچھ اور مال بھی مل جائے۔ اب سعید اور اس کی بیوی ڈاکو سے کچھ فاصلے پر کھڑے اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ وہ جلد سے جلد وہاں سے چلا جائے۔

    ساجد اور اس کے دوست یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ پہلے تو ان کی سمجھ میں کچھ آیا ہی نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، مگر تھوڑی دیر بعد انھیں احساس ہوگیا کہ ایک ڈاکو بوڑھی عورت کے بیٹے سعید کو لوٹ رہا ہے۔

    ساجد نے رافیل کی طرف گیند پھینکی اور بلّا سنبھالتے ہوئے بولا۔ “رافیل۔ آج ہماری مہارت کا امتحان ہے”۔

    رافیل نے پھرتی سے گیند پکڑی اور ساجد کے سامنے کھڑا ہو کر اسے اس کی جانب پھینکتے ہوئے بولا۔ ”دے گھما کے۔ گھما کے دے گھما کے”۔

    اس نے بال بہت آہستہ سے اچھال کر ساجد کی طرف پھینکی تھی، ساجد کا رخ اس ڈاکو کی جانب تھا جو اب اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے بلّے کو مضبوطی سے پکڑ کر بڑی احتیاط سے ڈاکو کا نشانہ باندھا اور جیسے ہی گیند اس کی جانب آئی، اس نے پوری قوت سے ایک شاٹ مارا۔ پتھر کی طرح سخت بال گولی کی رفتار سے سنسناتی ہوئی گئی اور ٹھیک اس ڈاکو کی کنپٹی سے ٹکرائی۔ اس کے ٹکراتے ہی ڈاکو کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ تیورا کر زمین پر گر پڑا۔

    سب بچوں کے منہ سے ایک نعرہ بلند ہوا۔ “وہ مارا”۔

    ساجد ہاتھ میں بیٹ پکڑے پکڑے بھاگ کر اس ڈاکو کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ سے پستول جھپٹ لیا۔ لمحہ بھر کو تو سعید کی بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوگیا ہے ۔ جب اس نے دیکھا کہ ڈاکو بے ہوش پڑا ہے تو اس کی جان میں جان آئی۔

    ایک لڑکا بھاگ کر اپنے گھر سے نائلون کی رسی لے آیا جس سے سعید اور بچوں نے مل کر ڈاکو کو جکڑ دیا۔ سعید کی بیوی بھاگ کر گھر میں گئی اور جا کر اپنی ساس کو سارا قصہ سنایا۔ وہ بوڑھی عورت اتنا گھبرا گئی کہ ننگے پاؤں ہی بھاگی چلی آئی۔

    “خدا خیر کرے۔ کیا ہوا میرے لعل کو”۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا اور سعید کو خود سے چمٹا لیا۔

    “امی جان اگر یہ بچے نہ ہوتے تو اس ڈاکو کی جگہ میں پڑا ہوتا”۔ سعید نے کہا۔

    اس کی بات سن کر بوڑھی عورت بچوں کی طرف گھومی۔ “بچو جیتے رہو۔ تم لوگوں نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے۔ میں کبھی تمہارا احسان نہیں بھولوں گی”۔ پھر وہ سعید کی طرف مڑی۔ “بیٹا کیا ہوا تھا۔ یہ ڈاکو کون ہے۔ تمھارے پیچھے کیسے لگ گیا؟”

    سعید اپنی ماں کو تفصیل بتانے لگا کہ یہ ڈاکو ایئر پورٹ سے ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ یہ بچے گلی میں موجود تھے اور اس سے پہلے کہ وہ ڈاکو اپنا کام ختم کر کے جاتا، ان لوگوں نے اس کی کنپٹی پر گیند کی زوردار ہٹ لگا کر اسے بے ہوش کردیا۔

    ساری کہانی سن کر اس کی ماں شرمندہ نظر آنے لگی۔ اسے اپنا رویہ یاد آگیا تھا جو اس نے ان بہادر بچوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ اس نے یہ خیال بھی نہیں کیا تھا کہ محلّےکے چھوٹے بچے محلّے میں نہیں کھیلیں گے تو پھر کہاں کھیلیں گے۔ گلی محلّےمیں کھیلنے والے بچوں کے ساتھ کسی کو بھی برا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

    “تمہارا نشانہ تو بہت پکّا ہے”۔ سعید ساجد کو بال پر شاٹ مارتے دیکھ چکا تھا۔

    منیب فخر سے بولا۔ “اگر کسی کے سر پر سیب رکھا ہو تو ساجد گیند پر ہٹ لگا کر بڑی آسانی سے اسے گرا دیتا ہے۔ اس نے اس کی بہت پریکٹس کی ہے”۔

    یہ سن کر سعید بہت متاثر نظر آنے لگا۔ “یہاں پاکستان میں تو بہت قابل قابل بچے موجود ہیں”۔ اس نے تعریفی انداز میں کہا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائل نکالا۔ اس کا ایک پولیس افسر دوست تھا۔ اسے فون کرکے اس نے پوری صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ تو ابھی ابھی یہاں پہنچا ہے اس لیے وہ اس کی مدد کرے۔

    تھوڑی دیر میں علاقے کی پولیس وہاں پہنچ گئی۔ گیند اپنی پوری شدت سے لگی تھی۔ پولیس کے آنے تک بھی اس ڈاکو کو ہوش نہیں آیا تھا۔ پولیس کے سپاہیوں نے اس کی رسیاں کھولیں اور ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ اس کی گاڑی بھی انہوں نے اپنے قبضے میں لے لی تھی۔

    پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ آنے والے انسپکٹر کو جب اس واقعہ کی تفصیل پتہ چلی تو وہ بہت حیران ہوا اور ساجد سمیت سب بچوں کو خوب شاباش دی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کارنامے کی بدولت حکومت انھیں انعام بھی دے گی۔ چلتے چلتے انسپکٹر نے سعید سے ہنس کر کہا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں اگر ایسے کھلاڑی ہوں تو ہمیں ایک کی جگہ دو دو ورلڈ کپ بڑی آسانی سے مل جائیں”۔

    پولیس کے جانے کے بعد سعید نے اپنا سامان گھر کے اندر لے جا کر رکھا۔ اس کی بیوی اور ماں ان بچوں کے پاس ہی کھڑی تھیں۔ سعید کی ماں نے بڑی شفقت سے کہا۔ “تم لوگ تو بہت اچھے اور بہادر لڑکے ہو۔ مجھے اپنے اس روز والے سلوک پر افسوس ہے۔ بچو کیا تم مجھے معاف نہیں کرو گے؟”

    ساجد نے آگے بڑھ کر کہا۔ “آپ ہمیں شرمندہ نہ کیجیے۔ آپ ہماری بڑی ہیں، ہمارے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کر سکتی ہیں۔ ہم لوگ تو بیٹھے منصوبہ بنا رہے تھے کہ اب کرکٹ کہاں چل کر کھیلیں کہ یہ واقعہ پیش آگیا”۔

    “اب تم لوگ اسی جگہ اسی محلّےمیں ہی کھیلا کرو گے۔ میرے پاس بہت وقت ہوتا ہے۔ میں بھی کھڑکی میں بیٹھ کر تم لوگوں کا کھیل اور گلی کی رونق دیکھا کروں گی۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ بچے گلیوں میں نہیں کھیلیں گے تو کہاں کھیلیں گے۔ جو لوگ بھی اس بات پر غصہ کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ میں بھی غلط تھی مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے”۔

    منیب نے آگے بڑھ کر کہا۔ “جب آپ کا یہ چھوٹا منا بڑا ہوجائے گا تو ہمارے ہی ساتھ گیند بلّا کھیلا کرے گے۔ یہیں۔ اسی جگہ۔ کیونکہ اس کی امی بھی ہماری امی کی طرح اسے کھیلنے کے لیے دور نہیں جانے دیں گی۔ چھوٹے بچے گھر سے دور جاتے ہیں تو برے لوگ انھیں پکڑ کر لے جاتے ہیں”۔

    اس عورت کی بہو نے کہا۔ “لیکن کھیلتے ہوئے اسے گیند ہلکے سے کروانا۔ یہ چھوٹا ہوگا نا۔ اور دیکھو تم سب بہادر بچوں کی کل میری طرف سے ایک زبردست دعوت ہے۔ سب بچوں کو تحفے بھی ملیں گے۔ کوئی بچہ غیر حاضر نہ ہو ورنہ میں خود اسے گھر سے لے کر آوں گی”۔

    بچے یہ سن کر خوش ہوگئے مگر ساجد نے کہا۔ “سوری آپی۔ ہماری بھی ایک شرط ہے۔ اگر ہماری امی نے ہمیں اجازت دی تو ہم آئیں گے۔ ورنہ نہیں”۔

    اس عورت کی بہو نے کہا۔ “اس کی تو تم فکر ہی مت کرو۔ کل میں خود ہر بچے کے گھر جا کر اس کی امی سے اجازت لونگی”۔

    تھوڑی دیر بعد سعید بھی وہاں آگیا۔ اس نے اپنے گھر کے سامنے وکٹیں گاڑیں اور سب بچوں کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلنےلگا۔ اس کی ماں دروازے کے سامنے کرسی پر بیٹھی، گود میں اپنے پوتے کو لے کر مسکراتے ہوئے ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے