Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حویلی کے چور

مختار احمد

حویلی کے چور

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    نوراں کی ساری زندگی مشقت میں بسر ہوئی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے گاوٴں میں رہتی تھی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اسے پورے گھر کو سنبھالنا پڑتا تھا کیوں کہ اس کی ماں گاوٴں کے زمیندار کی حویلی میں ملازمہ تھی۔ وہ صبح سے شام تک حویلی میں کام میں مصروف رہتی۔ اس خدمت کے اسے اتنے روپے پیسے مل جاتے تھے کہ وہ اپنے چار بیٹوں ادر نوراں کا خرچ اٹھا لیتی تھی۔ گاوٴں کی زمیندار کی حویلی میں کام کرنے کا سبب یہ تھا کہ اُس کا شوہر اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔ ایک دفعہ زور کی بارشیں ہوئی تھیں، ان بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آ گیا اور وہ اسی سیلاب کی نذر ہوگیا تھا۔

    دنیا سے شوہر کے چلے جانے کے بعد نوراں کی ماں کی مصیبتوں کا دور شروع ہوگیا ۔ وہ ایک باہمت عورت تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہر مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرے گی اور بچوں کو اس قابل کرے گی کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ نوراں چونکہ گھر میں سب سے بڑی تھی اس لیے ماں کے کام پر چلے جانے کے بعد وہ ہی گھر سنبھالتی تھی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کھانا پکانا، ان کی دیکھ بھال اور گھر کے دوسرے کام اسی کو کرنا پڑتے تھے۔

    ماں اور نوراں کی محنت رنگ لائی۔ نوراں کے چاروں بھائی بڑے ہوگئے۔ انہوں نے روزگار کی خاطر شہر کا رخ کیا اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ شہر سے وہ ماں کو تھوڑے بہت پیسے بھیج دیا کرتے تھے۔ ان پیسوں کو جمع کر کر کے ماں نے نوراں کا جہیز تیار کیا اور پھر پڑوس کے گاوٴں میں ایک نوجوان سے اس کی شادی کردی۔ نوراں کا بیاہ ہوا تو وہ رخصت ہو کر اپنے شوہر کے گھر چلی گئی۔

    اس کی ماں بوڑھی ہو گئی تھی، اس کی شادی کے بعد اس کی ماں نے بھی زمیندار کے گھر کام کرنا چھوڑ دیا کیوں کہ اب اس کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ اس کے بیٹے جو اسے تھوڑے بہت روپے بھیجا کرتے تھے ان سے گزارا کرنے لگی۔

    شادی کے بعد نوراں کی ایک بچی پیدا ہوئی ۔ اس کا شوہر پیسہ کمانے کے لیے پردیس چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے وہیں پردیس میں ہی شادی کرلی اور وہیں کا ہو کر رہ گیا، اس نے یہ بھی نہیں سوچا کا اب اس کی بیوی اور بچی کا کا ہوگا۔

    ادھر شوہر نے نظریں پھیریں تو ادھر سسرال والوں کے روئیے میں بھی تبدیلی آگئی اور ایک روز انہوں نے بھی نوراں کو زبردستی گھر سے نکال دیا۔ نوراں کے ویسے تو چار بھائی تھے، مگر وہ اپنی اپنی شادیاں کر کے شہر میں ہی رہنے لگے تھے۔ نوراں پر یہ افتاد پڑی تو انہوں نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ لے دے کے اس کی بوڑھی ماں ہی رہ گئی تھی جو اس مشکل وقت میں اس کے کام آئی۔

    ماں ہی تو ہوتی ہیں جو اولاد کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑتیں۔ اس نے نوراں کو تسلی دی اور نوراں اپنی بچی کے ساتھ ماں کے گھر میں رہنے لگی۔ نوراں کے سامنے سب سے بڑا مسلہ کچھ کمانے کا تھا تاکہ وہ گھر کا خرچ چلا سکے اور اپنی بیٹی کو جو بڑی ہوتی جا رہی تھی، پڑھا لکھا سکے۔ یہ اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ جائے۔ وہ شہر میں ہوتی تو اس کے لیے روزگار کا کوئی مسلہ نہ ہوتا۔ اسے کسی گھر یا اسکول میں ماسی کا کام مل سکتا تھا یا پھر وہ کوئی چھوٹی موٹی دکان بھی کھول کر گزر بسر کر سکتی تھی۔

    ان کے گاوٴں میں فاضل نام کا ایک زمیندار تھا۔ وہ بھلا آدمی تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو نوراں کی ماں ان لوگوں کی حویلی میں نوکرانی تھی ۔ اس کا بچپن نوراں کی ماں کی نگرانی میں ہی گزرا تھا۔ نوراں کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہ کام کے سلسلے میں اپنی ماں کے ساتھ فاضل کے پاس جائے۔ اس کی بہت ساری زمینیں ہیں شائد وہ اس کو کھیتوں پر کام کرنے کے لیے رکھ لے۔

    نوراں ماں کو لے کر فاضل کے پاس پہنچی اور اپنی بپتا سنا کر اس سے درخواست کی کہ وہ اسے کوئی کام دے دے تاکہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سکون سے گزر بسر کر سکے۔ چونکہ فاضل کا بچپن نوراں کی ماں کے سامنے ہی گزرا تھا۔ اسے ابھی تک یاد تھا کہ نوراں کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے بہت اچھی اچھی کہانیاں بھی سنایا کرتی تھی۔

    اُسے جب نوراں کی دکھ بھری کہانی کا پتہ چلا تو اس کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں اس کے شوہر کو برا بھلا کہا جو اسے اور اپنی بیٹی کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔ فاضل نے تھوڑی سوچ بچار کے بعد اس سے کہا۔ “میں تمہیں اپنے کھیتوں پر کام کے لیے رکھ تو لوں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کہ اس مشقت سے تم گھبرا نہ جاوٴ۔ میں نے کھیتوں پر پانی دینے کے لیے جو آدمی رکھے ہیں میں ان کے کے کام سے مطمئن نہیں ہوں۔ وہ جان چھڑانے کے لیے کھیتوں کی آس پاس کی زمین تو گیلی کر دیتے ہیں مگر اچھی طرح پانی نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ وہ کھاد اور جراثیم کش دوائیں بھی وقت پر کھیتوں میں نہیں ڈالتے اور نہ ہی کھیتوں کی صفائی ستھرائی پر دھیان دیتے ہیں۔ اس وجہ سے میری زمینوں پر پچھلے سال بھی اچھی فصل نہیں ہوئی تھی، اور اس سال بھی کوئی امید نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ان آدمیوں کی نگرانی کرنے کے لیے رکھ سکتا ہوں، اپنی نگرانی میں تم ان سے کام کروایا کرنا”۔

    نوراں کو یہ کام بہت آسان لگا اور اس نے حامی بھرلی۔ نوراں اس نوکری کے مل جانے کے بعد بہت خوش ہو گئی تھی اور اس نے کام شروع کر دیا۔ وہ جب کھیتوں پر کام کرنے جاتی تو اپنی بیٹی تابدار کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ دیتی تھی۔ شروع شروع میں تو اس نے نوراں کو بہت یاد کیا مگر جب نوراں نے اس کو پیار سے سمجھایا تو وہ سمجھ گئی۔ نوراں تھی تو عورت مگر اپنی ماں ہی کی طرح بہت باہمت تھی۔

    فاضل کے کھیتوں میں دس مزدور کسان کام کیا کرتے تھے، اور ان کے ذمے مختلف کام تھے۔ انھیں جب پتا چلا کہ زمیندار نے نوراں کو ان کی نگرانی پر رکھا ہے اور انھیں اس کی ماتحتی میں کام کرنا پڑے گا تو انھیں برا محسوس ہوا۔ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ اب ان کے آرام کے دن گنے جا چکے ہیں۔ پہلے روز تو ان میں سے کسی نے بھی نوراں سے بات نہیں کی اور خاموشی اور بے دلی سے اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے۔ یہ ضرور ہوا کہ اس روز کھیتوں میں کافی کام ہوا تھا۔ کھیتوں میں پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے زمین میں بنائی گئی نالیوں سے آتا تھا۔ ان نالیوں کی حالت کافی خراب تھی، جگہ جگہ کچرا موجود تھا اور بعض جگہوں سے تو وہ بالکل ہی بند ہوگئی تھیں۔ نوراں نے کھرپی کی مدد سے ان نالیوں کی خود صفائی کی اور ایک ہفتے میں ہی ان کی حالت بدل دی۔

    مزدور کسانوں نے نے جب اس کو بھی اپنے ساتھ کام کرتے دیکھا تو ان کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ وہ اب ہنسی خوشی نوراں کی باتوں پر عمل کرتے تھے۔ کبھی کبھی نوراں گھر سے سب کے لیے میٹھے چاول، باجرے کی میٹھی ٹکیاں یا اور کوئی ایسی ہی چیز بنا کر لے آتی۔ اس کے اچھے رویے اور محبّت بھرے خوش اخلاق رویے سے کسان مزدور اس کو اچھا سمجھنے لگے تھے جس کی وجہ سے ایک بہترین ماحول بن گیا تھا اور سب ہنسی خوشی کام کرنے لگے تھے۔

    گاوٴں کی دوسری عورتیں بھی فضل کے کھیتوں پر کام کرتی تھیں مگر وہ ہر روز کام کرنے نہیں آتی تھیں۔ ان کا کام اس وقت شروع ہوتا تھا جب فصلیں تیار ہو جاتی تھیں۔ وہ فصلوں کی کٹائی وغیرہ کرتی تھیں مگر نوراں صبح منہ اندھیرے کھیتوں پر پہنچ جاتی تھی اور شام تک مصروف رہتی۔

    ان لوگوں کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور کچھ ماہ بعد ہی فاضل کے کھیتوں میں مختلف اجناس کے بڑے بڑے پودے لہلہانے لگے۔ یہ منظر فاضل نے بہت سالوں کے بعد دیکھا تھا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کامیابی میں نوراں کی محنت اور کوششوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس سال فصلیں بہت اچھی ہوئیں اور فاضل کو بہت منافع ملا۔ اس نے خوش ہو کر کھیتوں پر کام کرنے والے تمام مزدور کسانوں کو انعام دیا جس سے وہ لوگ بھی خوش ہوگئے اور آئندہ مزید دل لگا کر کام کرنے کا عہد کیا۔

    ایک روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ نوراں کے چاروں بھائی ایک ساتھ آئے اور ماں سے بولے کہ ان کے باپ کا یہ گھر بیچ کر ان کو حصہ دیا جائے۔ ماں نے انھیں بہت سمجھایا مگر وہ نہیں مانے اور گھر کو بکوا کر اپنا اپنا حصہ لے کر چلے گئے۔ تھوڑی بہت رقم نوراں اور اس کی ماں کو بھی ملی، مگر یہ اتنی نہیں تھی کہ اس سے گاوٴں میں کوئی گھر خرید لیا جاتا۔

    جس روز ان کا گھر فروخت ہوا تھا، اسی رات ایک افسوسناک بات بھی ہوگئی۔ فاضل زمیندار کے گھر چوروں نے دھاوا بول دیا۔ اس کے تمام گھر والے سوتے کے سوتے ہی رہ گئے، اور چور تمام زیورات اور نقدی لے کر چلتے بنے۔ فاضل بہت پریشان تھا، اس کی زندگی بھر کی کمائی دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی۔

    اس کی بیوی رو رو کر ہلکان ہوگئی تھی۔ اس کو ان زیورات اور نقدی کے چلے جانے کا بے حد ملال تھا۔ اس واقعہ کی رپورٹ گاوٴں کے تھانے میں درج کروادی گئی تھی، مگر فاضل کو امید نہیں تھی کہ چور پکڑے جائیں گے۔ وہ صبر کر کے بیٹھ گیا۔

    اس واردات کے اگلے روز کی بات ہے۔ فاضل کے علم میں یہ بات آئی کہ نوراں کی ماں نے بیٹوں کے کہنے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا ہے۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اب دونوں ماں بیٹی بے آسرا ہو گئی ہیں۔ وہ ایک نیک دل آدمی تھا۔ وہ ان کے پاس آیا اور بولا ۔ “تم لوگ فکر مت کرو۔ گاوٴں میں میرا ایک گھر ہے۔ وہ سالوں سے خالی پڑا ہے۔ تم لوگ جب تک جی چاہے اس میں رہو”۔

    دونوں ماں بیٹی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنا سامان لے کر فوراً نئے گھر میں آگئیں۔ گھر بہت بڑا تھا اور اس میں کشادہ صحن بھی تھا۔ نوراں نے جب گھوم پھر کر گھر کا جائزہ لیا تو ایک بات دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ نیم کے درخت کے نیچے اسے تقریباً ایک گز زمین ایسی نظر آئی جو تازہ تازہ کھودی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے کانوں میں فاضل کے الفاظ گونج رہے تھے گاوٴں میں میرا ایک گھر ہے۔ وہ سالوں سے خالی پڑا ہے”۔ اس نے سوچا کہ جب یہ گھر سالوں سے خالی پڑا تھا تو پھر یہاں زمین کون کھود گیا؟۔

    رات کو کھانا کھا کر وہ بستر پر لیٹی تو اس وقت بھی وہ یہ ہی سوچ رہی تھی۔ آخر اس سے صبر نہیں ہوا۔ اس کی بیٹی تابدار گہری نیند سو رہی تھی۔ نوراں نے اپنی ماں کو ساتھ لیا اور فاضل کی حویلی جا پہنچی۔ فاضل اپنی بیٹھک میں اداس بیٹھا تھا۔ دولت کے چوری ہوجانے کا اس کی بیوی کو بہت افسوس ہوا تھا اور وہ اس صدمے سے بیمار پڑ گئی تھی۔ کچھ دیر پہلے معالج اسے دیکھ کر گیا تھا۔

    فاضل نے جب نوراں اور اس کی ماں کو اتنی رات گئے اپنے گھر آتے دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ نوراں نے اسے کھدی ہوئی زمین کے بارے میں بتایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اس کو دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ اس نے اپنے دو ملازموں کو اپنے ساتھ لیا اور نوراں کے ساتھ اس کے گھر پہنچا۔ اس کے حکم پر اس کے ملازموں نے زمین کھودنا شروع کی۔ زمین کھودنے میں انھیں کوئی دشواری نہیں ہوئی کیونکہ زمین کی مٹی بہت نرم اور پولی تھی۔ ابھی انہوں نے دو فٹ گہرائی سے ہی مٹی نکالی تھی کہ ان کی کدال کسی لوہے کی چیز سے ٹکرائی اور ایک عجیب سی آواز پیدا ہوئی۔

    فاضل اس آواز کو سن کر بہت حیران ہوا۔ ملازموں نے کدال اور بیلچہ ایک طرف رکھ کر ہاتھوں سے مٹی ہٹائی۔ جب مٹی ہٹی تو انھیں لوہے کا ایک صندوق نظر آیا۔ انہوں نے اسے باہر نکال لیا۔ فاضل پہچان گیا، یہ صندوق اسی کا تھا اور چور اس میں سامان بھر کر اپنے ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اس کا مارے خوشی کے برا حال ہوگیا۔ صندوق میں تالا نہیں لگا تھا، صرف دونوں کنڈیاں لگی ہوئی تھیں، فاضل نے ملازموں کو ایک طرف ہٹا کر صندوق کا ڈھکن کھولا۔ اس کی حویلی سے چوری شدہ تمام چیزیں اس میں موجود تھیں۔ ان چیزوں کے درمیان اسے ایک شناختی کارڈ بھی ملا تھا جسے اس نے خاموشی سے جیب میں رکھ لیا اور اپنے ملازموں سے بولا۔ “تم لوگ فوراً تھانے جا کر انسپکٹر اور سپاہیوں کو ساتھ لے آوٴ”۔

    یہ منظر دیکھ کر نوراں اور اس کی ماں بہت حیران تھیں۔ فاضل نے کہا۔ “نوراں بہن۔ میں تمہارا احسان مند ہوں۔ تمھاری عقلمندی کی وجہ سے ہمیں یہ لوٹا ہوا سامان دوبارہ مل گیا ہے”۔

    “مالک۔ میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہیں آیا ہے”۔ نوراں نے الجھ کر کہا۔

    فاضل مسکرا کر بولا۔ “ان چوروں نے پہلے ہمیں کھانے میں بے ہوشی کی دوا کھلائی، پھر اطمینان سے حویلی کی تلاشی لے کر تمام چیزیں چرا لیں۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ جب تک پولیس یہ کیس بند نہیں کر دیتی، اس وقت تک اس چوری کے مال کو میرے اس گھر میں زمین کھود کر دبا دیں کیوں کہ یہ برسوں سے بند پڑا تھا اور یہاں پر کسی کے آنے کی امید بھی نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو چوری کا مال نکال لیں گے”۔

    تھوڑی دیر بعد انسپکٹر چند پولیس والوں کے ساتھ وہاں آ گیا۔ اس نے چوری کے مال کا صندوق اپنے قبضے میں کیا۔ پھر وہ تمام لوگ فاضل کی حویلی میں آئے۔ انسپکٹر نے کاغذ قلم نکالا اور نوراں کا بیان قلمبند کرنے لگا۔ فاضل نے ان کی خاطر مدارات کے لیے ایک ملازم سے کہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ملازم شرفو ایک بڑی سی ٹرے میں چائے اور کھانے پینے کی چیزیں لے آیا۔

    وہ چائے بنانے لگا تو فاضل نے اس سے کہا ۔ “شرفو جب تم چوری کا مال صندوق میں بھر رہے تھے تو تمہارا شناختی کارڈ اس میں گر گیا تھا۔ یہ دیکھو”۔ اس کی یہ بات کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ شرفو کے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔ وہ دروازے کی طرف بھاگا، مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتا، ایک سپاہی نے جست لگا کر اس کو دبوچ لیا۔ دوسرے سپاہی نے اس کے ہتھکڑی لگا دی۔ شرفو کے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

    فاضل نے قہر آلود آواز میں کہا۔ “نمک حرام۔ تو نے میری مہربانیوں کا یہ صلہ دیا ہے”۔

    شرمندگی کے مارے شرفو کے آنسو نکل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے ان دو ساتھیوں کا پتہ بھی بتا دیا جن کے ساتھ اس نے چوری کی منصوبہ بندی کی تھی اور وہ لوگ اس واردات میں شامل تھے۔ انسپکٹر نے اسی وقت ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مار کر انھیں بھی گرفتار کر لیا۔

    فاضل کی بات ٹھیک تھی۔ ان لوگوں نے یہ سوچ کر ہی اس مال کو فاضل کے خالی گھر میں دبا دیا تھا کہ کچھ عرصے بعد جب سب اس واقعہ کو بھول جائیں گے تو اس کو خاموشی سے وہاں سے نکال لیں گے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔ نوراں کی وجہ سے فاضل کی زندگی بھر کی کمائی دوبارہ مل گئی تھی۔

    اس نے اگلے روز نوراں سے کہا ۔ “نوراں بہن تم نے حویلی کے چوروں کو پکڑوا کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مانگو۔ انعام میں کیا مانگتی ہو”۔

    فاضل کی بیوی بھی وہیں موجود تھی۔ اس نے کہا ۔ “اپنے شوہر کی ساری کمائی کے نکل جانے کے غم میں میں تو بیمار پڑ گئی تھی۔ شکر ہے کہ اب میری بیماری بھی دور ہوگئی ہے۔ نوراں بہن ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے”۔

    فاضل اور اس کی بیوی کی باتیں سن کر نوراں بولی۔ “مالک۔ ہمارے اوپر تو آپ لوگوں کے اتنے احسانات ہیں کہ ہم مر کر بھی انھیں نہیں اتار سکتے۔ مجھے اور میری ماں کو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ کی چوری شدہ چیزیں واپس مل گئی ہیں۔ اللہ آپ کو مزید عزت اور دولت دے۔ آپ غریبوں کے بہت کام آتے ہیں، یہ سب اسی کا صلہ ہے۔ آپ نے ہمیں سر چھپانے کا ٹھکانہ دیا۔ اس سے بڑا انعام ہمارے لیے کیا ہوسکتا ہے”۔

    اس کی بات سن کر فاضل کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے کہا ۔ “وہ گھر جو میں نے تمہیں رہنے کے لیے دیا تھا، آج سے تم اس کی مالک ہو۔ اس کے علاوہ تمہاری بیٹی تابدار آج سے میری بیٹی ہے۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی اعلیٰ تعلیم سے لے کر اس کی شادی بیاہ کرنا میری ذمہ داری ہوگی۔ تم اب اس کی طرف سے بے فکر ہوجاو”۔

    نوراں اور اس کی ماں یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور فاضل کو دعائیں دیتی ہوئی گھر کو لوٹیں۔ فاضل نے اپنا وعدہ نبھایا دیا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کے ساتھ تابدار کو شہر بھیج دیا، جہاں وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ نوراں کو جب فاضل بتاتا ہے کہ تابدار پڑھائی میں سب سے آگے ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔ اس کے دل سے فاضل اور اس کے بیوی بچوں کے لیے بہت ساری دعائیں نکلتی ہیں۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے